Bachay Ka Pahla Saal (پچے کا پہلا سال)

بچے کا پہلا سال

 
    ایک زمانہ ایسا تھا کہ لوگ بچے کی عمر کے پہلے سال کو تعلیم کے دائرے سے خارج سمجھتے تھے۔ جب تک بچہ کم از کم بولنا شروع نہ کرتا۔ اسے صرف ماں یا دایہ کی زیر نگرانی رکھا جاتا تھا۔ اور یہ فرض کرلیا جاتا تھا کہ وہ فطرتاً ہی بچے کے نیک وبد کو ایسی اچھی طرح سمجھتی ہیں کہ انہیں سکھانے کی ضرورت نہیں لیکن فی الحقیقت لوگوں کا یہ خیال غلط تھا۔ اکثر بچے سال بھر کے بھی نہ ہونے پاتے کہ مرجاتے اور زندہ رہتے ان میں سے کئی ایک کی صحت ہمیشہ کے لئے خراب ہوجاتی۔ غلط تربیت کی وجہ سے خطرناک ذہنی عادات کی بنیاد پہلے ہی پڑجاتی۔ یہ حقیقت ہمیں حال ہی میں معلوم ہوئی ہے۔
    دراصل بات یہ ہے کہ اکثر لوگ شیر خوار بچوں کی پرورش کے معاملے میں سائنس کا دخل پسند نہیں کرتے۔ کیونکہ اس سے ماں کی مامتا اور بچے کے لاڈلے پن کا جو دلاویز تصور ان کے ذہن میں موجود ہے اسے صدمہ پہنچتا ہے لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ اندھا دھند محبت اور لاڈ پیار اور چیزیں ہیں۔ اصل محبت اور چیز ہے جن والدین کو اپنے بچوں سے سچی اور اصلی محبت ہے وہ ان کی تربیت کے لئے سائنس کے اصولوں پر عمل کرنے سے نہیں گھبراتے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ضرررساں قسم کی محبت ان ہی لوگوں میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ جن کے کوئی اولاد نہیں ہوتی۔ یا جو (روسو کی مانند) اپنے بچوں کو کسی یتیم خانہ کے حوالے کر دینا چاہتے ہیں اکثر تعلیم یافتہ والدین سائنس کی معلومات سے متنفر ہونے کی بجائے استفادہ کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ان پڑھ لوگوں میں بھی سائنس کا چرچا روزبروز بڑھتا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بچوں کی اموات روزبروزکم ہوتی جاتی ہے، اگر لوگ پوری احتیاط سے کام لیں تو نہ صرف اموات کی تعداد اور بھی کم ہوجائے گی بلکہ جو بچے زندہ رہیں گے ان کی دماغی اور جسمانی حالت بہتر ہوگی۔
    جسمانی صحت کے ماہر ڈاکٹر لوگ ہیں وہی ان مسائل کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مسائل اس کتاب کے دائرے سے خارج ہیں لیکن ہم یہاں جسمانی صحت کے مسائل پر اسی حد تک بحث کریں گے جس حد تک اس کا تعلق ذہنی یا نفسیاتی زندگی سے ہے۔ اور ان پر اس وقت بحث کرنا یوں ضروری ہے کہ اول تو عمر کے پہلے سال میں جسمانی زندگی اور ذہنی زندگی میں تمیز کرنا مشکل ہوتا ہے دوسرے اگر شروع میں بچے کے جسم کا کماحقہ خیال نہ رکھا جائے تو چند ایسے نقائص کے پیدا ہونے کا احتمال رہتا ہے جو بڑے ہو کر تعلیم کے رستے میں حارج ہوجاتے ہیں۔ اس لئے ہر چند کہ جسمانی صحت پر بحث کرنا ڈاکٹروں ہی کا حصہ ہے تاہم اس موقعے پر ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے متعلق کچھ عرض کریں۔
