Goristan Adab Ka Faqeer (گورستان ادب کا فقیر)

گورستان ادب کا فقیر

(عبدالمجیدسالک)

مسلم ٹاؤن لاہور

    مکرمی ۔ السلام علیکم

    آپ کے دو تین خط ملے لیکن میں کسی ایک کا بھی جواب نہ لکھ سکا۔ حالانکہ یہ کوتاہی میری وضع کے خلاف ہے۔ بخاری کا مرنا، میری محفل احباب کا قطعی طور پر اجڑ جانا ہے زندگی بالکل بےمزہ وبےرنگ ہوکر رہ گئی ہے۔

    آپ کو غالباً معلوم نہیں، میں کوئی سال بھرسے عوارض قلب میں مبتلا ہوں، لکھنا پڑھنا چھوٹ چکا ہے۔ مرکھپ کر ایک آدھ نشری تقریر ہفتہ میں لکھ لیتا ہوں اور بس۔ آج کل بھی بلڈپریشر میں مبتلا ہوں۔ ڈاکٹر محمد یوسف مہینوں سے علاج کررہے ہیں۔ آپ مجھ سے مضمون کی فرمائش کرتے ہیں تو بےحد شرمندہ ہوتا ہوں۔ کچھ کہہ نہیں سکتا کہ تعمیل حکم کرسکوں گا۔ اگر ممکن ہوا تو شاید کچھ لکھدوں نہ ہوا تو معذور جان کر معاف فرمادیجیئے گا۔

عبدالمجیدسالک

    مولانا عبدالمجیدسالک کا یہ خط مجھے ۱۳ دسمبر ۱۹۵۸ء کو ملا تھا۔ مگر اس عرصے میں مولانا موصوف کی صحت اور بگڑی اور کہ ہم لوگ دم سادھ کے رہ گئے۔ مضمون لکھوانا تو درکنار، ہمیں اپنی زندگی، ان کے حساب میں جمع کرانا پڑی۔ تب کہیں انہیں دوبارہ زندگی نصیب ہوئی۔

    ابھی دوچار روز کی بات ہے کہ میں پھر ان کی خدمت میں حا ضر ہوا تھا۔ خیال تھا کہ اگر ان کی صحت اچھی ہوئی تو پطرس پر لکھنے کے ليے کچھ عرض کروں گا۔ انہیں دیکھا تو کچھ کہا نہ گیا۔ دل کی دل ہی میں لے کر واپس آگیا۔
بخاری صاحب کے جتنے گہرے تعلقات عبدالمجیدسالک سے تھے اتنے اور کسی سے نہ تھے۔ دین تھے تو یہ، دنیا تھے تو یہ، دوست تھے تو یہ، بھائی تھے تو یہ، مشیر تھے تو یہ، استاد تھے تو یہ، گویاسب کچھ بخاری صاحب کے ليے سالک صاحب تھے۔

    بیماری نے انہیں اس حد تک نڈھال کردیا ہے کہ باوجود انتہائی کوشش کے وہ پطرس کے ليے کچھ نہیں لکھ سکتے حالانکہ اتنا کچھ لکھناچاہتے ہیں کہ آپ پڑھ پڑھ کر خوش ہوں اور یہ لکھ لکھ کر۔

    مجبوری کے عالم میں مولانا موصوف کی دو چھوٹی چھوٹی تحریریں پیش کر رہے ہیں۔ ایک تو بخاری کی وفات پر، ریڈیو پر ان کا پیغام ہے، دوسری ایک اور مطبوعہ تحریر جس میں پطرس بھی ہے اور مجید بھی۔

(محمد طفیل)

۱
    احمد شاہ بخاری کی موت پاکستان میں علم وادب اور خلوص ومحبت کی موت ہے۔ اس کے دوست اشکبار ہیں اور پورا ملک ناقابل تلافی نقصان پر ششدرو مبہوت ہورہا ہے۔ اس بےنظیر قابلیت کے افراد ہمارے ملک میں نایاب ہیں جو زندگی کی ہر مصروفیت میں اپنے اپنے ہم عصروں سے نمایاں طور پر ممتاز نظر آئیں۔ بخاری صاحب گورنمنٹ کالج لاہور کے پروفیسر کی حیثیت سے، آل انڈیا ریڈیو کے ڈائیریکٹر جنرل کی حیثیت سے، پھر اپنے کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے، اس کے بعد اقوام متحدہ میں پاکستان وفد کے رئیس کی حیثیت سے، جہاں کہیں بھی رہےسربلند وممتاز اور نمایاں رہے۔ وہ ادب وانشاء، طنزومزاح اور تنقید عالیہ میں دور دور تک اپنی مثال نہ رکھتے تھے۔ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پورے برصغیر میں بخاری کے بیسیوں شاگرد اپنی اپنی حکومتوں کے اعلیٰ عہدوں پر ممتاز ہیں اور بہترین خدمات بجا لا کر اپنے عالی قدر استاد کا نام روشن کر رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ بخاری نے ادب وانشاء میں بہت قلیل سرمایہ چھوڑا ہے لیکن اس کے قلم سے جو چند تنقیدی مضامین اور جو ایک دو کتابیں نکلیں، وہ ہمیشہ ہمارے ادیبوں اور نقادوں کوصحیح الخیالی اور بالغ نظری کا سبق دیتی رہیں گی۔ اور پاکستان ہمیشہ اپنے اس عدی المثال اور عالی دماغ فرزند پر ناز کرتا رہے گا۔

