نیویارکر
ہم نے سُن گن پائی کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے پروفیسر احمد شاہ بخاری ہیں جو عام طور پر عرب ایشیائی بلاک کے قابل ترین ترجمان سمجھے جاتے ہیں اور وہ پاک وہند کے سرکردہ مزاح نویس بھی ہیں۔ مستقل نمائندوں اور مزاح نویسوں میں مجموعی طور پر یا الگ الگ دلچسپی رکھنے کے باعث ہم نے پروفیسر بخاری کی تصانیف حاصل کرنی چاہیں لیکن ہمیں معلوم ہوا کہ ان میں سے کسی کا ترجمہ انگریزی میں نہیں ہوا۔ ہم نے یہ ٹھان لی کہ ان کا پیچھا ضرور کریں گے خود پروفیسر صاحب کو ٹیلی فون کیا اور ہمیں اقوام متحدہ کی عمارت میں لنچ پر حاضر ہونے کی دعوت مل گئی۔
بہرکیف پروفیسر صاحب ان چند خوش دل، بامروت اور ذی علم مستقل نمائندوں یا مزاح نویسوں میں سے ایک ہیں جن سے ہم مدت کے بعد ملے ہیں۔ انہوں نے دریائے ایسٹ سے توجہ ہٹا کر کھانے کی طرف ہماری رہنمائی کی۔ بھنا ہوا گوشت اور ٹوماٹو منگوایا اور کہا کہ"پاکستان کی آزادی کے بعد ۱۹۴۸ء تک وہ ایک استاد، مترجم اور مصنف تھے، سیاسی سفیر نہ تھے۔ ۱۹۴۷ء سے وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے صدر (پرنسپل) تھے۔ تیس برس وہ اس کالج میں ادب کے پروفیسر رہے۔ انہوں نے اس درس گاہ کے تجرباتی تھیٹر کے ليے دوسری چیزوں کے علاوہ شیکسپئیر اوربرنارڈ شا کے بہت سے ڈرامے اردو میں ترجمہ کرکے دیئے جن میں امبن کا ڈرامہ "گڑیاگھر" اور اطررائس کا ڈرامہ"جمع کرنے والی مشین"بھی ہیں"۔ پروفیسر نے ہمیں بتایاکہ" ہارون الرشید کے زریں دور کے بعد گذشتہ چالیس سال کا زمانہ اسلامی دنیا میں تراجم کے ليے بڑا سازگار رہا ہے۔ پہلے زمانے میں مسلمان ہر اس چیز کا ترجمہ کرلیتے تھے جو فلسفہ اور سائنس میں ان کے ہاتھ لگتی تھی۔ اب ادب کے تراجم پر زور صرف ہورہا ہے۔ تمہیں شیکسپئیر کو اردو میں سننا چاہیئے۔ لاہور کی مقامی بولی میں "پیندا" نہایت ظریفانہ لفظ ہے شیکسپئیر کی حیرت انگیز خوبی یہ ہے کہ ترجمہ خواہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو ڈرامے سے کچھ نہ کچھ لطف حاصل ہو ہی جاتا ہے۔
تیز نیلی آنکھوں والے پروفیسر بخاری نے جو ٹویڈ کا سوٹ پہنے اور نیلے رنگ کی ٹائی لگائے ہوئے تھے برطانیہ اور امریکہ کی غیر افسانوی کتابوں کے ترجمے بھی کئے ہیں۔ اردو کا ایک مزاحیہ رسالہ بھی مرتب کرتے رہے ہیں انہوں نے انگریزی اور اردو میں ادبی تنقیدیں بھی لکھی ہیں۔ مزاح نگار کی حیثیت سے ان کی شہرت تین یا چار سو مختصر افسانوں پر پھیلی ہوئی ہے جو انہوں نے پطرس کے قلمی نام سے لکھے تھے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ"ان افسانوں کی مقبولیت کی بعض وجوہ یہ ہیں کہ وہ غلط ہیں نقادوں نے ان کے بارے میں کہا کہ یہ افسانے اگرچہ مزاحیہ ہیں لیکن انہیں بےدھڑک گھروں میں لے جایاجا سکتا ہے۔"
