ہیروئن
تالی ہمیشہ دو ہاتھ سے بجتی ہے۔ ادبی تالی بجانے کے لئے بھی دو ہاتھوں کی ضرورت پڑتی ہے اور عرف عام میں ان دو ہاتھوں سے ہمارا مطلب ادب کے ہیرو اور ہیروئن سے ہے یوں تو ایسا ادب بھی ہے جس میں ہیرو اور ہیروئن نہیں وہ ادب بھی ایسا ہی ہے جیسے کسی نے ایک ہاتھ اور پیر کے تلوے کی مدد سے تالی بجا دی ہو ایسی تالی بج تو گئی مگر کتابوں کی جلدوں ہی میں گونج کر رہ گئی عوام تک اس کی رسائی نہ ہو سکی اور اگر سارے ادب میں ہیروئن اور ہیروز نہ ہوئے تو یقیناً یہ خشک ستو بن کر حلق میں پھنس جاتا۔عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لئے بندر بندریا کو ڈگڈگی بجا کر نچانا پڑتا ہے ویسے اگر وعظ کرنے کھڑے ہو جائیں یا حالات زمانہ سنانے لگیں، تو ظاہر ہے کہ کوئی بھی نہ سنے گا۔ دیکھئے نا محکمہ تعلیم اور مسجدوں سے لوگ کتنا کترا کر نکلتے ہیں۔لہٰذا جب کسی کو کچھ کہنا ہوتا ہے تو بندر بندریا کے گلے میں ڈوری باندھی اور ڈگڈگی بجانا شروع کر دی۔ ہیرو اور ہیروئن کے رسیلے کارناموں سے ایسی رنگینیاں بھریں کہ لوگ ٹوٹ پڑے، کچھ احساسات کو پھسلایا، کچھ جذبات کو گدگدایا اور مطلب حاصل ہوگیا۔ شعبہ تعلیم میں سب سے زیادہ اہمیت دلچسپ اسباق کو حاصل ہے ہر بات ایسی صورت میں پیش کرنی چاہئے کہ بچے اس میں گلی ڈنڈے اور کبڈی کی رعنائیاں پا کر متوجہ ہوجائیں۔ ادب کا بھی کچھ یہی حال ہے۔ کڑوی سے کڑوی خوراک شکر میں لپیٹ کر دے دیجئے لوگ واہ واہ کرکے نکل جائیں گے۔ رامائن اور مہا بھارت کا زمانہ کیوں اب تک کل کی بات بنا ہوا ہے۔ عظیم بیگ چغتائی نے قرآن کی مدد سے پردے کو چاک کرنا چاہا مگر سوائے مولویوں کی جوتیوں کے کچھ نہ ملا۔ لیکن ”شریر بیوی“ نے کونین کھلا کر اور”کولتار“ نے عقلوں پر سیاہ پردہ ڈال کر حجاب کو مار بھگایا۔ علامہ راشد الخیری اور پریم چند جی اگر ہیرو ہیروئن کے کندھوں کا سہارا نہ لیتے تو آج بجائے لوگوں کے دل ودماغ کے صرف بوسیدہ کتب خانوں میں پڑے اونگھ رہے ہوتے۔
ادب اور زندگی، ادب اور سماج، ادب اور تاریخ میں چولی دامن کا ساتھ ہے اگر انہیں ایک دوسرے سے جدا کرنے کی کوشش کی جائے گی تو دونوں مٹ جائیں گے۔ دوسرے معنوں میں اگر ادب سے زندگی یعنی ہیرو اور ہیروئن کو الگ کر دیا جائے تو ایک خلا رہ جائے گا۔ ہیرو سے زیادہ میں اس وقت ہیروئن کی حیثیت (جو ادب میں ہے) پر غور کرنا چاہتی ہوں۔ ”ہیروئن جام جم“ کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ اس پر ایک نگاہ ڈالی کر ہی ہم اس کے زمانے کی اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی حالات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مثلاً ”فسانہ آزاد“ کی عورت کو دیکھ کر جو اس زمانے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت جو قابل ذکر عورت تھی وہ نہایت مہذب، تعلیم یافتہ اور دلچسپ طوائف تھی۔ سرشار کو بھلا شریف گھرانے کی عورت کہاں ملی ہوگی اور وہ بھی مسلمان خاندان کی۔ اس وقت شریف بیویاں گھر میں بیٹھی ہنڈیا چولہے سے سر مار رہی ہوں گی۔ سٹری بسی، بے ڈھنگی خادمائیں جن سے اکتا کر لوگ طوائفوں کی آغوش میں سکونِ دل ودماغ تلاش کرنے جاتے ہیں۔ یہ طوائف اتنی بازاری اور کاروباری قسم کی نہ تھی وہ بالکل شریف زادیوں کی طرح رہتی مگر شریف زادیوں سے زیادہ خوش مذاق اور لطیف تھی۔ ظاہر ہے کہ طوائف کی حیثیت سے بالکل ایک باغِ عام کی سی تھی جو عوام کے چندے سے عوام کی خوشنودی کے لئے قائم کیا جائے۔ ہر مرد کی اتنی حیثیت کہاں کہ تعلیم یافتہ، باسلیقہ بیوی شان دار مکان میں پھولوں سے لدی اور عطر میں بسی ہوئی رکھ سکے۔ لہٰذا اس نے اس کا نہایت آسان علاج نکالا۔ گھر میں تو بیوی رکھی جو علاوہ نسل بڑھانے کے دوسری ضرورتوں کو بھی پورا کرتی رہی اور بازار میں طوائف جو جذبات لطیفہ کی پال پوس کرتی رہی۔ یہ بڑا کارآمد انتظام ثابت ہوا، گھر بھی رہا، رنگینیاں بھی۔ مگر طوائف کی سوکن گرہستن نے شراتیں شروع کر دیں اگر میاں سکونِ روح کے لئے طوائف کے یہاں گئے تو وہ بھی محلہ ٹولہ میں آنکھ لڑانے لگی۔ مجبوراً وہ شوہرجنہیں ”باغ عام“ کی سیر ذرا مہنگی پڑتی تھی واپس گرہستن کی طرف لوٹ پڑے۔ سوچا کہ چوراہے کی ہانڈی سے تو اپنی ”دال روٹی“ ہی بہتر ہے عورت بھی کچھ شیر ہوگئی اس نے وہ سب کچھ سیکھنا شروع کیا جس کی تلاش میں شوہر طوائف کے پاس جاتا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ اس نے قدم بڑھائے۔ آہسنا کی پالیسی کے ماتحت طوائف کے در سے بھیک مانگ کر عزت اور توجہ حاصل کرنا شروع کی۔ سرشار کی فتح مند طوائف کو شکست دے کر پریم چند کی گرہستن وبے پیر گھونگھٹ کاڑہے قدم قدم پر پیر چومتی، ماتے ٹیکتی، ادب میں رینگنے لگی۔ باغ عام کے سیلانے اپنے ہی گملے میں چھوئی موئی کا کلہ پھوٹتے دیکھ کر کچھ متحیر کچھ مغرور اس کی سنیچائی کرنے لگے۔ رنڈی تو خیر تھی ہی مگر یہ میٹھی میٹھی، معصوم سی بےضرر چیز کچھ ایسی پیاری معلوم ہوئی کہ طوائف کا پلہ اچک گیا۔ اس کی خوبیاں عیب ہوگئیں۔ وہی نازو ادا جس کی تلاش میں ناکیں رگڑنے جاتے تھے، رنڈی کے چہل بن گئے۔ چوراہے کے نل کو گندہ کہہ کر لوگوں نے اپنے ہی گھروں میں کنوئیں کھودنا شروع کر دیئے۔ مگر یہ کنویں روز بروز گہرے ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ کنارے ہاتھ سے چھوٹ گئے اور ڈوبنا پڑا۔ طوائف بہت جھلائی بہت بگڑی مگر تاج سدا ایک کے سر نہیں رہتا۔ ناعاقبت اندیش نے پھل تو کچے پکے خوب کھائے مگر نئی پود نہیں لگائی اور ادھر معصوم گھونگھٹ والی نے نئی پود بھی لگائی اور پرانوں کو بھی سینچا۔ نتیجہ یہ کہ رنڈی کے کھنڈروں کو میٹ کر گرہستن نے دنیا بنانی شروع کر دی اور پھر اس کی کمان چڑھ گئی وہی ایڑی تلے کچلنے والے مرد اس کی حمایت میں ایک دوسرے کو لعنت ملامت کرنے لگے۔ ایک دوسرے کے عیب کھول کر شاہراہ پر پٹخ دئے۔ وہ خود غیرجانبدار رہی نہ کسی سے لڑی نہ بھڑی آہنسا کی قائل مگر جیسی گاندھی جی برت رکھ رکھ کر گورنمنٹ کو بوکھلائے دیتے ہیں بالکل اسی طرح جھکی جھکی آنکھوں سے نقاب کے پیچھے سے حشر برپا کرنے لگی۔ لیکن اب بھی پوری فتح حاصل نہ ہوسکی۔ کیونکہ طوائف کے بعد فیشن ایبل میم یا پارسن نے کچھ نہ کچھ حصہ میدان کا گھیرے رکھا۔ ادب کی اس قسم کی ہیروئن نے ہر کہانی اور ہر قصہ میں گھسنا شروع کیا۔ مگر وہ جس نے طوائف کو مار بھگایا اس میم سے کیا دبتی۔ اس نے اتنا تو معلوم کر لیا کہ گھر میں بیٹھنے سے کام نہیں چلے گا۔ مرد مجبوراً اسے گھر میں بند کرکے اکیلا باہر جاتا ہے مگر وہاں وہ اکیلا رہ نہیں سکتا۔ وہ سیدھے ہاتھ میں چھڑی اور الٹے ہاتھ میں عورت چاہتا ہے۔ تقویت دل ودماغ کے لئے گھر میں رکھی ہوئی معجون دفتر اور کاروبار میں بھلا کیا مدد پہنچا سکتی تھی۔ لہٰذا وقتی گزارے کے لئے اس نے دفتر ہی میں دور بیٹھی ہوئی ٹائپسٹ، کبھی کبھی نظر آجانے والی منیجر کی حسین لڑکی اور ایسی ہی اکا دکا ہیروئن ڈھونڈ کر جسم تاپنا شروع کر دیا۔ اس کے جواب میں ”گوڈر کا لعل“ روشنگ بیگم ”زہرہ بیگم“ کی ہیروئن کو دیکھ کر ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ عورت کی جنگ برابر جاری رہی اور جیت آخر میں اسی کی ہوئی۔
مگر اسے پھر بھی قرار نہ آیا۔ اس نے تو بالکل ہی طوق گلو بننے کا فیصلہ کر لیا تھا وہ اور بڑھی پہلے تو گھر کی چار دیواری میں رشتہ کے بھائیوں ان کے ودستوں اور پاس پڑوس والوں سے آنکھ مچولی شروع کر دی۔ عظیم بیگ کی ہیروئن کے پردے اور برقعے کے تانے بانے کو اندر کشتیاں پچھاڑنی شروع کر دیں۔ موقع بےموقع سر پر چڑھ بیٹھی۔ گردن میں جھول گئی۔ سینے سے آن لگی۔ یہ چھپے ڈھکے جلوے اور بھی زیادہ گدگدانے لگے۔ طوائفوں کے نخرے پرانے اور پریم چند کے آہنسا کے قائل مقدس چیلی، بےوقوف اور بزدل نظر آنے لگی اس کے گیگلے پن سے جان جل گئی۔ جتنا بھی وہ ناک رگڑتی گئی اس سے نفرت ہوتی گئی۔ یہاں تو اب صرف وہ ہیروئن پیر جما سکتی تھی جو منہ کا نوالہ اچک لے۔ بھڑوں کا چھتہ منہ پر اوندھا دے۔ بجائے میٹھی میٹھی نظروں کے کونین میں بجھے ہوئے تیروں سے کام ودہن کی تواضع کرے۔ پڑھی لکھی چاہے خاک نہ ہو مگر وقتاً فوقتاً تھپڑ اور چانٹوں سے گال سینک دے۔ تنخواہ کم، گزارا مشکل، لیکن اگر ایسی شوخ شلستہ بیوی ہو جو سارے دکھ درد چٹکیوں میں اڑا دے تو پھر کون جنت کی آرزو میں مرے۔
