(ڈاکٹر محمد عبدالله چغتائی)
مغربی اور مشرقی فن میں اصولی فرق میرے نزدیک ایک یہ بھی ہے کہ مغربی فن کی تصویر کو دور سے دیکھنے سے جو اس کی خوبیاں نظر آتی ہیں، وہ نزدیک سے دھبے دکھائی دیتے ہیں۔ یعنی اس کی صحیح نمائش دور سے ہی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس مشرقی فن کی تصویر کے صحیح خط وخال اور خوبیاں اس کو جس قدر بھی قریب سے دیکھا جائے گا زیادہ نظر آئیں گی ورنہ دور سے ایک مدہم مدہم یکساں رنگ کی دھندلی سی سطح معلوم ہوگی۔ چنانچہ ہم مرحوم احمد شاہ بخاری کو جب کبھی دور سے دیکھتے تو صحیح معنوں میں کسی یورپی یونیورسٹی کے ایک سجے سجائے مکمل پروفیسر نظر آتے۔ مگر جب کبھی ان کے پاس بیٹھ کر گفتگو سننے کا موقع ملتا تو ان کے برجستہ مسکراہٹ لئے ہوئے مادری زبان میں بےساختہ جملے ظاہر کرتے کہ ان کا نہایت مکمل ظاہری مغربی لباس ان کی مشرقیت پر ایک ملمع ہے ۔ اور ان کی مشرقیت کے جوہر آہستہ آہستہ گفتگو کے مدارج طے کرتے کرتے واضح ہوتے چلے جاتے بلکہ ان کی تمام انگریزی اور انگریزیت ان کی مشرقیت کے طابع نظر آنے لگتی۔
میں مرحوم کو ایک طرح دور سے اسی زمانے سے جانتا تھا جب کہ وہ ہنوز طالب علمی کے ابتدائی مدارج لاہور میں طے کر رہے تھے کیونکہ وہ ہمارے محلے کے قریب ہی تکیہ سادہواں میں ڈاکٹر محمد دین ناظر مرحوم کے بڑے لڑکے محمد امین مرحوم کے ہم زلف تھے۔ جن کے ہاں وہ اکثر رہائش رکھتے اور محمد امین کے بھائی ڈاکٹر محمد سعید (سعدی) سے بخاری کی خاصی بےتکلفی تھی۔ ان کی اور مولوی بشیر الدین مرحوم (بن مولوی احمد دین وکیل مرحوم)کی وجہ سے کبھی کبھی ان کی گفتگو میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملتا جس کے بعد وہ ایم اے کا امتحان انگریزی میں پاس کرکے اپنی خاص طبع روشن اور بعض اچھوتی تحریروں کی وجہ سے لاہور کی زندگی میں نمایاں طور پر رچ مچ گئے۔ یوں کہئے کہ ہر علمی محفل میں وہ جزولاینفک ہونے لگے۔
میں نے ان کو اس وقت سے زیادہ دیکھاہے جب وہ لاہور میں سنٹرل ٹریننگ کالج میں مسٹر وائٹ پرنسپل کے ماتحت ایک معلم، پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کے معتمد اور گورنمنٹ کالج لاہور میں بہ حیثیت استاد انگریزی متعین تھے مگر ان کی شہرت آل انڈیا ریڈیو کے ذریعے زیادہ وسیع ہوئی جہاں وہ کئی سال تک ناظم اعلیٰ رہے۔
