(سرظفر الله خاں)
احمد شاہ بخاری سے میری پہلی ملاقات ۱۰۱۶ء کے آخری ایام میں ہوئی جب میں اور وہ (لاہور میں) کالج کے طالب علم تھے۔ میری ان کی رفاقت چالیس سال سے زیادہ عرصہ تک جاری رہی۔ ابتدائی دور ہی میں ان کے جگمگاتے اوصاف ہر اس شخص کا دل موہ لیتے تھے جسے ان کے ساتھ واسطہ پڑتا تھا۔ انگریزی زبان پر انہیں غیرمعمولی قدرت حاصل تھی۔ ان کی یہ امتیازی خصوصیت کیمبرج اور بالآخر امریکہ میں بھی برابر قائم رہی۔
بخاری ہر اس صحبت یا اجتماع کی روح رواں ہوتے تھے۔ جس میں انہیں شامل ہونے کا موقع ملتا تھا۔ وہ بڑے تیز فہم اور حاضر جواب تھے۔ ان کی شخصیت گوناگوں صفات حسنہ کی حامل تھی۔ انگریزی زبان پر قدرت، ہر دور کے انگریزی ادب سے قریبی واقفیت، ملٹن اور شیکسپئیر کی تصانیف سے گہری شیفتگی، یہ ایسی خصوصیات ہیں جو بخاری کی شخصیت میں متوازن طور پر جمع ہوگئیں تھیں اور ان کی گفتگو، حاضرجوابی، مکالمے اور مباحثے کے دوران پھلجھڑیاں بن کر اپنے اظہار کی راہیں تلاش کرلیتی تھیں۔ اسی طرح اردو میں بےتکلف اظہار اور اس کی آمدبرابر کا وصف سمجھی جاسکتی ہے۔ یہ بات عام طور پر معلوم نہیں لیکن بخاری بانسری بجانے میں بھی قابل تعریف مہارت رکھتے تھے۔
وہ مغربی پاکستان کی قدیم ترین تعلیمی درسگاہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پہلے انگریزی کے پروفیسر اور بعد میں پرنسپل مقرر کئے گئے۔ یہ بات انگریزی زبان اور ادب میں ان کے بلند مقام کی آئینہ دار ہے۔ مگر یہ ان کے ایک جز کی قدردانی تھی۔ انہوں نے سفارت کے میدان میں اس کے برابر امتیازی مراتب کے حصول کا سلسلہ جاری رکھا اور بالآخر بین الاقوامی تنظیم میں داخل ہو کر اپنی زندگی کا اعلیٰ ترین مقام پالیا۔ زندگی کی دوڑ میں جو یکساں طور پر درخشاں تھی وہ جہاں رکے اور جس رتبے پر فائز ہوئے وہاں ہر شخص نے انہیں صف اول کے لوگوں میں شمار کیا۔
بخاری زندگی کے ابتدائی دور ہی میں صحت کی تشویش ناک خرابی کا شکار ہوگئے تھے اور عمر بھر یہ روگ پالتے رہے۔ جب وہ آل انڈیا ریڈیو میں مسٹر فیلڈن کےساتھ کام کر رہے تھے تو حیاتی لحاظ سے بہت آزردہ اور دل شکستہ رہتے تھے۔ انہیں خرابی ٴصحت کی شدید کیفیت کا مقابلہ بھی درپیش تھا جس نے بعدازاں کم وبیش دائمی مرض کی حیثیت اختیار کرلی تھی۔ ان ایام میں انہوں نے اس مرض کے پےدرپے تکلیف دہ حملوں کا مقابلہ بڑی ہمت اور پامردی سے کیا۔ اور اپنی جسمانی تکلیف کو اپنے فرائض کی بجاآوری میں حائل نہ ہونے دیا۔ بعد میں جب وہ مسٹرفیلڈن کی جگہ آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل بنائے گئے تو انہوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس بات نے انہیں اس قابل بنا دیا کہ وہ اپنی تکلیف دہ بیماری کا مقابلہ کسی قدر کامیابی کے ساتھ کرسکیں۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ ۱۹۵۳ء میں ان پر بیماری کا جو ناگہانی حملہ ہوا اسے ان کی مستقل رنجوری سے کوئی علاقہ تھا یا نہیں تاہم یہ حملہ شدید تھا جس کی وجہ سے انہیں کئی ہفتے ہسپتال میں رہنا پڑا۔ اس حملے سے وہ بچ گئے تو ہم سب نے آپ کو مبارکباد کا مستحق قرار گردانا تاکہ وہ اپنی دلچسپی کے مختلف میدانوں میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ ہم پُرامید ہوگئے کہ مناسب احتیاط سے وہ اپنی فیض رساں اور لطف اندوز زندگی کے کئی مزید سال ہمارے درمیان بسر کرسکیں گے۔