    نوزائیدہ بچہ کسی چیز کا عادی نہیں ہوتا۔ اس کی تمام حرکات کسی عادت کی وجہ سے نہیں بلکہ اضطراراً سرزد ہوتی ہیں اگر ماں کے پیٹ میں اس نے بعض عادتیں اختیار کرلیں ہیں تو وہ کم از کم ایسی نہیں کہ پیدا ہونے کے بعدبھی اس کے کام آسکیں۔ یہاں تک کہ سانس لینا بھی اسے پیدائش کے بعد سیکھنا پڑتا ہے۔ اور بعض بچے تو مر ہی اسی لئے جاتے ہیں کہ تنفس کا عمل دیر میں سیکھتے ہیں۔ ایک زبردست خواہش بچہ فطرت کی طرف سے اپنے ساتھ لاتا ہے اور وہ چوسنے کی خواہش ہے جب تک بچہ اس عمل میں مصروف رہے بہت خوش رہتا ہے۔ باقی تمام وقت وہ ایک تحیر کے عالم میں گزارتا ہے جس سے یوں نجات حاصل ہوتی ہے کہ دن اور رات کا بیشتر حصہ نیند میں گزرجاتا ہے۔ پندرہ دن کے بعد یہ حالت بدل جاتی ہے۔ اور بعض باتیں (مثلاً دودھ پینا وغیرہ) تواتر کے ساتھ ظہور میں آنے لگتی ہیں۔ اس لئے بچہ ان باتوں کا متوقع رہتا ہے یعنی یوں کہئے کہ اب وہ بعض چیزوں کا عادی ہوجاتا ہے اور جن باتوں کا عادی ہو انہیں کو پسند کرتا ہے گویا قدامت پسند بن جاتا ہے۔ اور قدامت پسند بھی ایسا کہ اغلباً پھر عمر بھر ایسا نہیں ہوتا۔ ہر نئی چیز اسے ناپسند ہوتی ہے اگر بچہ اس عمر میں بولنے کے قابل ہوتا تو بڑے بوڑھوں کی طرح اپنی پسندیدگی کا اظہار ان الفاظ میں کرتا کہ میاں جانے دو اس عمر میں اب ہم بھلا نئی نئی باتیں کیونکر سیکھ سکتے ہیں۔ تاہم شیر خوار بچے نئی عادتیں بہت جلد اختیار کرلیتے ہیں۔ اس دوران میں اگر کوئی بری عادت سیکھ لیں تو وہ بعد میں اچھی تربیت کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے، اس ليے شیرخواری کے زمانے کی عادات کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیئے اگر شروع شروع کی عادات اچھی  ہوں تو بہت سہولت ہوتی ہے علاوہ برآں شیر خوارگی کے زمانے کی عادت اتنی راسخ ہوتی ہے کہ بڑے ہو کر وہ بالکل جبلت معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے اعمال پر اس کا اثر بہت گہرا ہوتا ہے جو عادات بعد میں سیکھی جائیں ان میں یہ پختگی کبھی نہیں ہوتی۔ اس لئے زمانہ طفلی کی عادات خاص طور پر توجہ کی مستحق ہیں۔
    اس سلسلے میں دو باتیں پیش نظر رکھنی چاہیں۔ اول اور سب سے مقدم صحت، دوم سیرت، ہم چاہتے ہیں کہ بچہ بڑا ہو کر ایک ایسا انسان ثابت ہو جس کے اوصاف پسندیدہ ہوں اور جو اپنے گردوپیش سے بوجہ احسن عہدہ برآ ہوسکے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ صحت اور سیرت دونوں کے مطالبات ایک ہیں۔ جو چیز ایک کے لئے مفید ہے وہی دوسرے کے لئے مفید ہے۔ یہاں بحث سیرت سے ہے لیکن جو اصول ہم سیرت کی بہتری کے لئے وضع کریں گے۔ وہی صحت کے لئے بھی مفید ہیں گویا یہ نہیں ہوسکتا کہ بچہ تنومند تو ہو لیکن اس کے اخلاق برے ہوں یا نیک سیرت تو ہو لیکن اس کا جسم امراض کا شکار ہو۔
