Zabita Bey Zabita (ضابطہ، بے ضابطہ)

ضابطہ، بے ضابطہ

(عشرت رحمانی)

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں،
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

   بات ۱۹۳۴ء کی ہے۔ دہلی میں آل انڈیا ریڈیو کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ محکمہ کے کنٹرولر ذہین وطباع انگریز مسٹر لائنیل فلیڈن، اسٹیشن ڈائریکٹر مسٹر اسٹپلٹن اور پروگرام ڈائریکٹر سید ذوالفقار علی بخاری (ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل) تھے۔ ان کے علاوہ آغا محمد اشرف (بنیرہٴ آزاد) اور سجاد سرور نیازی جیسے اہل فن حضرات بھی عملہ کے رکن تھے۔ مسٹر فیلڈن خود ایک ماہر اہل قلم ہونے کے ساتھ نشریات کے رموز سے بھی کما حقہ واقف تھے جو ارباب ہنر انہوں نے جمع کئے تھے ان کے لئے ایسے سرگروہ کی تلاش تھی جو ان کی صحیح قیادت کی اہلیت رکھتا ہو اور ملک کے لئے نشریات کا موزوں لائحہ عمل مرتب کرکے ان کو مناسب طریقے پر چلا سکے۔ چنانچہ مسٹر فیلڈن نے برصغیر کی تمام یونیورسٹیوں کو مراسلے بھیجے کہ وہ اپنے اداروں سے ایسے لائق اہل علم وہنر چن کر اس کام کے لئے بھیجیں جن کے تعاون سے وہ اپنے دست وبازو مضبوط کرکے باضابطہ کام چلا سکیں چنانچہ کئی اداروں کے اربابِ اختیار نے چند اہم شخصیتوں کو منتخب کرکے مسٹر فیلڈن سے ملاقات کے لئے بھیج دیا۔ ان میں دو نام خاص تھے۔ ایک مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے پروفیسر رشید احمد صدیقی اور دوسرے گورنمنٹ کالج لاہور کے پروفیسر سید احمد شاہ بخاری پطرس۔ یہ حسنِ اتفاق تھا یا حسنِ انتخاب کہ یہ دونوں حضرات اردو کے مشہور مزاح نگار اور بلند پایہ ادیب بھی تھے اور ادب انگریزی کے پروفیسر بھی۔
   فیلڈن صاحب نے تمام منتخب حضرات کا ملاقات کے دوران میں ضابطہ بے ضابطہ جائزہ لیا اور سید احمد شاہ بخاری کو اپنا دستِ راست منتخب کر لیا۔ مسٹر فیلڈن نے برصغیر کے قیام کے دوران میں آغا محمد اشرف سے اردو پڑھی تھی لیکن یہ استعداد معمولی تھی۔ وہ بخاری صاحب کی اردو ادیب کی حیثیت سے بےمثال خوبیوں کا اندازہ تو نہ کرسکتے تھے لیکن ابتدائی ملاقاتوں میں ان کی شخصیت وکمال کا بخوبی جائزہ لے کر اس حقیقت کے معترف ہوچکے تھے کہ پطرس بخاری انگریزی زبان وادب کی مہارت میں اس برصغیر کی منفرد حیثیت کے مالک ہیں۔ اور اپنی طباعی، غیر معمولی ذہانت اور مختلف علوم وفنون میں واقفیت رکھنے کے سبب ان کی متنوع شخصیت گوناگوں کمالات کی حامل ہے اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہ تھی باخبر حضرات اس حقیقت سے اچھی طرح آشنا تھے اور ہیں کہ پطرس بخاری کی شگفتہ مزاجی، بزلہ سنجی اور ہمہ گیر لیاقت وذہانت ہر اعلیٰ وادنیٰ محفل میں ان کی ذات کو ممتاز بنائے رہتی اور بڑی سے بڑی مجلس میں ان کی صفات غالب ونمایاں نظر آتیں۔ بیک وقت ان کو متعدد زبانوں اردو، انگریزی، فارسی، پشتو اور فرانسیسی وغیرہ پر قدرت حاصل تھی۔ چونکہ میرے پیش نظر بخاری صاحب کے ادبی ولسانی کمالات سے بحث کرنا نہیں بلکہ ان کی باضابطہ شخصیت کی چند یادوں کا بےضابطہ تذکرہ مقصود ہے اس لئے ان تفصیلات سے گریز مناسب ہوگا، مختصر یہ ہے کہ آل انڈیا ریڈیو دہلی کے اسٹیشن پر پروفیسر سید احمد شاہ بخاری اسٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے اور دہلی کی علمی ادبی مجالس میں پطرس کے چرچے ہونے لگے۔