پطرس کو پاکستان میں شگفتہ ترین شخص مانا جاتا ہے۔ ان کے چند افسانوں کا ترجمہ انگریزی میں ہوچکا ہے۔ جنہوں نے اہل برطانیہ کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ برطانیہ والے کہتے ہیں کہ انہیں یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ ایک مشرقی مزاحیہ نگار ایسا بھی ہے جو "غزالی" آنکھوں اور ناموافق حالات کو اپنی تحریروں کا مرکز نہیں بناتا۔ ہم نے پوچھا "آخر پطرس اپنی توجہ کا مرکز کس چیز کو بناتا ہے؟" پروفیسر بخاری نے جواب دیا "میری کہانیوں کا مثالی کردار ہمیشہ ایک معمولی آدمی ہوتا ہے جس میں بہت سی کمزوریاں اور کوتاہیاں ہوں۔ حادثات اسے ایسے ناموافق ماحول میں پھینک دیں جسے وہ پسند نہ کرتا ہو۔ وہ ہمیشہ بڑا سیاستدان اورعظیم ادیب بننے کے خواب دیکھتا ہو۔ ایک کہانی میں وہ خطرناک سرغنہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور بالآخر ناکام رہنے کے نتیجے میں بہتر آدمی بن جاتا ہے اس نے اپنی تحریروں میں واحد متکلم اور جمع متکلم کا صیغہ استعمال کیا ہے تاکہ طنز کا نشانہ خود بیان کرنے والا بنے۔ پاکستانی اس بات کو بہت پسند کرتے ہیں۔ میرا اصول یہ ہے کہ:
"بھلے مانس بنو"
پروفیسر بخاری ۱۸۹۸ء میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ اس صدی کے انتہائی بیس اور تیس برسوں کے درمیان چھ سال انہوں نے کیمبرج میں تعلیم پائی، دوسری عالمی جنگ کے وقت وہ آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ ان کی سفارتی زندگی کا آغاز ۱۹۴۰ء میں اس وقت ہوا جب وہ بین الاقوامی "ہائی فری کوئنسی براڈ کاسٹنگ کانفرنس" منعقدہ میکسیکو میں پاکستانی وفد کے رئیس کی حیثیت میں شریک ہوئے۔ ۱۹۵۰ء سے وہ اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے ریئس چلے آرہے ہیں۔ وہ لسانیات کے بہت بڑے ماہر ہیں۔ ایک دفعہ انہوں نے کوکنی (Cockney) کے اختلافی لب ولہجہ میں مہارت حاصل کرنے کے ليے چھ مہینے صرف کئے تھے۔ انہوں نے بڑی گرم جوشی سے ہمیں بتایا "آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ کوکنی زبان اپنی گرامر اور حروف علت کا مخصوص نظام رکھتی ہے"۔ ہم امیدوار بن کر انتظار کرنے لگے۔ لیکن انہوں نے نے کہا۔ "اب میں کوکنی لب و لہجہ کی نقل اتارنے کی جراٴت نہیں کروں گا۔ میرا خیال ہے کہ میں پھر شاہی انگریزی کی طرف لوٹ آیا ہوں اور بونوں کی جون سے نکل چکا ہوں۔"
ہم نے دریافت کیا کہ آپ سفارتی فرائض اور مزاح نویسی کو کس طرح یکجا کرتے ہیں؟ پروفیسر نے جواب دیا کہ۔ "مزاحیہ نویسی میں میری پیداوار بہت کم ہوگئی ہے ایک مشکل یہ ہے کہ وقت نہیں ملتا۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ سفارتی کاروبار میں آپ بعض چیزوں پر ہنس تو سکتے ہیں لیکن مضحکہ اڑانے کی مقدار روایات نے مقرر کردی ہے۔"
"مجھے نیویارک سے پیار ہے۔ میں بڑے شہر کا باشندہ ہوں تاہم ابھی مجھے ملامت کی جاتی ہے کہ میں چلنے میں بہت سست ہوں۔ دواؤں کے ذخیرے مجھے بہت دلچسپ نظر آتے ہیں۔ جب میں پہلے پہل یہاں آیا تو میں نے ایک سینڈوچ (سموسے) کی فرمائش کی۔ اسٹال والے نے پوچھا۔ "سفید یارئی (یو گندمی)؟"اس کی بات سمجھنے میں مجھے کچھ وقت لگا۔ وہ یہ ہے کہ تمہاری زبان میں چک کا مطلب ہے بل۔ باقی کیا رہا؟ میں اپنے شاگردوں کو لاہور میں امریکہ کے متعلق طویل خط لکھا کرتا تھا تاکہ وہ مجمعوں کے سامنے پڑھ کر سنائے جائیں۔ ایک خط میں، میں نے لکھا کہ یہاں کے کونے کونے پر ایک ڈرگ اسٹور موجود ہے۔ انہوں نے جواب میں خطرے اور تعجب کا اظہار کیا۔ پھر اگلے خط میں اس کی تشریح کرنی پڑنی کہ یہ ڈرگ اسٹور زہریلی اور نشہ آور چیزیں نہیں بیچتے۔ جب معلومات اور واقفیت بڑھ جائے گی تو ممکن ہے کہ پطرس امریکہ کے بارے میں کچھ لکھے"۔
۱۰ ستمبر ۱۹۵۴ء
(ترجمہ)
* * *