    آج کل ہر تعلیم یافتہ ماں جانتی ہے کہ صرف مقررہ اوقات پر دودھ پلانا چاہئے اس سے بچے کا ہاضمہ درست رہتا ہے۔ یہ بجائے خود ایک نہایت معقول وجہ ہے لیکن اس کے علاوہ اخلاقی نقطہ نظر سے بھی یہ بہت مفید ہے۔ شیرخوار بچہ اتنا بےعقل نہیں ہوتا جتنا ہم اسے سمجھتے ہیں اسے ایک دفعہ یقین ہوجائے کہ رونے سے مطلب نکل آتا ہے تو وہ ضرور روتا ہے لیکن جب بڑا ہوکر اسی عادت کے زیر اثر ہر وقت رونی صورت بنا کر لوگوں کے گلے شکوے کرتا ہے تو لوگ اسے چمکارنے کی بجائے اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں لوگوں کا یہ سلوک اسے ازحد ناگوار گزرتا ہے۔ اور وہ دنیا کو خودغرضی اور ہمدردی کے جذبے سے معرا سمجھ لیتا ہے۔ اگر لڑکی ہو اور بڑی  ہو کر خدا اسے حسین بنا دے تو بےجا توجہات اور بےجا خاطر مدارت کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور یہ نقص اور بھی مستحکم ہوجاتا ہے۔ یہی حال دولت مند لڑکوں کا ہوتا ہے کہ بچپن میں بگڑجاتے ہیں تو پھر تمام عمر بگڑتے چلے جاتے ہیں جس شخص کی پرورش شیرخوارگی کے زمانے میں غلط طریقے پر ہو وہ بڑا ہو کر اگر ذی اقتدار ہے تو ضدی اور حریص ہوتا ہے اور اگر بےبضاعت ہے تو لوگوں کی مفروضہ بےتوجہی سے کڑھتا رہتا ہے اس لئے اخلاقی تعلیم روز اول ہی سے شروع کردینی چاہئے تاکہ نہ غلط توقعات پیدا ہوں۔ نہ بعد میں انہیں مجروح ہونا پڑے۔ اگر شروع میں اس کا تدارک نہ کیا جائے تو بعد میں بچے کی خواہشات کو ٹھکرانے سے اس کے دل میں غصے اور رنج کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔
    گویا بچے کی تربیت اس طرح کرنی چاہیئے کہ نہ تو اسے لاڈ پیار اور چاؤ چونچلوں سے بگاڑا جائے نہ اس کی طرف سے بالکل ہی بےتوجہی برتی جائے مثلاً جو بات صحت کے لئے ضروری ہے اس میں کوتاہی نہ کرنی چاہئے۔ بچے کو ہوا اور بارش سے تکلیف پہنچ رہی ہو تو اسے اٹھا لینا چاہئے تاکہ اسے سردی نہ لگے اور وہ بھیگ نہ جائے لیکن اگر بچہ بغیر کسی جسمانی تکلیف کے رونا شروع کر دے تو اسے رونے دینا چاہئے ورنہ وہ بےجا خدمت کرانے کا عادی ہوجائے گا۔ جب اس کی دیکھ بھال کی جائے تو بہت زیادہ چاؤ اور اہتمام کرنا فضول بلکہ مضر ہے جو بات مناسب ہو وہ کردینی چاہئے اور ضرورت سے زیادہ پیار محبت اور ہمدردی کا اظہار نہ کرنا چاہئے۔ بچوں کی پرورش چاؤ چونچلوں سے نہیں بلکہ متانت اور سنجیدگی سے کرنی چاہئے گویا وہ بچہ نہیں بلکہ بڑی عمر کا انسان ہے۔
    بچوں میں بڑوں کی سی عادتیں تو پیدا نہیں ہوسکتیں۔ لیکن ہمیں یہ خیال ضرور رکھنا چاہئے کہ کوئی ایسی بات نہ ہونے پائے جو ان کی عادات کے رستے میں رکاوٹ ثابت ہو۔ مدعایہ کہ بچہ مزاج دار نہ بن جائے۔ ورنہ بعد میں اسے سخت مایوسی کا سامنا ہوگا اور یوں دیکھئے تو وہ خود بھی اس قابل نہیں کہ اس میں اس قدر اہمیت کا احساس پیدا کیا جائے۔
