Bhai Bhai ( بھائی بھائی)

بھائی بھائی

(سید ذوالفقار علی بخاری)

سید ذوالفقار علی بخاری اپنے برادر محترم سید احمد شاہ بخاری پطرس مرحوم کی موت کے بعد ان تمام یادوں کو جو اُن سے وابستہ ہیں "بھائی بھائی" کے نام سے ایک کتابی صورت میں یکجا کر رہے ہیں اور اس طرح اپنے اس سراپا زندگی بھائی کو موت کے بےرحم ہاتھوں سے چھین کر اپنے ليے زندہ رکھنا چاہتے ہیں جن کی موت کا یقین کرلینے کے بعد زندگی کا اعتبار اور بھی اُٹھ جاتا ہے۔
    سید ذوالفقار علی بخاری کی اس کتاب کا ابھی بچپن ہے مگر اسی دور کے چند اقتباس میں نے اس ليے حاصل کرلیے ہیں کہ پڑھنے والے کو یہ اندازہ ہوسکے کہ سب کا پطرس خود اپنے بھائی کے ليے کیا تھا۔
    میں جناب علامہ عباس کا ممنون ہوں کہ ان کی وساطت سے مجھ کو یہ اقتباس نقوش کے ليے حاصل ہوسکے اور طفیل صاحب سے سرخروئی ہوئی۔

(شوکت تھانوی)

* * *

    بھائی جان اسکول میں پڑھتے تھے اور میں ابھی اسکول میں داخل بھی نہیں ہوا تھا۔ والد گھر آئے تو بہت خوش تھے۔ میری والدہ سے کہا مبارک ہو کل پیر احمد شاہ کو اسکول میں انعام ملے گا"۔
    بھائی گھر آئے تو میں نے کہا " لالہ اسکول میں مار پٹتی ہے یا انعام ملتا ہے"۔
پھر رات بھر ہم دنوں بھائی جاگتے رہے۔ وہ مجھے اسکول کے قصے سناتے رہے اور میں سنتا رہا۔ مجھ سے کہنے لگے "تم بڑے ہوتے تو میں تم کو کل ساتھ لے جاتا"۔
    میں رو پڑا۔ انہوں نے مجھے اُٹھ کر پیار کیا اور کہا۔ "اچھا دیکھو کل میں تمہاری شلوار پہن کر انعام لینے جاؤں گا"۔
    میں یہ سن کر بہت خوش ہوا اور ہنسی خوشی سو گیا۔ اگلے دن وہ میری شلوار پہن کر انعام لینے کے ليے گئے۔ ان کو کچھ کتابیں انعام میں ملی تھیں۔ جن پر سرخ رنگ کا دفتری فلیتہ بندھا ہوا تھا۔ کئی دن تک وہ فلیتہ میرے پاس رہا اور میں محلے کے لڑکوں کو دکھاتا رہا۔
    میں اسکول میں داخل ہوگیا۔ بھائی جان کے ساتھ اسکول جانے لگا۔ میرے ہاتھ پاؤں کچھ ڈھیلے ڈھیلے تھے۔ کبھی بغل میں سے بستہ سرک جائے کبھی تختی پھسل جائے۔ کبھی میں گر پڑوں۔ چنانچہ بھائی میرا بستہ خود اٹھا لیتے اور انگلی پکڑ کر مجھے ساتھ چلاتے۔
    جب میں نے سڑک پر جم کر پاؤں رکھنا سیکھ لیا تو بھائی جان نے اپنا بوجھ مجھ پر لادنا شروع کردیا۔ اب ان کا بستہ میں اٹھا کر لے جاتا تھا۔ کبھی ان کو اسکول جاتے ہوئے کچھ اور لڑکے مل جاتے تو یہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے مجھے پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جاتے۔ میں رو پڑتا اور روتے روتے اسکول پہنچتا۔
    اسکول میں سالانہ جلسہ ہوا۔ اس وقت ہمارے صوبہ کے چیف کمشنر سرجارج روس کیپل تھے اور وہی جلسے کے صدر تھے۔ شہر کے تمام رؤسا اور حکام جلسے میں شریک تھے۔ ہمارے والد بھی تشریف رکھتے تھے۔ اسکول کے کئی لڑکوں نے نظمیں پڑھیں۔ بھائی جان نے بھی انگریزی میں ایک نظم پڑھی ان کی خواندگی کی بہت داد دی گئی۔ سرجارج روس کیپل بھی بہت خوش ہوئے۔
    جلسہ ختم ہوگیا اور لوگ ٹولیوں میں کھڑے ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے یا ایک دوسرے کو الوداع کہہ رہے تھے۔ بھائی جان اور میں والد کے پاس کھڑے تھے۔ لوگ والد کو مبارکباد دے رہے تھے اور بھائی جان کو پیار کررہے تھے کہ اتنے میں بھائی جان کے ليے ڈھنڈیا پڑی۔ ہمارے ایک ماسٹر صاحب بھاگتے ہوئے آئے
اور کہا "چلو پیراحمد لاٹ صاحب بلا رہے ہیں"۔
    میں بھائی جان کو لیئے ہوئے جلدی جلدی وہیں جمگھٹے میں پہنچا جس کے بیچ میں سرجارج روس کیپل کھڑے تھے۔ والد آہستہ آہستہ پیچھے پیچھے آنے لگے۔ جب سرجارج روس کیپل نے بھائی جان کو دیکھا تو آگے بڑھے اور بھائی جان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انگریزی میں کہا۔ "تم نے نظم بہت اچھی طرح پڑھی۔ تمہارا لہجہ بھی اچھا ہے اور تلفظ بھی۔ شاباش"۔
    اتنے میں والد بھی مجمع میں پہنچ گئے۔ سرجارج روس کیپل نے میرے والد سے مصافہ کیا اور بھائی جان کے متعلق تعریفی جملے پشتو میں کہے۔ والد نے کہا"صاحب جو لفظ کہہ رہے ہو یہیں لکھ دو تاکہ یہ لڑکا تمام عمر تمہارے کہے کی لاج رکھے"
    سرجارج نے بھائی کی بغل سے انعام کی کتابوں کے بنڈل میں سے ایک کتاب کی جلد کے اندر کی طرف پنسل سے یہ الفاظ لکھے "اےکاش میں پشتو اتنی اچھی طرح بولنے لگوں جتنی اچھی طرح چھوٹا پیر۔ پیر احمد شاہ انگریزی بولتا ہے"۔
یہ سند بہت مدت تک والد نے سنبھال کر رکھی تھی۔ اگلے دن صوبہ سرحد کے واحد اخبار 'افغان' میں اس سند کی کہانی شائع ہوئی۔ عنوان تھا:

