جب سے کپلنگ نے "مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب" کا گیت گایا اسی دن سے ہم مختلف اور متصادم معاشروں کے تعلقات کے بارے میں زیادہ سوچ بچار کر رہے ہیں۔ ہمیشہ ہم اسی فکر میں رہتے ہیں کہ کوئی ایسا مرکب مل جائے جو ہر ایک کی بہترین خوبیوں کو محفوظ کردے۔
کبھی کبھی ہمیں کسی ایسی ہستی کی موجودگی کا یقین ہوجاتا ہے جو ہمارے تخیلات کو عمل کی دنیا میں لے آتی ہے۔ ابھی ابھی ہمیں پاکستان کے سفیر پروفیسر احمد شاہ بخاری کی بےوقت موت کی شکل میں ایسی ہی ایک شخصیت کے ضیاع کا سامنا ہوا ہے جنہوں نے اقوام متحدہ میں رئیس شعبہ اطلاعات کی حیثیت سے خدمات انجام دیں وہ صحیح معنوں میں عالمی شہری تھے۔
پروفیسر کا تعلیمی پس منظر مشرق اور مغرب۔۔ پنجاب یونیورسٹی اور کیمبرج۔۔ دونوں کو آغوش میں ليے ہوئے ہے وہ دنیا کے دونوں حصوں کی زبان کے قادرالکلام شاعر تھے۔ انہوں نے مشرق اور مغرب دونوں کی زبانوں اور محاوروں کا راگ الاپا۔ وہ مشرق اور مغرب دونوں کے نزدیک عالم تھے۔
لیکن مشرق اور مغرب کا یہ ملاپ اس سے بھی زیادہ گہرا ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک عظیم انسان تھے۔۔ حاضر جواب، شائستہ، دانش مند، زندہ دل، اور گرم جوش۔ وہ خود پسندی کی نمائش سے پاک تھے، انہیں زندگی سے اُنس تھا۔ وہ اس دنیا میں بسنے والے لوگوں سے ان کی قومیت، رنگ، نسل، مذہب، یا پیشے کا خیال کئے بغیر محبت کرتے تھے۔ ان کی روح ان کے ذہن کی طرح تنگ سرحدوں کی قائل نہ تھی۔
ہزاروں امریکی جنہیں ان سے ذاتی شناسائی کا شرف حاصل ہے ان کی موت کو اپنا ذاتی رنج محسوس کر رہے ہیں سب سے بڑھ کر اس ليے کہ وہ دوست تھے۔ لیکن یہ نقصان ذاتی نہیں بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہے۔ دنیا ایک ایسے شخص کے اُٹھ جانے سے مفلس تر ہوگئی ہے جو ہمیں بہتر طریق سے یہ دکھاتا تھا کہ آسودہ مستقبل کے ليے کون کون سی اچھی باتیں ممکن ہیں۔
(ترجمہ)
(نیویارک ٹائمز، مورخہ ۷ دسمبر ۱۹۵۸ء اداریہ)
* * *