    بچوں کی پرورش میں سب سے مشکل بات یہ ہے کہ والدین کو غفلت اور لاڈ کے بین بین رہنا پڑتا ہے بچے کی صحت کو درست رکھنے کے لئے ہر وقت اس کی نگہداشت کرنی پڑتی ہے۔ اور اس کی خاطر بڑی بڑی مصیبتیں جھیلنی پڑتی ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ والدین کو بچے سے بہت زیادہ الفت ہو لیکن مصیبت یہ ہے کہ جہاں والدین کو محبت زیادہ ہوتی ہے وہاں اکثر ان کی عقل پر پردہ پڑجاتا ہے۔ جن والدین کو اپنے بچوں سے بہت محبت ہے۔ ان کے نزدیک اولاد کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے اگر احتیاط نہ برتی جائے تو بچہ بھی اس بات کو محسوس کرنے لگتا ہے اور جتنا اہم اسے والدین سمجھتے ہیں اتنا ہی اہم وہ بھی اپنے آپ کو سمجھتا ہے جب اسے خودبینی کی عادت پڑجاتی ہے اور بڑے ہو کر لوگ والدین کی طرح اس کی خوشامد درآمد نہیں کرتے تو اسے مایوس ہونا پڑتا ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ نہ صرف پہلے سال بلکہ بعد میں جب کبھی بچہ بیمار ہو والدین خندہ پیشانی اور بہ ظاہر بے فکری کے ساتھ اس کا علاج کریں اور بات کا بتنگڑ نہ بنائیں۔
    پرانے زمانے میں بچوں کو جکڑ کر بھی بہت رکھا جاتا تھا۔ اور ان سے لاڈ بہت کیا جاتا تھا ان کے اعضا کو حرکت کرنے کا موقع نہ دیا جاتا تھا کپڑے ضرورت سے زیادہ گرم ہوتے تھے فطری حرکات پر پابندیاں عائد کی جاتی تھیں لیکن ساتھ ہی ان کو ہر وقت گود میں اٹھائے اٹھائے پھرتے تھے۔ ان کے سامنے گانے گاتے پھرتے تھے۔ اور انہیں چوبیس گھنٹے چوما چاٹی کا تختہ مشق بنائے رکھتے تھے۔ یہ بہت غلط طریقہ تھا اس سے بچے بگڑجاتے تھے او رہر وقت ماں باپ کے گلے کا ہار بنے رہتے تھے۔ صحیح اصول یہ ہے کہ نہ بچے کی فطری حرکات وخواہشات پر پابندی عائد کیجئے نہ اسے ان سے تجاوز کرنے دیجئے۔ بچے کے لئے آپ جو تکلیف اٹھاتے ہیں اس سے بچے کو بےخبر رہنا چاہیئے۔ خدمت کرانے کا چسکا اسے نہ پڑنے دیجئے جہاں تک ممکن ہو ایسی کامیابی کا لطف اسے ضرور اٹھانے دیجئے جو خود اس کی اپنی کوشش کا نتیجہ ہو۔ جدید تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے بچے کو خارجی قواعد وضوابط کی غلامی سے آزاد کیا جائے۔ لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ خود بچے کے دل میں انضباط کا احساس پیدا کیا جائے۔ اور اس احساس کا پیدا کرنا عمر کے پہلے سال میں نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ مثلاً جب بچے کو سلانا ہو تو اسے گود میں نہ لینا چاہئے۔ بازروں میں تھام کر ”سوجا سوجا“ نہ کرنا چاہئے بلکہ اس کے پاس تک نہ ٹھہرنا چاہیئے۔ اگر آپ ایک مرتبہ یوں کریں گے تو بچہ دوسری مرتبہ بھی یہی چاہے گا اور تھوڑے عرصہ میں بچہ کا سلانا ایک مصیبت بن جائے گا۔ بچے کو اڑھا لپٹا کر بستر میں سلا دینا چاہیئے اور ایک دو باتیں کرکے اسے اکیلا چھوڑ دینا چاہیئے۔ ممکن ہے وہ چندمنٹ تک روتا رہے لیکن اگر وہ بیمار نہیں تو تھوڑی دیر میں خود بہ خود چپ ہوجائے گا۔ اس کے بعد جاکر دیکھئے تو مزے کی نیند سو رہا ہوگا۔ لاڈ پیار سے ایک تو اس کی سیرت بگڑ جائے گی۔ دوسرے وہ سوئے گا بھی کم۔