جتنا عرصہ انہوں نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے کی حیثیت سے کام کیا، ہمیں مل جل کر بہت قریب رہنے کا موقعہ ملتا رہا۔ ان ہی دنوں مجھے بخاری کی ذہانت وتدبر کے بعض ایسے اوصاف کو بہ نظر غائر دیکھنے کا موقع ملا جو پہلے چنداں واضح اور روشن نہ تھے۔
اس اطلاع نے کہ بخاری خود کے دباؤ سے صاحب فراش ہوگئے مجھے اچانک صدمہ پہنچایا لیکن جب میں نے نیویارک پہنچ کر دیکھا کہ ان کی حالت بہتر ہورہی ہے تو دل کا بوجھ ہلکا ہوگیا۔ اگرچہ انہیں تندرست ہونے کے ليے کئی ہفتے انتظار کرنا پڑا۔
اٹھارہ ماہ بعد وہ اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے۔ اس بات نے ان کے ليے موقع مہیا کیا کہ وہ اپنی قابلیت اور استعداد احسن طریقہ پر پوری وسعت کے ساتھ بروئےکار لائیں۔ اقوام متحدہ میں انہوں نے جو خدمات سرانجام دیں وہ سب کو معلوم ہیں۔ ابھی انہوں نے اقوام متحدہ میں اپنے فرائض انجام دینے شروع نہیں کئے تھے کہ مجھے اپنے موجودہ منصب کے ليے منتخب کرلیا گیا۔ اس کے بعد مجھے بخاری سے ملنے کے مواقع بہت میسر آئے۔ البتہ جب کبھی میں نیویارک جاتا تھا تو ان سے رابطہ پیدا کرنے کی کوئی نہ کوئی صورت نکال لیتا تھا۔ میرے دل میں یہ خطرہ پیدا ہونے لگا تھا کہ اگر بخاری کے قوائے جسمانی پر جو بوجھ پڑ رہا ہے وہ بہت بھاری ہے اور آخرکار ان کے دل پر اثر ڈال کر رہے گا۔ ایک اور بات جس نے میرے اس احساس خطر کو تیزتر کیا یہ تھی کہ بخاری تنہائی محسوس کرنے لگے تھے اور اس حال میں ایسے چھوٹے سے چھوٹے واقعات سے حد درجہ متاثر، فکرمند اور غمگین ہوجاتے تھے جنہیں عام حالات میں نظرانداز کردیتے تھے۔ ان کی طبیعت کا یہ رخ سنبھالنا ثابت ہونے کی بجائے ان کی گرتی ہوئی صحت کی ایک علامت بن گیا۔
اچانک ان کے انتقال کی اطلاع، جو مجھے لندن کے اخبار "ٹائمز" کی وساطت سے ملی، میرے لئے صدمہٴعظیم تھی۔ اس صدمے کے اثر سے کچھ وقت گزرنے کے بعد ہی سنبھل سکا۔ مجھے یاد ہے کہ اس روز عدالت کے پرائیوٹ اجلاس میں، میں اپنے پیڈ پر کچھ لکھتا رہا یہ میری عادت کے سراسر خلاف بات تھی۔ میں ٹھٹکا اور جو کچھ میں نے لکھا تھا اسے دیکھا وہاں یہ شعر نظر آیا:
ہاتھ دھو دل سے یہی گرمی گراندیشئے میں ہے
آبگینہ تندی صہباسے پگھلا جائے ہے
یہ بخاری کے نمایاں ذہنی و فکری اوصاف کے ليے میرا لاشعوری خراج تحسین تھا۔ اور اس نقصان پر احساس رنج والم کا اظہار، جسے ہم اس ليے زیادہ محسوس کر رہے ہیں کہ انہیں تربیتی برسوں سے لے کر بلندیوں پر پہنچنے کے وقت تک جانتے چلے آئے ہیں۔
خدا ان کی روح کو آسودگی نصیب کرے!
(ترجمہ)
* * *