از لاہور
اے میرے کراچی کے دوست!
چند دن ہوئے میں نے اخبار میں یہ خبر پڑھی کہ کراچی میں فنون لطیفہ کی ایک انجمن قائم ہوئی ہے جو وقتاً فوقتاً تصویروں کی نمائشوں کا اہتمام کرے گی۔ واضح طور پر معلوم نہ ہوسکا کہ اس کے کرتا دھرتا کون اہل جنون ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ آپ کو ایسی باتوں کا بےانتہا شوق ہے اور مدت سے ہے اور آپ ادب اور آرٹ کا ذوق صحیح رکھتے ہیں اس لئے مجھے یقین ہے کہ آپ اس میں ضرور شریک ہوں گے۔ بلکہ عجب نہیں کہ یہ انجمن آپ ہی کی مساعی کا نتیجہ ہو اور آپ ہی نے اپنی جاذبیت سے ایسے خوش مذاق لوگوں کو ایک نقطے پر جمع کرلیا ہو جنہیں شوق تو ہے لیکن آپ کا ساشغف نہیں۔ یہ سوچ کر بہت اطمینان ہوا کیونکہ اپنے ہم خیالوں کی ایک انجمن بنا کر آپ کو ضرور یک گونہ تقویت قلب نصیب ہوگی ورنہ تن تنہا کتابوں اور تصویروں سے راز ونیاز کی باتیں کرتے کرتے انسان تھک جاتا ہے۔ ذوقِ سلیم کی تازگی پر تنہائی کی وحشت اور تلخی غالب آنے لگتی ہے۔ انسان دیوانہ نہیں تو علیل دماغ ضرور ہوجاتا ہے اور غالب کا ایک مصرعہ قافیہ بدل کر پڑھنے کو جی چاہتا ہے کہ:
”مقدور ہو تو ساتھ رکھوں رازداں کو میں“
لیکن اے دوست! کیا اس کام میں کسی نے آپ کی مزاحمت نہیں کی؟ کیا کسی مقامی اخبار نے جل کر نہیں لکھا کہ پاکستان پر ابتلا کا زمانہ آیا ہوا ہے اور آپ جیسے خوش فکروں کو مصوری اور نقاشی کا شوق چرایا ہے؟ کسی نے جلتے ہوئے شہر روما اور نیرو کی سارنگی کا فقرہ نہیں کسا؟ کسی ”ستوں چشم بددور ہیں آپ دیں کے“ نے مسجد میں وعظ کرتے ہوئے آپ کے لہوولعب اور تفریح کو شی پر نفرین نہیں کہی؟ اور آپ پر کفر اور شرک اور الحاد کا فتویٰ لگا کر لوگوں کو آپ کے خلاف نہیں اکسایا؟ اور کچھ نہیں تو کیا کسی گھاگس مصلحت بین افسر نے ہمدردی اور تہذیب کے رکھ رکھاؤ کے ساتھ آپ کو یہ مشورہ نہیں دیا کہ برخوردار
ببانگ چنگ مخمورمے کہ مستحب تیز است؟
اور بالفرض ا ن باتوں سے بچ نکلے تو کیا ضیافت کے موقع پر کسی نیم تعلیم یافتہ ہمعصر نے جو تنخواہ میں آپ سے برتری کا دعوے دار ہے آپ کی آزاد منشی کا مضحکہ اُڑایا؟ اور جب آپ پٹے ہوئے نظر آئے تو آپ پر قہقہے بلند نہیں ہوئے؟
اگر آپ کو ایسی منزلیں پیش نہیں آئیں تو کراچی سب سے الگ تھلگ کوئی جگہ ہوگی یا پھر بیزاری اور بددلی پک رہی ہوگی اور آپ کو ابھی دکھائی یا سنائی نہ دی ہوگی ورنہ جس حسنِ مذاق پر آپ کو غرّہ ہے وہ تو آج کل ایک مہاجر یتیم کی طرف بھوکا اور ننگا کسی کھنڈر کے کونے میں سربز انو دبکا بیٹھا ہے اور باہر پڑا پڑ مینہ برس رہا ہے۔ اور آندھیاں چل رہی ہیں۔