    پہلے بیان ہوچکا ہے کہ نوزائیدہ بچہ ماں کے پیٹ سے کوئی عادت ساتھ نہیں لاتا اس کی عادات فطری اور اضطراری ہوتی ہیں چنانچہ اسے اشیاء کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ اشیاء کے احساس کے لئے یہ ضروری ہے کہ بچہ اشیاء کو پہچانے اور اشیاء کو پہچاننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اشیاء کا بار بار تجربہ ہو۔ سو وہ رفتہ رفتہ ہی حاصل ہوتا ہے۔ پیدائش کے تھوڑے عرصہ بعد بچہ پنگوڑے کے مس ماں کی چھاتی یا دودھ کی بوتل کے مس اور خوشبو اور ماں یا ان کی آواز سے مانوس ہوجاتا ہے۔ ماں یا پنگوڑے کو دیکھنے کی قابلیت بعد میں پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ نوزائیدہ بچے کی آنکھیں ابھی اس قابل نہیں ہوتیں کہ وہ اشیاء کو واضح طور پر دیکھ سکے۔ جب رفتہ رفتہ مختلف احساسات کی ائتلاف سے بچے کے ذہن میں عادات وضع ہوجاتی ہیں تو مس اور بو اور نظر کی بدولت ذہن میں اشیا کے تصورات شکل پذیر ہونے لگتے ہیں۔ خاص خاص احساسات اس کے دل میں خاص خاص اشیاء کی توقعات پیدا کرتے ہیں۔ (دودھ کی بو آتی ہے تو چھاتی یا بوتل کے مس کے لئے تیار ہوجاتا ہے ماں کی آواز آتی ہے تو ماں کی شکل دیکھنے کا منتظر ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ) تاہم کچھ عرصے تک اشخاص اور اشیا میں تمیز نہیں کرسکتا۔ جس بچے کو کبھی بوتل کا دودھ اور کبھی چھاتی کا دودھ پلایا جائے اس کے نزدیک کچھ عرصے تک ماں اور بوتل ایک ہی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس تمام عرصے کے دوران میں تعلیم کا ذریعہ محض جسمانی ہونا چاہئے بچے کی تمام مسرتیں (جو زیادہ تر گرماہٹ اور خوراک تک محدود ہوتی ہیں) اس کے تمام دکھ محض جسمانی ہوتے ہیں۔ اس کے افعال اور اس کی عادات یوں شکل پذیر ہوتی ہیں کہ جو چیز اس کے ذہن میں مسرت سے تعلق رکھتی ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو دکھ سے متعلق ہو اس سے گریز کرتا ہے۔
    بچے کا رونا ایک حد تک تو اضطراری حرکت ہے جو دکھ کی وجہ سے ظہور میں آتی ہے اور ایک حد تک ایک ارادی فعل ہے جو بچہ مسرت حاصل کرنے کے لئے اختیار کرتا ہے۔ شروع شروع میں وہ محض دکھ کی وجہ سے روتا ہے لیکن جب اس دکھ کو دور کیا جائے (جیسا کہ کیا جاتا ہے) تو بچے کے دل میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ رونے کے نتائج خوش گوارہوتے ہیں چنانچہ رفتہ رفتہ بچے کو یہ عادت ہوجاتی ہے کہ نہ صرف دکھ دور کرانے کےليے روتا بلکہ مسرت حاصل کرنے کے ليے بھی اس حربے کو کام میں لاتا ہے، یہ اس کی ذہانت کی پہلی فتح ہوتی ہے لیکن باوجود بےانتہا کوشش کے جب تک اسے دکھ نہ پہنچ رہا ہو وہ ویسا نہیں رو سکتا، جیسا دکھ کے وقت روتا ہے۔ ہوشیار ماں اس قسم کے رونے اور اُس قسم کے رونے میں بخوبی تمیز کرسکتی ہے عقلمندی یہی ہے کہ جب بچہ کا رونا دکھ کا رونا ہو تو اس پر بالکل توجہ نہ کی جائے۔ بچے کو لئے لئے پھرنا اور اس سے کھیلتے رہنا یا اس کے سامنے گانے گانا آسان بھی ہے اور پُرلطف بھی۔ لیکن بہت جلد بچہ اس قسم کی تفریح کا عادی ہوجاتا ہے جو اس کی نیند میں خلل انداز ہوتی ہے۔ شیرخوار بچے کا بیشتر وقت (سوائے دودھ پینے کے اوقات کے) نیند میں گزرنا چاہیئے۔ ممکن ہے کہ بعض والدین کو یہ باتیں سخت معلوم ہوں لیکن تجربے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بچے کی صحت اور خوشی کے لئے یہ باتیں بہت مفید ہیں۔