ابھی پاکستان بننے کے آثار نمودار ہو رہے تھے کہ اکتوبر ۱۹۴۶ء میں ڈاکٹر ذاکر حسین خاں صاحب مدظلہ العالی ٰنے جامعہ ملیہ دہلی کی جوبلی رچائی۔ جس میں دور دور سے علمی حضرات نے شرکت کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مرکز میں ایک عبوری حکومت قائم ہو چکی تھی۔ راقم کو بھی دکن کالج پونہ سے اسی ضمن میں نمائش کی ترتیب کے لئے مدعو کیا گیا تھا، یہ ایک بہت پُر رونق علمی میلہ تھا جس میں ہر طرح کے پڑھے لکھے حضرات نے حصہ لیا۔ جب میں نے بالکل غیر متوقع طور پر یہاں تاثیر اور بخاری کو دیکھا اور ان سے قریب دس سال بعد ملنے کا اتفاق ہوا تو وہ مجھے فوراً اپنے الگ کیمپ میں لے گئے جس میں وہ دونوں فردکش تھے۔ اس وقت وہ دونوں حکومت ہند کے شعبہ نشرواشاعت میں تھے۔ دونوں علوم جدیدہ اور قدیمہ سے سرشار نہایت روشن ضمیر اور بڑے پائے کے ناقد تھے مگر مجھے یہاں غیرمعمولی بات یہ نظر آئی کہ یہ دونوں علمی دوست شمشیر برہنہ ایک ہی نیام میں سمٹے ہوئے تھے۔ ان کو ایک ہی کیمپ میں نہایت محبت وخلوص سے مل کر اپنے فرائض انجام دیتے دیکھ کر یقین ہوگیا کہ واقعی علوم کی غائت کمال یہی ہے خواہ جس قدر بھی متضاد عنصر ہو ایک جا پُر امن طریق پر جمع ہوسکتا ہے۔
مجھے وہ سماں ہرگز نہیں بھولتا جب ایک روز بعد دوپہر ایک ہی پلیٹ فارم پر محمد علی جناح قائد اعظم، جواہر لال نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، لیاقت علی خان، راج گوپال اچاریہ، دلبھ بھائی پٹیل، راجہ غضنفر علی وغیرہ کو دیکھا۔ تاثیر اور بخاری اپنے رنگ میں مقررین کے بعض جملوں پر خوب ظریفانہ تبصرہ کرتے تھے۔ ایک روز یہاں مرحوم سرشیخ عبدالقادر نے کنووکیشن ایڈریس بھی دیا تھا جو پہلے چھپ چکا تھا اس کی ان پنجابی فاضل دوستوں نے نہایت عمدگی سے بےلوث تعریف کی اور ڈاکٹر ذاکر صاحب کو داد دی کہ انہوں نے اس طرح پروگرام مرتب کیا۔ غرض یہ کہ اس جوبلی کی عملی کارروائی کو جس قدر بھی پریس میں اور ریڈیو پر نشر کیا گیا وہ تاثیر اور بخاری کا حصہ تھا جس کا لوگوں کو کم علم ہے۔
جب پاکستان قائم ہوا تو بخاری لاہور تشریف لائے اس کے ابتدائی دور میں بعض بکھری ہوئی لائبریریوں کو یکجا کیا، کچھ پریشان کن چشم دید حالات جو مہاجرین کے ساتھ پیش آئے بغیر نام کے لکھے مگر عوام کو زیادہ تر یہی علم ہے کہ وہ آتے ہی گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل ہوگئے، ۱۹۴۹ء میں وہ انڈیا آفس لائبریری کی تقسیم کے ضمن میں لندن گئے جس کے بعد ۱۹۵۰ء میں وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندے بنائے گئے جہاں اپنی ذاتی قابلیت سے انہوں نے دنیا کے قابل ترین حضرات کو اس قدر مرعوب اور مطمئن کیا کہ ان کو آخر وہیں ۱۹۵۴ء سے شعبہ اطلاعات میں ڈپٹی سیکریٹری جنرل مقرر کیا گیا اس جگہ مرتے دم تک (۵ دسمبر ۱۹۵۸ء) نہایت معزز طریق پر فائز رہے اور اسی ادار ہ اقوام متحدہ میں راقم نے ۲۴ اپریل ۱۹۵۷ء کو ان سے آخری ملاقات کی تھی۔ جس کی مختصر سی کیفیت جو مجھے یاد ہے ذیل میں پیش کرتا ہوں۔