"چھوٹا پیر ۔۔ پیراحمد شاہ"

بھائی بڑے ہوتے گئے اور ہر سال اسکول میں انعام پاتے رہے۔۔ میں بھی پانچویں سوار کی طرح ان کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ ہمارے ایک بڑے بھائی تھے۔ پیر محمد شاہ، الله انہیں غریق رحمت کرے، بہت تیز مزاج بزرگ تھے۔ ہم دونوں کو ان سے بہت ڈر لگتا تھا۔ لیکن کئی باتوں میں ہم ان کی پیروی بھی کرتے تھے۔ مثلاً ان کو انگریزی ڈھب کے کپڑے پہننے کا بہت شوق تھا۔ ہم کو بھی یہ شوق لاحق ہوا۔ وہ شعر کہتے تھے اس لئے والد کے منظور نظر تھے۔ ہم دونوں نے بھی شعر کی طرف توجہ کی۔ جب ہماری شعر گوئی کی خبر بڑے بھائی تک پہنچی تو وہ بہت ناراض ہوئے اور والد نے بھی اس بات کو نہ سراہا کہ ہم اسکول کا کام چھوڑ کر شعروشاعری میں پڑ جائیں۔ خود والد شعر کہتے تھے۔ لیکن بچوں میں سے کسی اور کا شعروشاعری کی طر ف متوجہ ہونا شروع شروع میں انہیں پسند نہ آتا تھا۔ بھائی شعر کہتے مگر انہیں فضول سمجھ کر پھاڑ دیتے۔ میں شعر کہتا اور فضول بھی کہتا تو لوگوں کو سناتا۔ میں نے بہت سے تخلص رکھے۔ اثر۔ ذوالفقار۔ واجدان، مگر ان میں سے کوئی نہ مجھے پسند آیا نہ میرے بھائی کو۔ ایک دن جب اس تخلص کا جھگڑا د ر پیش تھا تو کہنے لگے تخلص کیوں ضروری ہے۔ میں نے کہا مقطع کے ليے۔ پھر کہا مقطع کیوں ضروری ہے، میں نے کہا تاکہ معلوم ہو کہ غزل کسی کی ہے اور باقی شعر۔ میں چپ ہوگیا اور تخلص رکھنے کا خیال دل سے نکال دیا۔
    ایف اے پاس کرنے کے بعد بھائی جان گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوگئے اور ان کے خط آنے لگے۔ ایک خط میں بھائی نے مجھے لکھا کہ میں نے یہاں راجا غضنفر علی خان اور پنڈٹ اوتار لال بقایا کودوست بنایا ہے۔ راجہ غضنفر علی خان تو بہت بے سرے ہیں لیکن پنڈت اوتار لال بہت خود گاتے ہیں اور باجا بھی بجاتے ہیں۔ میں نے بانسری بجانی سیکھ لی ہے اور ان کے باجے کے ساتھ بانسری بجاتا ہوں۔ بھائی نے مجھے تاکید کی کہ اس بات کو صرف اپنے تک رکھوں۔


* * *