    بچے کے لئے جو تفریحات والدین مہیا کرتے ہیں ان کو تو ایک خاص حد کے اندر رکھنا چاہیئے۔ لیکن جو تفریحات وہ خود اپنے لئے پیدا کرے ان کو ترقی دینے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ شروع ہی سے اسے اس بات کا موقع دینا چاہیئےکہ وہ آزادی سے ہاتھ پاؤں ہلا سکے۔ اور اپنے اعصاب کو کام میں لا سکے۔ پرانے زمانے کے لوگ بچوں کو باندھ کر رکھا کرتے تھے اس کی وجہ سستی کے سوا اور کچھ نہ تھی کیونکہ جن بچوں کو کھلا رکھا جائے ان کی نگہداشت زیادہ کرنی پڑتی ہے۔ حیرت ہے کہ ان لوگوں کی مامتا بھی ان کی سستی پر غالب نہ آسکتی تھی جب بچے کی نظر ٹھیک ہوجاتی ہے تو وہ متحرک چیزوں کو خصوصاً جو ہوا سے ہل رہی ہوں دیکھ کر خوش ہوتا ہے لیکن پھر بھی جب تک وہ اشیا کو پکڑنا نہ سیکھ لے اس کی دلچسپیوں کا دائرہ بہت محدود رہتا ہے۔ جب پکڑنا سیکھ لے تو یہ دائرہ یک لخت وسیع ہوجاتا ہے کچھ عرصے تک تو محض گرفت ہی کی مشق اتنی مسرت انگیز ہوتی ہے کہ وہ گھنٹوں اس میں مشغول رہتا ہے۔ جھنجھنے کا شوق بھی اسی زمانے میں پیدا ہوتا ہے۔ جھنجھنے کے زمانے سے ذرا پہلے وہ اپنے ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں پر قابو حاصل کرتا ہے شروع شروع میں پاؤں کی انگلیوں کی حرکات محض اضطراری ہوتی ہے۔ بعد میں بچہ یہ دریافت کرتا ہے کہ میں انہیں اپنی مرضی سے بھی ہلا سکتا ہوں اس احساس سے وہ اتنا خوش ہوتا ہے گویا بہت بڑی مملکت حاصل کرلی ہے کیونکہ انگلیاں اب اجنبی نہیں رہتیں۔ بلکہ جسم کا جزو بن جاتی ہیں۔ اس کے بعد اگر بہت سی چیزیں بچے کے آس پاس ایسی ہوں جنہیں وہ پکڑ سکے تو اسے دل بہلاوے کا بہتیرا سامان مہیا ہوجاتا ہے بچے کو تفریح بھی ایسی ہی حرکات سے ہوتی ہے جو تعلیم کے نقطہ نظر سے ضروری ہے البتہ گر جانے یا چوٹ لگ جانے یا کسی تکلیف دہ چیز مثلاً پن یا سوئی کے نگلنے سے اسے بچانا ضروری ہے۔
    پہلے تین مہینے کے عرصے میں بچہ دودھ پیتے وقت تو بہت خوش ہوتا ہے لیکن باقی تمام وقت اس کی طبیعت اکتائی رہتی ہے۔ جب وہ مزے میں ہو تو سو جاتا ہے جاگ رہا ہو تو کوئی نہ کوئی بےچینی اسے ضرور رہتی ہے۔ انسان کی خوشی کا انحصار اس کی ذہنی قابلیت پر ہے لیکن تین مہینے سے کم عمر کے بچے کو نہ کسی چیز کا کافی تجربہ ہوتا ہے نہ وہ اپنے اعصاب پر قادر ہوتا ہے اس لئے مسرتوں سے محروم رہتا ہے۔جانوروں کے بچے نسبتاً بہت جلد زندگی سے لطف اٹھانے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ ان کی مسرتیں فطری ہوتی ہیں اور تجربے پر منحصر نہیں ہوتیں۔ انسان کا بچہ اگر محض جبلّت پر تکیہ کرے تو اس کی خوشیوں اور دلچسپیوں کا حلقہ تنگ رہتا ہے۔ بچہ اپنی عمر کے پہلے تین مہینے عام طور پر اکتایا رہتا ہے۔ اس اکتائے رہنے میں بھی حکمت ہے۔ اس سے نیند پوری طرح آتی ہے۔ اگر بچے کو بہت زیادہ بہلایا جائے تو وہ سوتا کم ہے۔