   زیادہ عرصہ نہ گزرنے پایا تھا کہ پطرس بخاری نے محکمہ میں اپنی قابلیت کا سکہ جما لیا لیکن اس وقت ریڈیو اسٹیشن پر دو بخاری تھے۔ ان دونوں بھائیوں نے اپنے اپنے انداز فکر ونظر کے لحاظ سے اس برصغیر میں نشریات کی تاریخ کی تدوین کا آغاز کر دیا اور متحدہ طور پر مستحکم تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ اب نشری دنیا میں یہ دو شخصیتیں، بڑے بخاری اور چھوٹے بخاری کے نام سے مشہور ہوگئیں۔ کچھ عرصہ ”بڑے بخاری“ اسٹیشن ڈائریکٹر اور ”چھوٹے بخاری“ اسسٹنٹ اسٹیشن ڈائریکٹر رہے لیکن پھر بڑے بخاری ڈپٹی کنٹرولر مقرر ہوگئے اور چھوٹے بخاری اسٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے فیلڈن صاحب کنٹرولر رہے مگر انہوں نے بڑے بخاری صاحب کو ان کی ذہانت وقابلیت کے بھروسے پر محکمہ کے سیاہ وسفید کا مالک بنا دیا۔
   ڈپٹی کنٹرولر بخاری نے برصغیر میں نشریات کا جال بچھانا شروع کیا۔ نئے نئے اسٹیشن کھولے۔ ضروری قواعد منضبط کئے اور گوشے گوشے میں ہونہار شخصیتوں کو کھینچ کر کسی نہ کسی حیثیت سے محکمہ نشریات میں لاشامل کیا۔ تعلیمی اور ادبی حلقوں سے متعدد نامور حضرات آکر مختلف اسٹیشنوں پر جمع ہوگئے۔ پروفیسر رشید احمد (حال ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان) سومناتھ چب (حال سیکریٹری ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ، ہند) ن۔ م۔ راشد (حال ڈپٹی ڈائریکٹر اقوام متحدہ امریکہ متعینہ کراچی) محمود نظامی (حال ڈائریکٹر محکمہ تعلقات عامہ، مغربی پنجاب) الطاف گوہر (حال کنٹرولر محکمہ درآمد وبرآمد حکومت پاکستان) اعجاز بٹالوی (بیرسٹر)سید انصار ناصری (حال ریجنل ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان) ملک حسیب احمد (حال پبلک ریلیشن آفیسر این ڈبیلو آر) رفیع پیرزادہ (میوزک ڈائریکٹر) راقم الحروف اور متعدد اصحاب تھے جو بڑے بخاری صاحب کے عہد میں ان کے اشارے یا تحریک پر نشریات میں ”داخل دفتر“ ہوئے ان میں سے بعض حضرات نے بعد میں اپنے لئے کوئی نہ کوئی نیا میدان تلاش کر لیا اور بعض اب تک ریڈیو پاکستان میں موجود ہیں لیکن بخاری صاحب کی نظرِ انتخاب نے جن لوگوں کو قابل اہلکار تصور کیا تھا وہ اب خواہ کسی میدان میں بھی ہوں سرمیدان ہی نظر آتے ہیں۔
   ڈپٹی کنٹرولرہونے کے زمانے میں بخاری صاحب فیلڈن صاحب ہی کی نظر میں نہیں بلکہ اعلیٰ انگریز حکام اور اقتدار اعلیٰ کی نگاہوں میں بھی معتمد الیہ تصور کئے جانے لگے ان کا ضابطہ تحریر وتقریر دونوں حیثیت سے ناقابل تسخیر تھا۔ جو تجویز یا تحریک ہوتی، معقول اور مدّلل، جو بات کرتے پختہ اور مناسب، اس لئے کوئی وجہ نہ تھی کہ افسران بالا سے منوا کر نہ چھوڑتے۔