* * *

۲
    جن دنوں میں کراچی میں مقیم تھا۔ بخاری مرحوم پاکستان آئے تو چند روز کراچی میں فروکش رہے۔ ایک دن مجھ سے پوچھنے لگے کہ کہیے کوئی نیا دوست بھی بنایا۔ میں نے کہا کیسی باتیں کرتے ہو، کبھی دوست بھی بنائے جاتے ہیں اور خصوصاً اس عمر میں؟ دوست تو جوانی میں میسر آتےہیں۔ اور خودبخود بن جاتے ہیں۔ البتہ بعض مخلص نوجوان زندگی کے ہر حصے میں ملتے ہیں جن کے خلوص پر جان قربان کردینے کو جی چاہتا ہے۔ مثلاً تم نے مجید لاہوری کا نام سنا ہوگا؟ کراچی میں یہ شخص میرا تنہا رفیق اور دوست ہے۔ اسے عالم اور ادیب ہونے کا دعویٰ نہیں لیکن طبیعت کی جودت کی وجہ سے اچھے اچھے عالم اور ادیب اس کی قدر کرتے ہیں۔ کہنے لگے تو پھر ہم سے اس کی ملاقات ضرور کرادیجیئے۔

    ایک دن میں مجید کو لے کر برسٹل ہوٹل کے پا س بخاری کے ہاں گیا۔ "جنگ" کا "حرف وحکایت" تو پڑھتے ہی تھے۔ اب اس کے مصنف کو دیکھا تو بےحد نہال ہوئے اور جب باتیں سنیں تو اور بھی زیادہ فریفتہ ہوئے۔ مجید کی بھولی بھالی صورت، اس کے بےضرر تفنن اور مخلصانہ سادگی کی وجہ سے پہلی ہی ملاقات میں اس سے یوں پیار کرنے لگے جیسے برسوں کی شناسائی ہو، مجید کی نظمیں سنیں تو اور بھی لٹو ہوئے۔ اس کے بعد قرار پایا کہ ہر روز رات کے وقت کھانے کے بعد سالک کے مکان پر "خلوت اُنس" برپا ہوا کرے۔ جس میں بخاری اور مجید کے سوا کوئی نہ ہوا۔ چنانچہ عقب ریڈیو اسٹیشن والے مکان میں یہ نشست باقاعدہ منعقد ہونے لگی۔ خشک پھل کی پلٹیں تپائیوں پر پڑی ہوتیں۔ چلغوزوں کا انبار موجود ہوتا اور نمکین اور گرماگرم کشمیری چائے کے بھرے ہوئے تھرمس تیار رہتے۔ بخاری، مجید اور میں چائے کی چسکیاں لیتے، چلغوزے کھاتے اور غزلیں پڑھتے۔ یہ صحبت بعض اوقات دو دو بجے رات کو ختم ہوتی۔

    ان صحبتوں میں مجید کراچی کی سیاسیات، پاکستان کے بعض اکابر کی خصوصیات اور بعض ادبی، مجلسی اور اقتصادی (یعنی تجارتی) شخصیتوں کے لطیفے اپنے مخصوص انداز میں سناتا۔ بخاری بےحد شگفتہ ہوتے۔ اور اقوام متحدہ اور امریکہ کے واقعات کی جگالی کرتے۔ اور پرانی یادوں سے اپنے خزاں رسیدہ دور زندگی کی ویرانیوں کو لالہ زار بناتے اور پھر جب رات بوڑھی ہونے لگتی تو بخاری مجید کو اپنے موٹرکار میں بٹھا کر اس کے گھر پہنچاتے اور پھر اپنے گھر جاتے۔

    جب تک مجید زندہ رہے بخاری پر والہ شیفتہ رہے اور بخاری بھی نیویارک سے جب کوئی خط مجھے لکھتے، مجید کا حال ضرور پوچھتے، اور 'نمک دان' بھیجنے کا تقاضا کرتے چنانچہ ہم "نمک دان" کے پرچے جمع کرکے وزارت خارجہ کے ذریعے "ڈپلومیٹک بیگ" میں بخاری کو ارسال کردیتے۔

    مجید کے انتقال پر بخاری اس قدر غمزدہ ہوئے کہ ان کا تعزیتی خط جو میرے نام آيا خود روتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔

    ابھی حسرت ومجید کا ماتم ختم نہ ہونے پایا تھاکہ ہم لوگوں کو بخاری جیسے عظیم الشان دوست اور عظیم الشان انسان کے فقدان پر سینہ کوبی کرنی پڑی۔ میں تو محسوس کرتا ہوں کہ گویا گورستان ادب کا فقیر ہوں جنازے دھڑادھڑ آرہے ہیں یہاں تک کہ انہیں دفن کرتے کرتے تھک گیا ہوں چاروں طرف نظریں ڈالتاہوں تو تنہائی کاٹنے کو دوڑتی ہے۔

    زندگی کی شاہراہ حوادث کے آفتاب کی تمازت سے تپ رہی ہے۔آہ! اے موت کی سایہ دار سرزمین! تو کہاں ہے؟ کہ راہ حیات کے مسافر تیری ٹھنڈی چھاؤں میں آرام پاسکیں اور ان گئے گذروں سے جاملیں جو اپنی خوش نصیبی کی وجہ سے اس تیرہ خاکدان سے نجات پا کر جاچکے ہیں۔

یاریانِ موافق ہمہ اردست شدند
ازدست ا جل یگاں یگاں پست شدند

بودندتنک شراب درمجلسِ عمر
یک لحظہ زما پیشترک مست شدند

***