    جب بچہ دو تین مہینے کا ہوجاتا ہے تو مسکرانا سیکھتا ہے۔ اور اشخاص کے متعلق اس کے جذبات اشیا سے ممیز ہونے لگتے ہیں۔ اس عمر کو پہنچ کر ماں اور بچے میں سوشل تعلقات کا امکان شروع ہوجاتا ہے۔ بچہ ماں کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کرسکتا ہے اور کرتا ہے اور نہ صرف جانوروں کی مانند بلکہ اور طرح سے متاثر ہوتا ہے۔ تھوڑے عرصے کے بعد تحسین وتعریف کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ میرے اپنے بچے میں اس خواہش کے واضح آثار پانچ مہینے کی عمر میں ظاہر ہوئے۔ میز پر ایک وزنی گھنٹی پڑی تھی۔ بڑی مشکلوں سے اس نے اسے اٹھایا اور اٹھ کر بجایا اور فخریہ مسکرا کر سب کو باری باری دیکھنے لگا جب یہ خواہش پیدا ہوجائے تو گویا ایک زبردست حربہ معلم کے ہاتھ آجاتا ہے یہ حربہ تعریف اور ملامت کا حربہ ہے۔ بچپن کے تمام تر زمانے میں اس سے بڑا کام لیا جاسکتا ہے لیکن اس حربے کو ازحد احتیاط کے ساتھ استعمال کرنا چاہیئے، عمر کے پہلے سال میں بچہ کی مذمت بالکل نہ کرنی چاہیئے بعد میں بھی اس سے بہت حد تک احتراز واجب ہے۔ تعریف نسبتاً کم مضر ہوتی ہے لیکن تعریف نہ تو فراخدلی سے کرنی چاہیئےکہ اس کی قدر ہی جاتی رہے اور نہ اس بخل کے ساتھ کہ بچے کو اس کے حاصل کرنے کے لئے بہت زیادہ زور لگانا پڑے۔ جب بچہ پہلی دفعہ قدم اٹھائے یا پہلی دفعہ الفاظ منہ سے نکالے تو کسی معقول شخص کو اس کی کارگزاری کو سراہنے میں تامل نہ کرنا چاہیئے۔ جب کبھی بچہ بہت سی کوششوں کے بعد کسی مشکل کو حل کرے تو اس کی تعریف ضرور کرنی چاہیئے۔ بچے کو یہ احساس دلانا چاہیئےکہ ہمیں اس کی خواہش اکتساب کے ساتھ ہمدردی ہے۔
    عام طور پر بچے میں خواہش اکتساب اتنی زبردست ہوتی ہے کہ اس کے لئے محض مواقع مہیا کر دینا ہی کافی ہوتا ہے باقی سب کچھ وہ خود ہی کر لیتا ہے مثلاً بچے کو گھٹنوں چلنے یا پاؤں پاؤں چلنے یا اسی طرح کی دیگر حرکات سکھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ باتیں کرنا البتہ خود بول کر اسے سکھاتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ بالا ارادہ الفاظ سکھانے کی کوشش کرنا غیر ضروری ہے۔ بچے اپنی ترقی کی رفتار خود ہی معین کرتے ہیں اسے تیز تر بنانے کی کوشش کرنا غلطی ہے۔ مرتے دم تک انسان کا یہ حال ہوتا ہے کہ مشکلیں پیش آتی ہیں۔ ان پر قابو پاتا ہے اور اس سے مزید کوشش کے لئے حوصلہ بڑھتا ہے۔ اس سے بہتر طریقہ شوق کے بڑھانے کا اور کوئی نہیں۔ مشکلات نہ اتنی زیادہ ہونی چاہیئیں کہ کام کرنے کا شوق ہی مرجائے۔ اور نہ اتنی کہ طبیعت کو اکسانہ سکیں۔ ہم کچھ سیکھتے اسی بات سے ہیں جو ہم خود کرتے ہیں۔ بڑوں کو صرف یہ کرنا چاہیئےکہ ایک دفعہ بچے کو کرکے دکھا دیں۔ مثلاً اس کے سامنے ایک دفعہ جھنجھا ہلا دیں اور پھر بچے کو چھوڑ دیں کہ وہ خود اس کی نقل اتارنے کی کوشش کرے۔ جو کام دوسرے لوگ سرانجام دیں۔ وہ سمندِ شوق پر تازیانے کا کام کرسکتے ہیں۔ لیکن جب تک بچہ وہ کام خود نہ کرے اسے تعلیم نہیں کہا جا سکتا۔