   بخاری صاحب کی بےضابطہ شخصیت کے رموزو نکات اور ادبی کمالات سے تو ہر عام وخاص بخوبی واقف ہے اور پطرس کی حیثیت سے جاننے والے ان کے طنز ومزاح کی بے مثال خوبیوں کے دلی مدّاح ہیں۔ لیکن باضابطہ سرکاری افسر اعلیٰ کی حیثیت سے صرف وہی لوگ ان کی نکتہ رس شخصیت سے آگاہ ہیں جنہوں نے ان کے ماتحت براہِ راست یا بالواسطہ محکمہ نشریات میں کام کیا ہے۔ بخاری صاحب ڈپٹی کنٹرولر ہی تھے کہ میں ان کے ایما سے اسی محکمہ میں پروگرام اسسٹنٹ کی حیثیت سے داخل ہوا۔ ۱۹۳۹ء کا زمانہ تھا اور میں اس وقت دہلی کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ادارے سے منسلک تھا۔ میرے ڈرامے اور تقریریں دہلی کے ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہوا کرتی تھیں۔ دہلی میں رہتے سات آٹھ سال گزرے تھے۔ میں اور چھوٹے بخاری دہلی کی بزم احباب کے قدیم رکن تھے۔ بڑے بخاری صاحب سے مجھے نیازمندی کا شرف حاصل تھا۔ ایک مجلس میں نشریات پر بات ہو رہی تھی۔ بحث کے دوران میں بڑے بخاری صاحب نے بڑی شفقت سے حاضرین سے چند اصحاب کو مخاطب کرکے مشورہ دیا بلکہ ڈانٹا کہ آپ لوگوں کو ریڈیو کے محکمے میں باضابطہ داخل ہو کر کام کرنا چاہئے تاکہ آپ اپنے رجحان کے مطابق کچھ مفید کام کر سکیں۔ علمی، ادبی دلچسپیوں کا مرکز اب محکمہ نشریات کو بننا چاہئے۔ اسی سلسلے میں ایک مشہور ادیب کا نام لے کر فرمایا ”…صاحب، لکھنوٴ سے مجھے ملنے آئے تھے۔ آج کل جو آسامیاں پروگرام اسسٹنٹ کی ہمارے یہاں خالی ہیں ان کے لئے پُرزور اصرار کرتے تھے۔ میرے خیال میں وہ اس جگہ کے لئے موزوں نہیں، ضابطہ کی پابندی ہر ادیب کے بس کی نہیں!“ چونکہ میں ان صاحب سے واقف تھا۔ بخاری صاحب نے میری طرف دیکھ کر فرمایا ”کیا خیال ہے؟“ میں سمجھا کہ بخاری صاحب ان کی نسبت مجھ سے دریافت کر رہے ہیں میں نے کہا ”بجا ارشاد ہے“ بخاری صاحب نے مخصوص انداز سے زیرلب تبسم فرما کر کہا ”بھئی میں… صاحب کے بارے میں آپ کا خیال نہیں پوچھ رہا میں کسی کے بارے میں یونہی رائے قائم نہیں کرتا نہ اپنی رائے پر ووٹ حاصل کرنے کا پیشہ اختیار کیا ہے۔ میں تو اس آسامی کے لئے آپ سے دریافت کر رہا ہوں اگر آنے کا خیال ہے تو درخواست دے ڈالئے۔ ہو جائے مقابلہ“ میں پہلے تو کچھ نادم ہوا پھر سوچ میں پڑ گیا کہ جواب کیا دوں۔ بخاری صاحب نے میرے تذبذب کو تاڑ لیا فرمایا ”سوچ سمجھ کر فیصلہ کر لو جلدی نہیں مقابلہ ذرا سخت ہے۔ انتخابی بورڈ میں دس بارہ ممبر ہوتے ہیں۔ فیلڈن صاحب صدر ہیں۔ میں تو دانستہ بورڈ میں شامل نہیں ہوتا۔ سفارشوں کے طومار کون بھگتے، پھر ضابطہ کرے تو معقولیت ضبط، بے ضابطہ کارروائی اپنے بس کی نہیں۔ پھر ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ مجلس برخواست ہوئی چلتے ہوئے بخاری صاحب نے فرمایا مجھے ”پھر درخواست آتی ہے؟“ میں نے عرض کیا ”سوچ رہا ہوں“ بولے صرف یہ سوچو کہ اگر انتخاب میں آگئے اور داخل دفتر ہوگئے تو یکسوئی ملتی ہے، منتشر خیالات میں کچھ بات نہیں بنتی“۔
   میں نے چند احباب واعزا سے مشورہ کیا۔ درخواست بھی دی۔ منتخب بھی ہوگیا۔ پروگرام اسسٹنٹ کے عہدہ پر تقرر ہوا اور لکھنوٴ اسٹیشن کی تعیناتی ملی۔ میرے لئے دہلی چھوڑنا سخت تکلیف دہ تھا۔ بارہ خواجاؤں کی چوکھٹ، ادیبوں، شاعروں اور سب سے بڑھ کر عزیز دوستوں کی جدائی بڑی شاق تھی۔ احباب کی رائے ہوئی کہ بخاری صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر لکھنوٴ کی تعیناتی کی جگہ دہلی اسٹیشن کی تقرری منظور کرالوں۔ یہ معاملہ قطعی بخاری صاحب کے اختیار میں تھا۔ میں نے ٹیلی فون کے ذریعے بخاری صاحب سے حاضری کی اجازت لی۔ اب میں ڈپٹی کنٹرولر نشریات کے دفتر میں ایک پروگرام اسسٹنٹ کی حیثیت سے داخل ہوا تھا۔ لیکن بخاری صاحب نے میرے کمرے میں داخل ہوتے ہی حسب سابق تپاک سے ہاتھ ملایا اور بیٹھ کر چند ضابطہ کی ہدایات شروع کر دیں کیونکہ میں اس محکمہ میں نووارد تھا اور وہ ایک مخلص مہربان افسر اعلیٰ۔