اقوام متحدہ کا ادارہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے عظیم ترین شہر نیویارک کے مشرقی جانب دریائے ایسٹ کے کنارے ۴۲۔۴۸ سٹریٹ پر اول ایونیو میں واقع ہے۔ اس کے شمالی طرف سے داخل ہوتے ہی بہت بڑے ہال میں زائرین کو ایک باوجاہت خاتون سے سابقہ پڑتا ہے جس سے باقاعدہ تمام ہدایات حاصل ہوتی ہیں اور کوئی دیر نہیں لگتی۔ اسمبلی کے ہال پر گنبد ہے جس میں کل نشستیں ۲۱۵۰ ہیں جو مندوبین، ناظرین، اخباری نمائندوں اور پبلک پر مشتمل ہیں۔ اس کے جنوب کی طرف اصل سیکریٹریٹ ۳۹ منزلہ عمارت تمام آبی رنگ کی اینٹوں کی کھڑی ہے جس میں بخاری صاحب غالباً دسویں منزل پر کمرہ نمبر ۱۰۲۷ میں بیٹھتے تھے اگر صحیح اندازہ لگایا جائے تو اس عظیم الشان ادارہ کی عمارت کا سلسلہ قریب قریب ۵۰۰ فٹ لمبائی سے کم نہیں ہے۔ زائرین اس پرشکوہ عمارت کے اول ہال ملاقات میں ایک بلند نمایاں چبوترے پر یونانی دیوتا غالباً جیوپٹر کا قد آدم مجسمہ سیاہ دھات کا بنا ہوا مادرزاد برہنہ کھڑا ہوا مشاہدہ کرتے ہیں جو بادی النظر میں کافی بےحیائی کا منظر پیش کرتا ہے۔
میں یہاں دو تین بار گیا۔ اسمبلی کی میٹنگ روم نمبر۲ میں کچھ وقت بیٹھا اور کارروائی دیکھی۔ رسالے بھی خرید کئے اور سیکریٹریٹ کے ملاقات ہال میں آکر بخاری صاحب سے ملاقات کی کوشش کی مگر انہوں نے فون پر کارکن خاتون کے ذریعے ۲۴، اپریل کی تاریخ ایک بجے کا وقت طے کیا۔ چنانچہ اس تاریخ کو میں صبح صبح گھر سے نکلا اور گھومتے گھومتے ادارہ اقوام متحدہ پہنچا۔ بخاری صاحب سے ملنے کی خواہش کی تو خاتون نے ان سے فون پر اجازت حاصل کرکے مجھے ایک مطبوعہ چٹ پر وہاں کے دستور کے مطابق تاریخ، میرا نام، جس سے ملنا ہے اس کا نام (پروفیسر بخاری) اور کمرہ نمبر وغیرہ لکھ کر میرے حوالے کی اور اشارہ کیا کہ وہاں لفٹ کے آگے کھڑے ہوجائیے، ابھی کمرہ کھلے گا اور آپ اوپر چلے جانا۔ چنانچہ جب میں اوپر پہنچا تو مجھے فوراً ان تک ایک اور خاتون جو ان کی مددگار تھی لے گئی۔ بخاری مجھے دیکھ کر کہنے لگے میں گیارہ بجے سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں کیونکہ یہی وقت میں نے دیا تھا محض اخلاقاً انتطار کرتا رہا ورنہ چلا گیا ہوتا۔ میں نے معذرت کی کہ مجھے یہی وقت دیا گیا تھا مگر انہوں نے مجھے اپنی میز کی ڈائری دکھائی جس پر گیارہ بجے کا وقت لکھا تھا خیر یہ مغالطہ تھا جو غالباً سمجھنے میں یا سننے میں ہوا۔ بہرحال میں نے بہت معذرت کے بعد خیریت پوچھی۔