مرد، عورت کے ظلم سہنے کے لئے ہی پیدا ہوا ہے۔ اس کے بغیر تو جنت میں بھی رہنے کو تیار نہ ہوسکا۔ حضرت آدم نے بیٹھے بٹھائے پسلی چیر کراس فتنے کو نکال ڈالا اور اپنے سر پر سوار کر لیا۔ خواہ بیوی ہو یا رنڈی جو لگام پکڑے ہنکے چلے جائیں گے۔ جتنے کوڑے زیادہ پڑیں گے۔ چال میں مستی اور روانی بڑھتی جائے گی۔ مگر ہر بات کی حد ہوتی ہے دل کے ساتھ ساتھ وہ قول وفعل کی بھی چوکیدار بن بیٹھی اور دماغ کی پاسبانی شروع کر دی۔ سانپ کے منہ کی چھچھوندر بن گئی۔ جو نگلی جائے نہ تھوکی جائے۔ چھتری ٹوپی اور برساتی کوٹ کی طرح ساتھ ٹنگ کر رہ گئی۔ یہاں تک کہ مرد چیخ اُٹھا۔ سب سے پہلے پطرس قبولے اور ان کے بعد عظیم بیگ اور شوکت تھانوی بھی چیخ چیخ کر دہائی دینے لگے۔ ادھر چچا چھکن، منشی جی، مرزا جی اور ہزاروں جی بھی پکار اُٹھے:
”یہ زیادتی ہے بیگم! ہمیں ہنساؤ مگر نہ اتنا کہ پیٹ میں درد اُٹھنے لگے“۔ ادھر ہیروئن ڈھیلی ڈوری کھینچتی گئی اس نے یہ راز بھی معلوم کر لیا کہ اگر وہ ذرا دبی ہوئی ہے تو سوائے اس کے اور کوئی بات نہیں کہ میاں پیسوں پر اکڑتے ہیں کیوں نہ یہ چار پیسوں کی کمائی توڑ کر الگ کر دی جائے لہٰذا محلہ ٹولہ کی سلائی سے شروع کرکے اقتصادی بازار کے ہر کونے میں رینگنے لگی۔ اس نئے روپ نے اس میں چار چاند لگا دیئے۔ ویسے اگر عورت بھیس بدل کر آئے تو خود اس کا میاں اس پر عاشق ہوجاتا ہے۔ جب کمانے نکلی تو یوں معلوم ہوا جیسے کوئی شاندار سرکس شہر میں آگیا ہے۔ عورت اسکولوں میں پڑھا رہی ہے۔ ملا جی ہکا بکا منہ پھاڑے رہ گئے۔ عورت ڈاکٹر بن گئی۔ حکیم جی مارے حیرت کے پلکیں جھپکانے لگے۔ عدالت میں وکیل مخالف کو بوکھلاہٹ کے مارے کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔ ہٹو! بچو! عورت آرہی ہے۔ لوگ گھبرا کر اُلٹ گئے اور دھڑا دھڑ میدان مارنے لگے۔ اقتصادیات کے میدان کے ساتھ ساتھ بھلا وہ دل کی دنیا کو کیوں نہ تاراج کرتی۔ لہٰذا ہر طرف تباہی مچا دی۔
تو…یہ کماؤ ہیروئن جسمانی اور دماغی اعتبار سے چاق وچوبند، بالکل لٹیروں کی طرح چاروں طرف ہاتھ مارنے لگی۔ اب تو مذاق کی حد ہوگئی خیر کونین کھلاتی تھی، تھپڑ لگاتی تھی تو کوئی مضائقہ نہ تھا۔ یہ تو ایک عورت کے نخرے ہوئے۔ چوکیداری کرتی تھی۔ ذرا سی بات پر ٹسوے بہانے لگتی تھی۔ ہمزاد بن کر وقت بےوقت سوار رہتی تھی تو کیا تھا؟ تھی تو اپنی دست نگر! اپنی بلی بھی کبھی پنجہ مار بیٹھتی ہے۔ مگر خرخر کرکے پھر اپنا نرم گرم جسم پیروں سے رگڑ کر منا بھی تو لیتی ہے۔ فیشن بھی کرتی ہے۔ خرچ ہے تو کیا۔ ہے تو اپنی ۔ہمیں سے تو مانگ کر اتراتی ہے۔