   بعد ازاں میں نے اصل معاملہ پیش کیا۔ اور اپنی لکھنوٴ کی تقرری کے احکام کی تبدیلی اور دہلی میں رہنے کی خواہش ظاہر کی۔ بخاری صاحب نے نہایت سنجیدگی سے کہا ”عشرت صاحب! آپ کا تقرر لکھنوٴ کے لئے محض اتفاقیہ نہیں بلکہ دانستہ ہے۔ آپ عرصہ دراز سے دہلی میں مقیم ہیں آپ کے تعلقات یہاں کے ادبی اور تعلیمی حلقوں میں وسیع ہیں آپ کا تقرر دہلی ریڈیو کے کسی شعبہ میں ہو تو آپ کی جان ضیق میں ہوجائے گی۔ لوگ آپ کو شک وشبہ کی نظروں سے دیکھنے لگیں گے۔ آپ پر کسی حلقے کی بےجا طرفداری اور کسی کی بےجا مخالفت کے الزام لگائے جائیں گے جس محکمہ کا پبلک سے قریبی واسطہ ہو وہ عوام اور خواص ہر طبقہ کی نظروں میں رہتا ہے۔ ریڈیو کے محکمے کا بھی یہی حال ہے اس لئے ریڈیو اسٹیشن کے ذمہ دار اور کسی حد تک بھی بااختیار اہلکار کا اس اسٹیشن (مقام) پر تعینات ہونا خود اس کے اور محکمہ دونوں کے حق میں مفید نہیں۔ آپ خاص مکتب خیال سے تعلق رکھتے ہیں خود ادیب ہیں شاعر ہیں آپ کے دوست بھی ادیب اور شاعر ہیں اور دشمن بھی۔ ان میں سے بعض آپ کے ہم خیال ہوں گے اور بعض مخالف۔ آپ کس کس کو خوش رکھ سکیں گے۔ اپنے متعلقہ شعبہ میں آپ سارے شہر کے ادیبوں اور شاعروں کو پروگرام نہیں دے سکیں گے اس لئے بہت جلد مظعون ہو جائیں گے اور ضابطہ بےضابطہ ہر طرح سے آپ کی کڑی نگرانی ہونے لگے گی اور نتیجہ آپ کے حق میں مضر ہوگا۔
   بخاری صاحب کی یہ مشفقانہ نصیحت اور مجرب گر دل کو لگے لیکن دہلی کی مفارقت کا خیال ستا رہا تھا۔ میں نے پھر بھی عرض کیا۔ آپ نے جو فرمایا بجا ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ ابھی کچھ عرصہ دہلی میں اور رہ لیتا اس کے بعد کہیں بھی بھیج دیا جاتا۔بخاری صاحب ذرا سر اونچا کرکے گردن ہلاتے ہوئے حسب عادت مسکرائے اور بولے،  آپ سمجھ رہے ہیں میں ٹالنے کے لئے آپ کو بہلا رہا ہوں بات معمولی ہے آپ کو کچھ عرصہ کے لئے نہیں مستقلاً دہلی میں رکھا جا سکتا ہے مگر بات اب کی ہے ابھی آپ کا قیام دہلی میں آپ کے لئے مناسب نہیں۔ ابتدائی ایام میں دہلی کی ادبی مجالس راس نہ آئیں گی ان سے دور دلجمعی سے کام کرنے کا موقعہ ملے گا او رپھر یہ جدائی عارضی ہے ”یار زندہ صحبت باقی“ اطمینان سے روانہ ہو جائیے اور لکھنوٴ پہنچ کر کام میں دل لگائیے۔ اچھا! خدا حافظ“ اور کرسی سے اُٹھتے ہوئے ہاتھ بڑھا دیا۔ میں بھی اُٹھ کھڑا ہوا اور ہاتھ بڑھاتے ہوئے بخاری صاحب کے سنجیدہ متبسم چہرے پر نگاہ ڈالتے ہوئے بعد سلام رخصت ہوا۔ میرے مخلص احباب میں سے ایک محترم بزرگ اکبر حیدری مرحوم تھے۔ میں نے ان سے بخاری کی گفتگو کا حال بتایا انہوں نے بخاری صاحب کی رائے کی حرف بحرف تائید کی اور کہا ”بخاری صاحب نے نہایت معقول فیصلہ کیا ہے۔ دہلی کے ادبی حلقوں میں اس قسم کی چہ میگوئیاں ابھی سے شروع ہوگئی ہیں۔ بعض ادیب احباب کو پروگراموں کی امید ہے بعض اس انتظار میں ہیں کہ اگر تم دہلی اسٹیشن پر تعینات ہوجاؤ تو تمہارے خلاف جا بےجا شکایتوں کا محاذ کھڑا کر دیں۔ بات ختم ہوئی میں لکھنوٴ چلا گیا اور بس!