    باقاعدگی اور وقت کی پابندی شروع بچپن اور خصوصاً پہلے سال میں بہت ضروری ہیں۔ نیند، خوراک اور رفع حاجت کے لئے شروع ہی سے باقاعدگی کی عادت ڈالنی چاہیئے۔ گردوپیش کے حالات وواقعات کا مانوس ہونا ذہنی نقطہٴ نظر سے بہت ضروری ہے۔ اگر ایک ہی بات باقاعدگی سے پیش آتی رہے تو بچے کو اس کے پہچاننے میں آسانی ہوتی ہے۔ ذہن پر ضرورت سے زیادہ زور نہیں ڈالنا پڑتا۔ اور بچہ محسوس کرتا ہے کہ میں محفوظ ہوں۔ بچہ کمزور اور بے بس ہوتا ہے۔ اسے تسکین کی ضرورت ہے اگر اسے یہ احساس پیدا ہو جائے کہ ہر بات باقاعدگی کے ساتھ ہوتی ہے اور کوئی نئی بات یکلخت اس کی زندگی میں خلل نہیں ڈال سکتی تو وہ خوش رہتا ہے۔ ذرا عمر بڑی ہوتی ہے تو نئی نئی باتوں کا شوق پیدا ہوتا ہے لیکن زندگی کے پہلے سال میں ہر نئی بات میں بچہ کو ڈر محسوس ہوتا ہے جس سے اسے جہاں تک ممکن ہو محفوظ رکھنا چاہیئے۔
    اگر بچہ بیمار ہو اور آپ متفکر، تو اپنا فکر حتی الامکان اس پر ظاہر نہ ہونے دیجئے ورنہ وہ بھی متفکر ہوجائے گا۔ کوئی ایسی بات نہ کرنی چاہیئےجس سے بچے کی طبیعت میں ہیجان پیدا ہو اگر بچے کو ٹھیک نیند نہ آئے یا اس کا پیٹ خراب ہو تو بچے کےسامنے بےپروائی ظاہر کرنی چاہیئےاسے یہ احساس نہ ہونا چاہیئےکہ اس کی اہمیت کچھ بڑھ گئی ہے ورنہ وہ معمولی باتوں میں بھی آپ کی خوشامد اور ترغیب کا خواہش مند ہوگا۔ اس بات کا خیال نہ صرف عمر کے پہلے سال میں بلکہ بعد میں بھی رکھنا چاہیئے۔ بچہ بڑا ہو تو اس اصول پر بیش از پیش کار بند ہونا چاہیئے۔بچے کے دل میں یہ احساس کبھی نہ پیدا ہونے دینا چاہیئےکہ اس کے معمولی افعال مثلاً کھانا پینا جو خود اس کے لئے مسرت کا موجب ہیں آپ کی ممنونیت کا باعث ہیں۔ اگر اس میں یہ احساس پیدا ہوجائے تو وہ خوشامد کا متوقع رہتا ہے۔ حالانکہ اسے ایسی باتیں خودبخود بغیر ترغیب کے کرنی چاہیئں۔
    یہ کبھی خیال مت کیجئے کہ بچے میں اتنی عقل کہاں جو ان باتوں کو سمجھے۔ بچے کے قوائے کمزور ہیں اور اس کا علم محدود۔ لیکن جہاں یہ کوتاہیاں اس کے رستے میں حارج نہ ہوں وہاں اس کی ذہانت بڑوں سے کم نہیں ہوتی۔ بچہ جو کچھ شروع کے ایک سال میں سیکھتا ہے پھر عمر بھر ایک سال کے عرصہ میں اتنا نہیں سیکھ سکتا۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ بچے کی ذہانت بہت تیز ہوتی ہے۔
    خلاصہ یہ کہ بچے کو یہ سمجھ کر پالو کہ ایک دن اسے بڑا ہونا ہے اور دنیا کے کاروبار میں حصہ لینا ہے۔ اس کی موجودہ سہولتوں پر یا اپنی خوشی پر اس کی آئندہ بہتری کو قربان مت کیجئے اس سے اسے بہت نقصان پہنچتا ہے۔ ٹھیک تربیت دینے کے لئے محبت اور علم دونوں کا ہونا ضروری ہے۔

ماخوذ از کتاب ”تعلیم خصوصاً اوائل طفلی میں“

مصنفہ برٹرنڈرسل ۔ مترجم پطرس

* * *