آپ نے اول امریکہ میں آنے کی وجہ دریافت فرمائی۔ میں نے کہا میں لیڈر پروگرام کے تحت یہاں آیا ہوں اورآپ سے ملے بغیر چلے جانا کوئی اچھا معلوم نہیں ہوتا تھا جس پر آپ نے فرمایا کہ میں بھی اسی لئے گیارہ بجے سے اس وقت تک (ایک بجے) بیٹھا رہا کہ ملاقات ضرور کرنی ہے حالانکہ مجھے اور اہم کام بھی اس وقت تھا۔ آپ نے لاہور کے احباب مولانا سالک، مسٹر فیض اور بعض دیگر احباب کی خیریت دریافت فرمائی۔ میں نے کہا کہ لاہور میں نیا علمی رسالہ لیل ونہار فیض صاحب نے جاری کیا ہے جو ہفتہ میں ایک بار طبع ہوتا ہے آپ کے پاس ضرور آیا ہوگا۔ فرمانے لگے اگر آیا بھی ہوگا تو کہیں نہر سویز پر آکر اٹکا ہوگا (جو دراصل ۱۹۵۶ء کے واقعات سویز کی طرف اشارہ تھا) میں مسکرایا پھر میں نے کہا آپ لوگوں نے ہی تو لڑائی بند کرائی تھی ورنہ دنیا میں کیا سے کیا ہوجاتا جس پر انہوں نے چند جملوں میں وہ تمام واقعہ سنایا کہ کس طرح مسٹر ڈاک ہیمر شوالڈ نے اپنے دفتر میں بیٹھے بیٹھے فوراً طے کیا کہ یہ ہنگامہ یکلخت بند ہوجانا چاہئے اور کسی طرح انہوں نے دنیا کے اخبار نویسوں کو نیچے پریس برانچ میں جمع کیا پھر یہاں سے لفٹ میں نیچے گئے تمام کمرہ بھرچکا تھا اور ابھی تک کسی شخص کو علم نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے جب انہوں نے ترک جنگ کا اعلان کیا تو دنیا حیران رہ گئی۔
اس کے بعد فرمایا کہ آج رات پاکستان ہاؤس میں میراایک لیکچر اقبال پر ہے۔ میں نے کہا میں ضرور سننے آؤں گا۔ ویسے لیکچر تو آپ نے خوب عمدگی سے لکھ لیا ہوگا فرمانے لگے کہ کچھ کیا ہی ہے جس پر میں نے کہا کہ حال ہی میں میں نے یونسکو کے مجلہ کوریر Courier میں ایک مضمون بہ عنوان ”دنیا کے بہت زیادہ ترجمہ شدہ مصنفین ۱۹۴۷ء ۔ ۱۹۵۵ء“ فروری ۱۹۵۷ء کے شمارے میں دیکھا ہے جس میں اقبال کو بھی شامل ہونا چاہئے تھا کیونکہ اگر آج ہم صحیح جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اقبال کا کلام چین وجاپان کے سوا قریب قریب سب ملکوں نے اپنے ہاں ترجمہ کیا ہے۔ میرے خیال میں یہاں بین الاقوامی شہر نیویارک میں سامعین وحاضرین جلسہ کو بتانا چاہئے اگر آپ کے مضمون میں اس امر کی طرف اشارہ نہیں ہے تو ضرور آنا چاہئے چنانچہ انہوں نے اس مشورہ کو مفید خیال کیا اور کچھ نوٹ بھی کیا۔ فرمانے لگے کہ لاہور کے ماجے ساجے یعنی لاہور کی زندگی کا کیا حال ہے؟ جس پر میں نے مسکرا کر کہا۔ آپ کو لاہور کی اس قسم کی گہماگہمی کا بڑا خیال رہتا ہے تو مسکرا کر فرمانے لگے کہ یہی تو ایک شہر ہے جو ہماری تمام جدوجہد کا آئینہ ہے۔ میں نے کہا توبہ قول آپ کے لاہور سب شہروں سے افضل ہے۔ جس شہر میں علامہ اقبال دنیا کا بہترین شاعر وفلسفی، گاماں پہلوان رستم زماں، آغا حشر کاشمیری، بہترین اردو ڈرامہ نویس عبدالرحمن چغتائی، بہترین مشرقی مصور حاجی دین محمد کاتب، مولانا ظفر علی خان جیسا اخبار نویس اور پطرس جیسا مزاح نگار ہو اس کی خوش نصیبی کی تو قسم کھانی چاہئے۔ دراصل میں نے ان کے کبھی کے کہے ہوئے ان جملوں کا اعادہ کیا ہے کہ یہ ان کا تصور ایمان کی حد تک تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ وہ پنجاب کو زندگی کا آئینہ تصور کرتے تھے۔ بات کاٹ کر فرمانے لگے کہ بھائی کی تصویریں بھی یہاں دیکھی ہیں؟ میں نے کہا ہاں دیکھی ہیں۔