   جیسا کہ بخاری صاحب نے فرمایا تھا۔ یہ واقعی معمولی بات تھی اور ایک ادنیٰ ماتحت کے ساتھ (جو اس محکمہ میں ہنوز قدم رکھنے آیا تھا) اس قدر تفصیلی گفتگو کی چنداں ضرورت بھی نہ تھی۔ وہ حسب ضابطہ یہ کہہ کر بات ختم کرسکتے تھے کہ جس اسٹیشن پر تعیناتی ہوئی ہے وہی مناسب ہے اس حکم پر کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ لیکن بخاری صاحب کا ضابطہ اس کا خوگر نہ تھا۔ انہوں نے ابتدا ہی سے مجھے اپنی ناصحانہ گفتگو سے اس محکمہ میں کام کرنے کے ضوابط اور نشیب وفراز سمجھا دیئے جن سے میں نے بہت سیکھا اور اپنی ملازمت کے دوران ان پر کاربند رہ کر اپنی ذات اور محکمہ کے لئے مفید ثابت ہوتا رہا۔ نیز انہوں نے حاکمانہ انداز اختیار کرکے سرسری طور پر میری درخواست رد کرنے کے بجائے بے ضابطہ طور پر ضابطہ کو اس خلوص اور محبت سے سمجھایا کہ میں قائل ہونے کے ساتھ ہی مطمئن واپس آیا۔
   اس واقعہ کی عمومیت یہاں تفصیل طلب تھی تاکہ بخاری صاحب کے ضابطہ کی خصوصیت واضح ہو سکے۔ ایک اعلیٰ افسر ہونے کی حیثیت سے انہوں نے محکمہ کے نظم ونسق کو اسی طرح منضبط کیا تھا ان کے ہر قول وفعل اور فیصلہ میں ہمیشہ خوداعتمادی، نکتہ رسی، دور اندیشی اور قطعیت ہوا کرتی اور لطف یہ کہ کسی کے خلاف فیصلہ کی صورت میں اس کی دل آزادی کا اظہار تک نہ ہوتا۔ وہ ضابطہ کے ہر معاملہ میں معمولی بات کو خاص اہمیت دیئے بغیر نہ ٹالتے اور اہم بات کو عام انداز میں اس طرح طے کر ڈالتے جیسے نہایت معمولی ہو۔ یہ وہ دور تھا جب کہ ایک پروگرام اسسٹنٹ کا وقار اور اختیار بھی خاصہ دقیع ووسیع ہوتا۔ اسٹیشن ڈائریکٹر اور پروگرام ڈائریکٹر کے فیصلوں کی بنیاد زیادہ تر پروگرام اسسٹنٹ کی تجویز ورائے پر ہوا کرتی۔ کانگریس ومسلم لیگ اور ہندو مسلم مناقشات کا زمانہ تھا۔ مسلم لیگ کے پیش نظر مسلمانوں کا مفاد اور ان کی آزادی کا حصول تھا کانگریس ہندو گردی پر اڑی ہوئی تھی۔ لکھنوٴ یو پی کا مرکز ہی نہیں سارے صوبے کی سیاسیات کا مرکز تھا۔ ایک بار ایک بڑے ہندو مہاشے کی تقریر نشر ہونا تھی۔میں نے تقریر کا مسودہ پڑھ کر مہاشے جی سے چند تبدیلیوں کے لئے کہا کیونکہ وہ باتیں پالیسی کے خلاف اور مناقشات کو بڑھانے والی تھیں۔ مہاشے جی نہ مانے۔ معاملہ اسٹیشن ڈائریکٹر تک پہنچا انہوں نے میری تجویز کے مطابق فیصلہ کیا۔ مہاشے جی بگڑ کر چلے گئے اور تقریر نشر کرنے سے انکار کر دیا۔ دوسرے روز مہاشے جی کی خفگی اور ریڈیو اسٹیشن کی کارروائی ضابطہ تمام اخباروں کی سرخیاں بن گئیں۔ ریڈیو کو موردِ الزام قرار دے کر خوب خوب لے دے کی گئی۔ کانگریسی اخبارات نے ریڈیو کے محکمے اور مرکزی حکومت کو ہلا ڈالنے کا اعلان کر دیا۔ میری موقوفی کا مطالبہ کیا گیا۔
   غیر معمولی ہنگامہ تھا۔ ڈائریکٹر جنرل (بخاری صاحب) کو دہلی سے بہ نفس نفیس تحقیقات کے لئے آنا پڑا۔ بخاری صاحب نے تقریر کا سودہ پڑھا۔ صورتحال کا جائزہ لیا او رپھر خود مہاشے جی سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے۔ کوئی گھنٹہ بھر بعد بخاری صاحب ریڈیو اسٹیشن واپس آئے مہاشے جی ان کے ہمراہ تھے۔ بخاری صاحب مسکرا رہے تھے اور مہاشے جی خاموش تھے۔ اسٹیشن ڈائریکٹر کے کمرے میں میری طلبی ہوئی۔ سامنے پہنچتے ہی مہاشے جی نے بڑی خندہ پیشانی سے ہاتھ ملایا اور بولے ”میری غلط فہمی بھی تھی مگر آپ کا انداز ناخوشگوار تھا“۔ بخاری صاحب نے مسکراتے ہوئے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور بولے ”آپ بزرگ ہیں لیکن ان لوگوں کی مجبوریاں احتیاط کی متقاضی ہیں“ معلوم نہیں بخاری صاحب کی حکمت عملی اور شگفتہ بیانی نے مہاشے جی پر کیا جادو کیا کہ وہ اپنی ساری منطق بھول کر اسی رات مجوزہ تقریر نشر کرنے پر آمادہ ہوگئے اور انہوں نے خود ہی اخبارات کے منہ بند کر دیئے اور ہماری دوستی کا دم بھرنے لگے۔
   حقیقت یہ ہے کہ یہ بخاری صاحب کے علم وفضل اور حسنِ گفتار وکردار کی خوبی تھی جس نے آل انڈیا ریڈیو کے محکمہ کو ایسے طوفانی زمانے میں فرقہ وارانہ تفرقوں سے محفوظ رکھا۔ عملے کے ادنیٰ واعلیٰ اراکین میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی سب فرقوں کے خواتین وحضرات شامل تھے۔ لیکن باستثائے چند ہر اسٹیشن پر اتحاد ویگانگت کے روابط قائم تھے۔ ہندو مہاسبھا نے بار بار اس قسم کی تفرقہ اندازی کی کوشش کی۔ خصوصاً اردو زبان کو مٹا کر ہندی رائج کرنے کی بڑی جدوجہد کی۔ مگر مہاسبھائی جوڑ توڑ بخاری صاحب کے تدبر وحکمت نے توڑ پھوڑ کر رکھ دیئے۔ نام بدل کر ہندوستانی ہوا مگر زبان کی سلامت اور رچاؤ بدلنے نہ پایا۔ اور جب ایک وقت آیا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے ”زبان“ اور مسلمان دونوں کے گلے پر چھری چلائیں تو انہوں نے کھلم کھلا انکار کرکے اس عہدہٴ جلیلہ سے سبکدوشی اختیار کر لی۔
   جب کانگریس کی حکومت برصغیر پاک وہند میں قائم ہوئی۔ اس وقت سردار پٹیل جو کٹر مہاسبھائی ذہنیت کے مالک تھے محکمہ اطلاعات ونشریات کے وزیر مقرر ہوئے۔ مسٹر پٹیل نے کرسی وزارت پر متمکن ہوتے ہی محکمہ نشریات میں ہندو گردی کا آغاز کر دیا۔ زبان ہندی، پروگراموں کی ترتیب ہندی اور موسیقی کے لئے احکام نافذ کئے گئے کہ تمام پیشہ ور موسیقار خواتین گانے کے پروگرام سے یک قلم خارج کر دی جائیں۔ ظاہر ہے کہ شوقیہ گانے والی خواتین سے مراد صرف غیر مسلم خواتین تھیں۔ بیک وقت مسلم دشمنی اور ہندو نوازی کی پالیسی مرتب ہوگئی، اردو زبان کی جگہ کھلم کھلا ہندی کا رواج تجویز ہوا۔ ڈائریکٹر جنرل (مسٹر بخاری) نے پہلے تو وزیر پٹیل کو سمجھایا بجھایا کہ اس انداز سے پروگرام بےجان ہوجائیں گے ہمیں زبان اور آرٹسٹ دونوں کے مسئلہ کو مناسب اور موزوں طریقے سے حل کرنا چاہئے اور ایک متوازن وخوشگوار تناسب قائم رکھنا چاہئے لیکن مسٹر پٹیل کا منشا ہی کچھ اور تھا وہاں تناسب کی جگہ تناسخ کا مسئلہ زیرنظر تھا۔ چنانچہ ذی ہوش، صاحب خردوحوصلہ مند بخاری نے اس بےبسی اور بےاختیاری کے تحت اس اعلیٰ عہدے کو قبول کرنا اپنی کسر شان اور موجودہ پالیسی کو اختیار کرنا اپنی دیانت وبسالت کے منافی تصور کیا۔ بخاری صاحب گورنمنٹ کالج لاہور واپس آئے اور آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل ایک ہندو مہاشے (مجوزہ اسکیم کے مطابق) مقرر ہوگئے۔ بخاری صاحب نے اپنے اصول اور ایمان وایقان کی قربانی گوارا کی نہ جاہ ومنصب کی طلب میں سرتسلیم خم کیا۔