ہماری جیبوں سے تو اٹھلا اٹھلا کر پیسہ نکالتی ہے لیکن یہ بالکل مردانہ وار اقتصادی دنیا میں خم ٹھونک کر جو خود اپنی کمائی کہہ کر کھسوٹ لے جاتی ہے یہ تو سرا سر ڈاکہ زنی ہے۔ صاف دھوکہ!نتیجہ یہ کہ بڑی جلدی یہ ہیروئن ڈائن بن گئی۔ بہت سمجھایا، صاف صاف دکھا دیا کہ ایسی خود سر اور خود مختار عورتوں کا بڑا بد انجام ہوتا ہے حرام کے بچے پیدا ہو جاتے ہیں۔ عصمتیں خاک میں مل جاتی ہیں۔ ساری دنیا جنم میں تھوکتی ہے۔ دفتر میں کلرک بہکالےجاتے ہیں۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹر روگ لگا دیتے ہیں۔ اسکولوں میں ماسٹر عاشق ہو جاتے ہیں۔ ادھر والدین کی شمع ہدایت دکھائی۔ اسکول میں ہر لڑکی کو کم از کم ایک بار ضرور ناجائز بچے کی ماں بننا پڑتا ہے۔ پڑھنا لکھنا کچھ نہیں صرف عشق بازی سکھائی جاتی ہے۔“ شرم دلائی ”بیٹیوں اور بیویوں کی کمائی کھاتے ہو۔ ڈوب نہیں مرتے“۔ یہ ماسٹر دیکھنے میں کھٹائی جیسے چمرخ مگر ہر ایک اپنے وقت کا مجنوں اور فرہاد ہے۔ اس وقت کی جو کہانی اٹھا کر دیکھئے بس استاد اور طالبہ کے پر سوز عشق اور عبرتناک انجام سے پُر نظر آئے گی۔
یقیناً یہ ادب بھی اپنا اثر دکھاتا اور ہیروئن واپس پستی کے چرنوں میں سرنگوں ڈھکیل دی جاتی۔ بات یہ ہوئی کہ بازار میں نہ جانے کیوں لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں کی مانگ ہوگئی۔ اگر ایک گریجویٹ بیس روپیہ کماتا تو لڑکی ایک سو بیس مار لیتی۔ جوں جوں تعلیم نسواں کار آمد ہوتی گئی۔ تعلیم مرداں فضول اور بے کار بنتی گئی۔ ہیروئین نے پیر مضبوط جما دیئے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک عجیب وغریب کشمکش شروع ہوگئی۔ تعلیم یافتہ لڑکیوں کی مانگ بڑھی مگر اس تیزی سے نہیں جس تیزی سے تعداد بڑھی۔ جب ایک میٹرک پاس لڑکی عنقا سمجھی جاتی تھی۔ اب گلی گلی گریجویٹ اُگ آئیں۔ شادی کے بازار میں بڑی افراتفری مچ گئی۔ ایک پڑھی لکھی لڑکی کے لئے کم از کم ”آئی سی ایس یا پی سی ایس تو ہو۔ کاش گورنمنٹ لڑکیوں کی تعداد دیکھ کر افسروں کا تقرر کرتی۔ تو یہ مصیبت کیوں نازل ہوتی۔ یہ گنے چنے افسر تو اونٹ کی ڈاڑھ میں زیرہ بن کر رہ گئے۔ جس نے اونچی بولی لگائی وہی لے اڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گریجویٹ اور تعلیم یافتہ (لڑکیوں کی کثیر تعداد اس انتظار میں کہ کب گورنمنٹ آفیسر برسیں اور وہ سمیٹ لیں۔ مختلف شعبوں میں نوکر ہوگئیں۔ اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ افسروں کی تعداد کم رہی تو کلرک بدقسمت اسکول ماسٹر ناکام اور اجڑے ہوئے ڈاکٹر نہیں پیدا ہوئے وہ تو اور بھی شدت سے پیدا ہوئے۔ اب ان بےچاروں کے پاس دو راستے رہ گئے یا تو جاہل لڑکیوں سے نصیبہ پھوڑ لیں یا امیر اور تعلیم یافتہ لڑکیوں سے تخیلی عشق کرکے زندگی ان کی یاد میں گزار دیں۔ جنہوں نے دل پر پتھر رکھ کر سر پھوڑ لیا ان کی روحیں بھی جیون ساتھی کی تلاش میں بھٹکا ئیں۔ زندگی بھر ہم خیال وہم مذاق بیوی کا ارمان دل میں کچوکے مارتا رہا اور جو زیادہ ہمت والے تھے وہ پاس پڑوس کی کبھی کبھی نظر آجانے والی اپٹوڈیٹ حسینہ کی آگ میں سلگنے لگے۔ آخر الذکر تعداد میں زیادہ بڑھے اور نتیجہ یہ ہوا کہ عورتیں اور مرد پیدا ہوتے گئے اور دنیا میں رہتے رہے۔ ایک دوسرے کے لئے نہیں بلکہ ”موزوں رشتہ“ کے لئے ! بالکل جیسے ایک دکان میں کپڑے کے گٹھڑ پڑے گل سڑ رہے ہوں۔ اور دوسری طرف سڑکوں پر ننگے گھوم رہے ہوں۔ ایک ہوٹل میں باسی مٹھائیوں اور کھانوں کے انبار موریوں میں لنڈھائے جا رہے ہیں اور دوسری طرف لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں جوں جوں دکانیں اور ہوٹل لوازمات سے بھر جاتے ہیں۔ سڑکوں پر ننگے اور بھوکوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک پنجرے میں لڑکے اور دوسرے میں لڑکیاں بند کرکے بیچ میں چال چلن کے پہرے دار بٹھا دیئے گئے۔ لڑکیاں کنواری بیٹھی سوکھ گئیں ادھر لڑکے حیوان بنتے چلے گئے۔ نتیجہ یہ کہ انسانیت زیادہ بھوکی، مفلوج اور غیر انسانی بنتی گئی اور پھر ایک ایسا طبقہ پیدا ہوا جو برسوں کی چھپی ڈھکی غلاظتوں کے مواد کی طرح پھوٹ پڑا۔ اس نے جو پہلا کام کیا وہ تخریب تھا۔ بوڑھے گھنے ہوئے پیڑ کا تنا اکھاڑے بغیر نیا پودا لگانا دشوار ہے پرانے مکان کو ڈھا کر ہی نئی کوٹھیاں بنائی جا سکتی ہیں سب سے پہلے تو عورت اور مرد کے بیچ میں جو پاسبان بیٹھا تھا اس سے مڈبھیڑ ہوئی چونکہ بغیر عورت کے دنیا ادھوری تھی گھر میں اپنی کمائی سے عورت رکھنے کی نہ ہی اقتصادی حالت نے اجازت دی اور نہ پاسبانوں نے۔ لاچار ہو کر وہ واپس طوائف کی آغوش میں جاگرا۔ گرہست ہیروئن کے راج میں طوائف مٹ مٹا کر خاک ہو چکی تھی۔ ناقدری اور پھٹکار نے اسے صورت سے بےصورت کر دیا تھا۔ کچھ دیوالیہ ہو کر نکاح کر بیٹھی تھیں۔ کچھ لمبی چوڑی دکانیں لٹوا کر گندی نالیوں کے پاس خوانچہ لگا چکی تھیں۔ کچھ نے روپ بدل ڈالا تھا۔ اور جیسے طوائف ہیروئین سے مرد کو چھیننے کے لئے گرہستن نے گھونگھٹ اٹھایا تھا۔ آج اس نے اسی پھینکے ہوئے آنچل میں منہ چھپانے کی کوشش کی تھی۔ کبھی گرہستن نے اس کے ہتھکنڈے اور بناؤ سنگھار چھینے تھے آج اس نے گرہستن کی بےچارگی اور بے کسی کی آڑ لی اور سوائے بالکل نچلے طبقہ کے طوائف کو پہچاننا بھی دشوار ہوگیا تھا اور جب یہ باغی طبقہ طوائف کی تلاش میں نکلا تو اس کی حالتِ زار دیکھ کر اس کا جی دہل گیا۔ طوائف اب وہ سرشار کی چہکتی ہوئی بلبل نہیں رہی تھی۔ بلکہ بھوکی کمینی بلی بن گئی تھی سوائے فقیروں اور یکہ تانگہ والوں اور مزدوروں کے کسی کو اس کا نام ونشان بھی معلوم نہ رہا تھا۔ اپنا مطلب تھا تو اسی طوائف کو شعروں میں پرو ڈالا قصیدوں میں گوندھ کر، ناولوں میں سجا کر، ادب کو اس کی لونڈی بنا دیا اور پھر جو بھولے تو ایسا بھولے کہ لوٹ کر خبر بھی نہ لی۔ گھر میں نل لگ گیا تو میٹھے پانی کی کنوؤں کو ایسا فراموش کیا کہ اندھی ہو کر سانپوں اور کنکھجوروں کا مسکن بن گئی اور اب وقت پڑا تو اسی کے کنارے پیاسی زبانیں لٹکائے ہانپ رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ میونسپلٹی سے کہہ کر صفائی کرانے پر تلے ہوئے ہیں مگر یہ اندھا کنواں دوبارہ کار آمد ہونے سے پہلے بڑی سخت مدد کا طالب تھا چنانچہ باغی طبقہ اس کی حمایت میں چیخ پڑا۔ پکار پکار کر اس نے دنیا کے اس زخم کو دکھایا جو نا سور بن کر بج بجا اٹھا تھا۔ غریب مگر خودار جوان اس طبقے کی حفاظت کو اٹھ کھڑا ہوا جو اس کی تھی۔ اس کے کام آسکتی تھی۔ اسے سارا حسن اور تمام لطافتیں اس ٹکھیائی اور فقیرنی میں نظر آئیں جس میں دنیا بھر کی غلاظتیں جذب ہوچکی تھیں۔ مگر جو اسے مل سکتی تھی ناقدری کی وجہ سے وہ گر گئی تھی۔ اور اسی کے کرم کی محتاج تھی شریف عورت اس نوجوان کی زندگی سے دور تر ہوتی گئی۔ وہ اس کے بارے میں نہ کچھ جان سکا اور نہ اس نے جاننے کی کوشش کی۔ اس کی نظروں میں وہ صرف نک چڑھی، خود غرض اور جھوٹی مخلوق بن کر رہ گئی جو پیار بھری نظروں کو گال اور عشق کو گھناؤنا سمجھتی ہے۔ جو محبت کرنا ہتک سمجھتی ہے۔ اور مرد کی حفاظت کو اپنی توہین۔ اس میں عام طوائف جیسی گندی بھیانک جاذیبت کہاں؟ عام طوائف سے وہ طوائف مراد نہیں جو بڑے آدمیوں کی دنیا میں چمکا کرتی ہے بلکہ سڑک کی وہ ننگی بھوکی کتیا جو راہ چلتے کی ٹانگ پکڑ کر گھسیٹتی ہے جو ہر قیمت پر ہر حیثیت کے انسان کو لنگر بانٹتی ہے اس کی گندگی اور غلاظت گھن کھانے کی چیز نہیں بلکہ اصلاح کی محتاج ہے۔ اگر ہمارے مکان میں نالی سڑ رہی ہے تو یہ اس بیچاری نالی کا قصور نہیں بلکہ مکان دار کا قصور ہے اسے گندہ کہہ کر منہ موڑ لینے سے گندگی دور نہیں ہو جائے گی۔ طوائف گندی اور بیمار، کمینی اور جعلساز ہے تو اس کا قصور نہیں بلکہ اس نظام کا قصور ہے جو انسانیت کی یوں بے قدری کرتا ہے۔ نئے ادیبوں نے طوائفوں کا حال لکھ کر بے شک ایک متعفن پھوڑےکا منہ کھول دیا جس نے نازک مزاج لوگوں کی لطیف طبیعتوں پر برا اثر ڈالا مگر اس پھوڑے کا مواد نکل جانے سے دنیا کے تھوڑے بہت دکھ مٹ جانے کا امکان پیدا ہو گیا طوائف کیسی بھی ذلیل ہو، ہماری دنیا کے جسم کا ایک حصہ ہے اسے سڑا کر نہیں پھینکا جاسکتا۔ لوگ اسے عورت نہیں مانتے وہ جو دنیا کے ہر دکھیارے کا سہارا ہر بھوکے کا دسترخوان ہے وہ بےشک عورت نہیں مگر اس سے بھی زیادہ کار آمد ہستی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل کا نوجوان گرہستن سے زیادہ بازاری مال کی بہتری کا خواہاں ہے۔ وہ اس کی زندگی سے دور اور یہ قریب ہے اسے کیا غرض جو تعلیم نسواں نہیں ہو رہی یا بیوائیں بن بیاہی سوکھ رہی ہیں یا میاں بیوی کی ناکیں کاٹے ڈال رہے ہیں۔ اس کی بلا سے دنیا بھر بیوہ ہو جائے اور عورت مٹے یا رہے۔ دیکھئے نا آپ کے محلے کی نالی خراب ہوجاتی ہے تو آپ غل مچا دیتے ہیں۔ اور آپ پروا بھی نہیں کرتے کہ اس سال لڑائی کی وجہ سے وکٹوریہ گارڈن میں عمدہ بیج نہ بوئے جا سکے۔ اس لئے اس سال تختہٴ گل کی بہار سے لوگ محروم رہ جائیں گے۔ آپ کی بلا سے پھول کھلیں یا نہ کھلیں مگر نالی ضرور صاف ہونی چاہئے۔
اب خواہ دنیا موجودہ ادب کی ہیروئن کو ناپاک، عریاں اور مکروہ کہے، زمانے نے اسے ہیروئن کا رتبہ دے دیا۔ یہ زمانے کی نشیب وفراز کی ڈھالی ہوئی اینٹ ہے جو تعمیر میں اپنی جگہ پا گئی۔یہ تو ہوئی ہیروئن سرشار کی نازو ادا بھری نازنین، جسے دنیا میں سوائے کھانے پینے اور عیش کرنے کے کسی بات کی فکر نہیں…میں نے غلط کہا، ایک بات کی بے انتہا فکر ہے اور وہ عشق لڑانے کی۔ یہ زمانہ ہے فارغ البالی کا۔ پھر اس کے مقابلے میں پریم چند کی مظلوم عورت، اور راشد الخیری کی کچلی ہوئی بیوہ، یہ زمانہ ہے اقتصادی کشمکش کا اور سدھار کا پھر لیجئے مزاح نگاروں…یہ ہنس گئے اور ہنسا گئے۔ چمڑی میں مگن، نہ آگے جانا نہ پیچھے ہٹنا۔ پھر ایم اسلم کی سادھو کی لڑکی جسے سوائے ندی کے کنارے آنے جانے والوں سے پریم کی پتنگیں بڑھانے اور بھونروں کے ساتھ گیت گانے کے اور کوئی کام نہیں۔ مس حجاب کی بےوقوف، کاہل اور بےمصرف دوشیزہ جسے سوائے چوہوں سے ڈر کر بےہوش ہوجانے کے اور کچھ نہیں آتا۔ جہاں حسن وعشق کو بناوٹ نے الو بنا رکھا ہے۔ یہ زمانہ ہے عاجز آکر اونگھنے کا۔ اور پھر کرشن کی زندہ عورت، بیدی کی کاروباری ہیروئن، منٹو کی جیتی جاگتی سب کی جانی پہچانی بےحیا رنڈی، عصمت کی بےچین منہ پھٹ اور بےشرم لڑکی، ستیارتھی کی خانہ بدوش، عسکری کی فلسفی میم صاحب…یہ زمانہ ہے زندہ رہنے کے لئے لڑ مرنے کا، کچھ تعمیر کرنے کے لئے جدوجہد کا، کچھ مٹانے کے لئے اورکچھ بنانے کے لئے۔ دین ودنیا کو پلٹ کر دینے کا۔ جیسا کہ موجودہ فضا سے ظاہر ہورہا ہے۔
اب دیکھنا ہے کہ ہماری آئندہ زندگی کی ہیروئن کس شان سے جلوہ افروز ہوتی ہے۔ خدا کے بعد عورت ہی کی پرستش ادب میں کی گئی ہے۔ یا شاید اس کا نمبر پہلے آتا ہے او رپھر دنیا کی دوسری طاقتوں کا۔ جہاں تک اندازہ لگایا جاتا ہے آنے والی ہیروئن نہ تو ظالم ہوگی نہ مظلوم بلکہ صرف ایک عورت ہوگی۔ اور اہرمن ویزداں کے بجائے ادیب اسے عورت کا رتبہ ہی بخشیں گے۔ اور پھر تعمیر شروع ہوگی۔
(ایک بات)
* * *