دراصل نچلے ہال میں ایک نمائش کا حصہ ہے جس میں تین تصاویر عبدالرحمن چغتائی کی لگی ہوئی ہیں جن کو غالباً اسی سال پاکستان گورنمنٹ نے اقوام متحدہ کو ہدیہ کیا تھا اور اس میں بھی بخاری صاحب کا انتخاب اور جدوجہد شامل ہے ورنہ یہ کام نہ ہوتا۔ واقعی یہ بہت بڑا اعزاز ہے، کئی ہزار کی تعداد میں زائرین روزانہ دیکھتے ہیں۔
میں نے تجویز کیا کہ بعض لوگوں کو یہ گمان ہے کہ کسی قدیم مصور کی تصاویر ہیں اس کو رفع کرنے کے لئے ان پر مصور کے نام کے آگے محض تاریخ پیدائش لکھ کر چھوڑ دینا چاہئے تاکہ معلوم ہو کہ آرٹسٹ زندہ ہے اور آج کل یہ طرز مصوری اس ملک کی خصویت ہے جسے آپ نے قبول فرمایا۔ یہ علم نہیں کہ اس پر عمل ہوا یا نہیں۔ ابھی تک کسی دوسرے ملک کے آرٹسٹ کو یہ موقع نہیں ملا تھا۔پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ بتاؤ اس ادارہٴ اقوام متحدہ کو کیسا پایا جس پر میں نے مسکرا کر بطور ظرافت جواب میں پنجابی کا محاورہ ”گھر دے بھاگ بُوئے تے“ پیش کیا یعنی یہاں جو آدمی اول مرتبہ شمالی دروازے سے ملاقات کے ہال میں داخل ہوتا ہے تو اس کی نظر فوراً مشرقی جانب مادرزاد سیاہ فام ننگے یونانی دیوتا جیوپٹر کے قد آور بلند نشست مجسمہ پر پڑتی ہے تو وہ متحیر ہوتا ہے۔ ایسے شائستہ عالمی ادارہ میں اس طرح کی عریانی اس کے لئے ایک مسئلہ بن جاتی ہے خواہ اس مجسمہ میں بہت وسیع الخیال فلسفہ اور حقیقت ہی کیوں نہ ہو۔ جب وہ نووارد اس تمام ادارے کی سیر کرتا ہے اور واپسی پر پھر ایک بار اس جیوپٹر کے بت پر نظر کرتا ہے تو اس کا ذہن اس طرف ضرور منتقل ہوتا ہے کہ یہ مقام بطور تفریح گاہ تمام دنیا کی زندہ اقوام کی نمائندوں کا مختلف رنگوں اور لباسوں میں ایک عجائب گھر یا چڑیا گھر ضرور ہے مگر اس ادارے سے اقوام کی داد رسی ہرگز متوقع نہیں کیونکہ یہ ننگا بت جو یہاں کی علامتی نشان Symbol قرار دیا گیا ہے، اس امر کی دلیل ہے کہ یہاں کچھ نہیں رکھا ”جامہ ندارم دامن از کجا آرم“ بخاری صاحب نے اس مزاح کو سن کر حسب عادت ایک قہقہہ لگایا اور اُٹھ کر فرمایا کہ اب رات کو پاکستان ہاؤس میں اقبال کے لیکچر میں ملاقات ہوگی۔