   بخاری صاحب ضابطہ وقاعدہ کے سختی سے پابند ہونے کے باوجود ہر معاملے کو چٹکی بجاتے باتوں باتوں میں طے کر دیتے تھے مشکل سے مشکل مسئلہ کو نہایت خندہ پیشانی سے بآسانی حل کرنا ان کے ضابطہ کا خاصہ تھا۔ ان کی ضابطہ کی زندگی کے بے شمار واقعات ومطائبات مشہور ہیں جن کا بیان اس مختصر مضمون میں دشوار ہے وہ اپنے تمام ماتحت اہلکاروں سے ایک اعلیٰ افسر سے زیادہ ایک ناصح مشفق کا سلوک اختیار کرتے ہر شخص کی ذہنی صلاحیت اور قابلیت کو بخوبی پرکھ لیتے۔ اس کے ساتھ اسی انداز سے ہم کلام ہوتے اور اس کے عین مطابق برتاؤ کرتے۔ شگفتہ بیانی ان کا خاص کمال تھا۔ اور ہر شخص کے ساتھ گفتگو کے دوران میں اس کا دل موہ لینا اور بڑی سے بڑی شخصیت پر چھا جانا ان کا ادنیٰ کرشمہ تھا۔ ان کے حلقہٴ احباب میں سیاسی لیڈر، سرکاری افسران اعلیٰ، پروفیسر، عالم فاضل اور ادیب وشاعر سب ہی تھے لیکن سب ہی کو ان کی لیاقت اور حسنِ گفتار کا معترف پایا۔ ان احباب میں سے اکثر ان کے ضابطہ کے کاموں میں سفارشیں بھی کرتے لیکن وہ تمام معاملات میں وہی فیصلہ کرتے جو حق ودیانت کے مطابق ہوتا۔ لطف یہ ہے کہ خلافِ فیصلہ کی صورت میں بھی کسی کو شکایت کا موقع نہ دیتے اور بڑے اطمینان وسکون سے اس طرح سمجھا کر ٹال دیتے کہ صاحبِ معاملہ مطمئن ہونے پر مجبور ہوجاتا۔
   بخاری صاحب کا حاکمانہ برتاؤ اپنے ماتحت افسران ہی کے ساتھ مشفقانہ نہیں تھا بلکہ تمام درجوں کے ملازمین کے ساتھ بھی پسندیدہ تھا۔ ہر اہل کاران کے حسنِ سلوک اور اخلاقِ حمیدہ کا گرویدہ اور معترف تھا۔ ماتحت عملہ میں جو ادیب، شاعر اور ان کے دوست احباب شامل تھے ان کے ساتھ دفتر میں نہایت باضابطہ اور باقاعدہ ڈائریکٹر جنرل نظر آتے لیکن نجی صحبتوں میں اسی انداز کی بےتکلفی برتتے، جس حیثیت کے تعلقات ہوتے۔ ضابطہ کی پابندی کا یہ حال تھا کہ ایک بار اسٹوڈیو کے محافظ نے ان کو حسبِ ضابطہ بغیر پرمٹ دروازے کے اندر داخل ہونے سے روک دیا ۔نئی دہلی پارلیمنٹ اسٹریٹ کے براڈ کاسٹنگ ہاؤس میں بالائی منزل پر ڈائریکٹر جنرل کے دفاتر تھے۔ اور زیریں منزل میں دہلی اسٹیشن کے دفاتر اور اسٹوڈیوز واقع تھے۔ واقعہ یوں ہوا کہ ایک دن بخاری صاحب اپنے دفتر سے اُٹھ کر بغرض معائنہ اسٹوڈیوز کی عمارت میں جانے لگے۔ اسٹوڈیوز کے دروازے پر محافظ موجود تھا جس کا پہلا فرض یہ تھا کہ وہ اندر جانے والے ہر شخص کو ٹوکے اور داخلے کا پرمٹ دیکھ کر دروازہ کھولے ورنہ باہر ہی روک دے بخاری صاحب کا حکم تھا کہ اس ضابطہ کی سختی سے پابندی کی جائے اور وہ خود پرمٹ کارڈ اپنے لئے بھی ساتھ رکھتے تھے۔ اس وقت اتفاق سے پرمٹ ساتھ لے جانا بھول گئے۔ محافظ نے حسبِ صابطہ ادب سے سلام کیا۔ اور عرض کیا۔ ”حضور پرمٹ!“ ڈائریکٹر جنرل بخاری نے جیب میں ہاتھ ڈالا پرمٹ کارڈ نہ پایا، خاموشی سے مسکرائے اور واپس اپنے دفتر چلے گئے تھوڑی دیر بعد چپراسی آیا اور محافظ کی طلبی کا حکم سنایا۔ ”ڈائریکٹر جنرل کو اس طرح بےباکی سے روک دیا۔ اب خیریت نہیں“۔ محافظ بے چارہ تھرتھر کانپنے لگا۔ باضابطہ پیشی ہوئے اور محافظ جو ڈرتا ہانپتا حاضر ہوا تھا خوش خوش اکڑتا ہوا اپنی ڈیوٹی پر واپس گیا۔ ڈائریکٹر جنرل نے اس کی فرض شناسی اور مستعدی کی تعریف کرکے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ اور کئی روز تک اس محافظ کے چرچے براڈ کاسٹنگ ہاؤس میں ہوتے رہے۔
   عام طور پر حکومت انگریزی کے زمانہ میں جب افسران بالا اپنے ماتحت دفاتر میں معائنہ کی غرض سے جاتے تو عملہ کی جانب سے شاندار ضیافتیں ہوا کرتیں لیکن بخاری صاحب جب کسی شہر میں ریڈیو اسٹیشن کے معائنہ کو جاتے اور دستور کے مطابق ان کو اسٹاف کی جانب سے دعوت دی جاتی تو وہ منظور کرنے کے بعد یہ شرط طے کرتے کہ دعوت کے مصارف ان کے ذمے ہوں گے وہ صاف طور پر کہہ ہدیتے کہ آپ لوگوں کا مقصد مجھ سے ملاقات کرنا ہے۔ مجھے آپ سب کے ساتھ مل بیٹھنے سے مسرت ہوگی لیکن آپ کو جو خوشی ہوگی اس کی قیمت آپ کی جیبوں سے ادا کرا کے بارِ خاطر نہیں بننا چاہتا وہ ان دعوتوں میں تمام اہل کاروں سے نہایت بےتکلفی اور خندہ پیشانی سے ملتے اور بے ضابطہ طور پر ان کی مشکلات کا حال دریافت کرکے ان کے حل بتاتے رہتے۔ آل انڈیا ریڈیو کی تعمیروتنظیم بخاری صاحب کی دانش وتدبر کی رہین منت تھی۔ نئی دہلی کی براڈ کاسٹنگ ہاؤس کی تعمیر، پروگراموں کی ترتیب، برصغیر کے تمام بڑے شہروں میں نشری مرکزوں کا قیام اور ان کا استحکام ان ہی کے ہاتھوں انجام پایا۔ ہندوستان میں نشریات کی توسیع کا جو کام ۱۹۴۷ء اور اس کے بعد عمل میں آیا اس کا خاکہ بخاری صاحب نے کئی سال قبل مکمل کر لیا تھا یعنی چپہ چپہ پر نشریات کا ملک گیر جال بچھانے کا دستور العمل انہوں نے تیار کر دیا تھا جس پر بعد میں عمل درآمد ہوا۔ اس عالی دماغ واہل علم وبصیرت نے نشری دنیا میں اپنے تدبر وحکمت اور فن کارانہ صلاحیتوں کے غیر معمولی جوہر دکھائے۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے درمیان محکمہ نشریات کے سامان کی تقسیم کے لئے جو کمیٹی  بنائی گئی، اس کے صدر اور مشیر اعلیٰ بخاری صاحب ہوئے۔ اس طرح ریڈیو پاکستان کی بنیاد بھی ان ہی کے لائق ہاتھوں سے پڑی اور ان کے دستِ راست برادر عزیز سید ذوالفقار علی بخاری ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے (جو حال ہی میں ریٹائر ہوئے ہیں)۔
   پطرس بخاری نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے کی حیثیت سے اہم خدمات انجام دیں۔ اور ملک وقوم کا پرچم بلند کیا اقوام متحدہ کے محکمہٴ نشریات اور اطلاعات کے شعبوں کی تنظیم کی مہم بھی بخاری صاحب نے انجام دی خصوصاً اقوام متحدہ سے اردو نشریات کے سلسلے میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔
   بخاری صاحب کی نغزگوئی بیدار مغزی اور شگفتہ بیانی اقوام عالم کے سربرآور دہ نمائندگان میں ضرب المثل ہوچکی ہے اور انہوں نے اپنے حسنِ گفتار اور دانش وحکمت کا دنیا بھر میں لوہا منوا لیا۔ لیکن اس بین الاقوامی شہرت اور عزو افتخار کے مالک ہونے کے باوجود ان کا دل وطن اور احبابِ وطن کے لئے ہمیشہ بےچین رہا۔ افسوس کہ ان کی آخری حسرت بر نہ آئی اور وہ سرزمین وطن ویارانِ وطن سے دور دیارِ غیر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سوگئے۔ یارانِ وطن ان کے دیدار سے محروم رہے۔ اور انہوں نے بین الاقوامی شہرت کے دامن میں دائمی آرام گاہ بنائی۔ ہم ان کے نام، کام اور گفتار وکردار کی یادگار پر عقیدت کے پھول چڑھاتے رہیں گے۔

بضاعتِ سخن آخر شدو سخن باقیست

* * *