چنانچہ ہم اپنے ہوٹل وڈسٹاک نیویارک ٹائمز چوک سے پروفیسر اجینی احمد جیو گرافی ڈھاکہ یونیورسٹی اور ایک اور صاحب جو کراچی سے تھے، مل کر نکلے اور قریب نو بجے وہاں پہنچ گئے، لیکچر ہمارے جانے کے بعد شروع ہوا۔ تمام پاکستان ہاؤس بھرا ہوا تھا۔ یہ کافی وسیع عمارت تھی۔ اس جلسہ کی صدارت ڈاکٹر جلال عبدہ ایران کے مستقل نمائندہ اقوام متحدہ نے کی تھی، ابتدا میں انہوں نے بخاری مرحوم کی علمی قابلیت کی نہایت تعریف کرتے ہوئے تعارف کروایا اور اعزاز صدارت کا شکریہ ادا کیا۔ بخاری صاحب نے اپنا مقالہ قریب ۴۵ منٹ میں ختم کیا اور لوگوں نے دل کھول کر داد دی۔ موضوع یہ تھا کہ اقبال نے شاعری کو اپنے افکار کے اظہار کے لئے ایک موزوں ذریعہ قرار دے کر کیا کیا علمی خدمات انجام دیں۔ بعد میں اس پر کوئی سوال جواب نہیں ہوئے۔ صدر ڈاکٹر جلال عبدہ نے فارسی شاعری میں اقبال کے مقام پر کچھ مزید روشنی ڈالی۔ جلسہ کے اختتام پر میں نے پروفیسر بخاری کی معرفت ڈاکٹر جلال عبدہ سے تعارف حاصل کیا۔
دو روز بعد میں نے پھر ان کے دفتر ایمپائراسٹیٹ بلڈنگ کی باسٹھ ویں منزل پر جاکر ان سے ایک تعارف نامہ بنام ڈاکٹر سید مصطفویٰ ناظم محکمہ آثار قدیمہ ایران حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ تعارف نامہ انہوں نے بطیب خاطر فارسی زبان میں لکھ کر عنایت کیا۔ نیویارک میں ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ یک صد منزل سے زیادہ کی ہے اور بلند ترین عمارت ہے۔ حسنِ اتفاق سے جب میں ان کے کمرہ میں بیٹھا ان سے باتیں کر رہا تھا تو ہوائی جہاز گزرا، میں نے ظرافتہً کہا کہ دیکھو ہوائی جہاز آپ سے نیچے اُڑ رہا ہے یہ محض اس عمارت کی بلندی کی خصوصیت کی طرف ایک اشارہ تھا۔
میں نے امریکہ سے روانہ ہوتے وقت جون کے نصف میں بخاری سے پھر ملنے کا ارادہ کیا مگر وہ ۱۴ تاریخ کو جنیوا جاچکے تھے اس کا علم مجھے ان کے مددگار آغا اشرف سے ہوا۔
میں اپنے آپ کو اس کا اہل نہیں سمجھتا کہ پروفیسر بخاری مرحوم کی علمی کارناموں پر کوئی تبصرہ کروں مگر یہ ضرور عرض کروں گا کہ ان کا ایک خاص انداز تھا یعنی روزانہ کے حالات اور تجربات زندگی ان کو موضوع بخشتے تھے اور وہ اپنی تحریر کو اس قدر نفسیاتی طور پر بلند لے جاتے تھے کہ ہر مطالعہ کرنے والا اس پر خود گھومتا نظر آتا تھا اور اس سے اس قدر لطف اندوز ہوتا تھا کہ ختم کرنے کے بعد محسوس کرتا تھا کہ وہ واقعی اسی ماحول میں چلا گیا ہے چنانچہ ۱۹۵۷ء میں جب میں تہران پہنچا اور ایک شب مسٹر رحمان پاکستان کے ادارہ سفارت کے ہاں دعوت پر ایک اور سیکریٹری مسٹر صدیقی سے مذاکرہ ہوا تو بخاری کا ذکر آگیا پھر کیا تھا ان کے بعض خاص خاص موضوعات پر بھی گفتگو ہوئی معلوم ہوا کہ ان کو بخاری کا مضمون ”بائیسکل“ ایک طرح زبانی یاد ہے انہوں نے اس مضمون کے بعض حصے اس طرح سنائے کہ تمام محفل پُرلطف ہوگئی جو آج تک نہیں بھولتی۔
* * *