پچھلے سال قائد اعظم یہاں تشریف لائے۔ اور وہ باغ جس کو لارنس گارڈن کہا کرتے تھے اس میں جو قطعہ ”روزگارڈن“ کہلاتا تھا وہاں ایک عظیم الشان پارٹی ہوئی۔ اس دن جو پاکستانی لاہور کا پہلا جشن کا دن تھا ”روزگارڈن“ کا نام ”گلستان فاطمہ“ رکھا گیا۔ اور یہ نام ایک بورڈ پر لکھ کر باغ میں جو چھوٹی سی سرخ اینٹوں کی خوب صورت محراب استادہ ہے اس کی پیشانی پر نصب کیا گیا لیکن اس کی کتابت ایسی کریہہ اورطفلانہ تھی کہ مدرسہ کے لڑکوں کو بھی کسی انسپکٹر کی تشریف آوری پر ایسا قطعہ لٹکاتے ہوئے شرم آتی۔ ”گلستان فاطمہ“ کی بےذوق ترکیب سے قطع نظر کیجئے اور اس کے مصنوعی پن کو جانے دیجئے جس کی بدولت نہ وہ غریب ہی اس نام سے مانوس ہوں گے جو دوپہر کے وقت درختوں کے سایے میں اپنا گرد آلود جوتا سر کے نیچے رکھ کر اس باغ میں سوجاتے ہیں۔ نہ وہ پتلون پوش ہی اس میں کوئی کشش پائیں گے جو شام کے وقت موٹروں میں سوار ہو کر یہاں ٹینس کھیلنے آتے ہیں۔ لیکن جب ان جلوے کی پیاسی گنہگار آنکھوں نے اسے یوں ایک نمایاں جگہ پر منقوش دیکھا تو نظر اور دل دونوں مجروح ہوئے، کیونکہ ایسے شان دار موقع کے لئے اس سے بدصورت کتابت کی نمائش ذہن میں نہ آسکتی تھی۔ مسلمان کی قوم، وہ قوم جو کئی پشتوں سے فن خوشنویسی کی علمبردار ہے جس نے قرآن پاک کے ہزاروں نسخے صناعی اور ہنرمندی سے لکھے کہ کاتب قدرت نے بھی ان کو آفرین کہا ہوگا۔ پنجاب کا خطہ، وہ خطہ جسے نستعلیق کی ایک جدید اور جمیل طرز کے موجو ہونے کا فخر حاصل ہے۔ لاہور کا شہر وہ شہر جہاں ہر گلی میں ایک خوش نویس رہتا ہے اور جہاں حکیم فقیر محمد مرحوم جیسے استاد فن پیدا ہوئے جن کے سامنے ہندوستان بھر کے جادو رقم زانوئے قلمذتہہ کرتے تھے اور اس پر یہ حال کہ اس تقریب سعید پر اس شہر میں، مسلم قوم کی طرف سے عقیدت اور محبت کے صرف دو لفظ لکھنے پڑیں اور ان کے بھی دائرے غلط ہوں اور نشست بےڈھنگی ہو۔ آپ دیکھتے تو یقیناً آپ کو اس کی تہہ میں بد مذاقی کا عروج نظر آتا۔ اور آپ پژمردہ ہوجاتے اور ڈھونڈتے پھرتے کہ کس کے پاس جا کر شکایت کروں۔ اور لوگ آپ کو دیوانہ سمجھتے اور بعض ایسے بھی ہوتے کہ ایسی خردہ گیری پر آپ کو بدتمیز کہتے یا آپ سے توقع رکھتے کہ آپ ہر قباحت کو حسن سمجھیں یا حسن کہیں۔ ورنہ آپ پر پاکستان میں کیڑے ڈالنے کا الزام لگتا اور آپ کی وفا شعاری پر حرف آتا۔
اب آپ اس انجمن کے چکر میں اپنے آپ کو کسی منبر پر پائیں اور آپ کے سامنے آپ کے ہم قوم جمع ہوں اور وہ آپ کو زبان کھولنے کی اجازت دیں تو آپ جو سینے میں دردمند دل رکھتے ہیں یہ کہنے سے کیوں کر باز آئیں گے کہ اے مسلمانو! تمہارے آباو اجداد خط اور دائرے اور خم اور زاویے کا وہ ذوق رکھتے تھے کہ دنیا میں اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ کوئی اور طغرےٰ، نستعلیق اور نسخ، کس کس نہج سے انہوں نے ابجد سے عشق کیا ہے۔ ان کے ایوانوں میں آویزاں وصلیوں کو دیکھو، ان کے مطلّا اور مذہب نسخوں کو دیکھو ، ان کے روضوں اور محلوں، ان کی مسجدوں اور خانقاہوں، ان کے فرامین اور سکوں اور مہروں، ان کی قبروں اور ان کے کتبوں کو دیکھو۔ مرگ یا زیست کا کوئی مقام، سطوت یا افلاس، مسرت یا ماتم، جشن یا یکسوئی، خلوت یا جلوت کا کوئی مقام ایسا ہے جہاں انہوں نے قلم اٹھایا ہو اور ان کے قلم نے حسین وجمیل حروف کے لافانی نقوش چوب وقرطاس وسنگ پر ثبت نہ کر دیئے ہوں۔ اب جب کہ خدا نے تمہیں اپنے کلچر کے احیا اور تحفظ کے لئے سب قوتیں تمہارے ہاتھ دے دی ہیں قسمیں کھا لو کہ اس ورثہ کو ہاتھ سے جانے نہ دو گے اور عہد کرلو کہ آج سے تمہاری دکانوں، تمہارے مکانوں، تمہارے دفتروں، تمہاری کتابوں اور اخباروں اور رسالوں، تمہاری مسجدوں اور تمہارے مزاروں، تمہارے سرناموں اور تمہارے نوٹس بورڈوں پر جہاں جہاں تمہارے ہاتھ ابجد کے خط کھینچیں گے، اسلاف کا نام روشن کریں گے۔ اور جو نزاکتیں اور لطافتیں اور رعنائیاں انہوں نے صدیوں میں پیدا کی ہیں انہیں مسخ نہ ہونے دیں گے تاکہ جہاں کسی کو تمہاری تحریر نظر آئے وہ جان لے کہ یہ مسلمان کا لکھا ہوا ہے، اس قوم کا لکھا ہوا ہے جس نے دنیا میں خوش خطی کا مرتبہ بلند کیا اور جو اب بھی اپنی حسن آفرینی پر ناز کرتی ہے۔ یہ کہنے سے آپ کیونکر باز آئیں گے؟ لیکن کیا آپ کی بات کوئی سنے گا؟ کیا کراچی میں ہیں ایسے لوگ؟ فنون لطیفہ کی انجمن تو آپ نے بنا لی ہے۔اور پھر خوش نویسی تک تو عافیت رہے گی لیکن کیا آگے بھی بڑھئے گا؟ تصویروں کا ذکر بھی کیجئے گا؟ اخبار میں لکھا تھا کہ آپ تصویروں کی نمائش کا اہتمام کررہے ہیں۔ یہ سچ ہے تو اے دوست وقتاً فوقتاً مجھے اپنی خیریت سے مطلع کرتے رہئے گا۔ کیونکہ اگر کراچی سب سے الگ تھلگ کوئی جگہ نہیں تو آپ کو بےانتہا جسارت سے کام لینا پڑے گا اور عجب نہیں کہ لوگ آپ کا حال دیکھ کر عبرت پکڑا کریں۔
ہمارے ملک میں اس وقت کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں جسے صحیح معنوں میں آرٹ اسکول کہہ سکیں۔ لاہور یونیورسٹی کے نصاب میں آرٹ بحیثیت ایک مضمون کے شامل تھا لیکن یہ ایک مخلوط سا شغل تھا جس میں تھوڑی سی موسیقی، تھوڑی سی مصوری اور کچھ صنعت اور دستکاری سب چٹکی چٹکی بھر پھینک دی گئی تھیں اور اس معجون کو ایک زنانہ مشغلہ سمجھ کر صرف لڑکیوں کے لئے مخصوص کردیا گیا۔ یہ مضمون اب بھی نصاب میں موجود ہے۔ لیکن کب تک؟ فی الحال تو ایک یورپین خاتون میسر ہیں جو یہ مضمون پڑھاتی ہیں وہ کہیں ادھر اُدھر ہوگئیں اور کوئی عورت ان کی جگہ دستیاب نہ ہوئی تو یہ قصہ بھی پاک ہوجائے گا کیونکہ لڑکیوں کو پڑھانے کا کام خدانخواستہ کسی مرد کے سپرد ہوا تو زلزلے نہ آجائیں گے؟ اور پھر اس مضمون کا حلیہ بھی سرعت کے ساتھ بدل رہا ہے۔ موسیقی توتہہ کرکے رکھ دی گئی ہے کیونکہ ہو تو بھلا کسی کی مجال کہ اس کی بیٹی اس کے دستخط سے یہ لکھوا بھیجے کہ ہمیں گانے کا شوق ہے؟ باقی رہی تصویرکشی تو ایک ملنے والے اگلے دن سنا گئے کہ ایک کالج نے کہلوا بھیجا ہے کہ ہماری لڑکیاں جان داروں کی شکلیں نہ بنائیں گی۔ چنانچہ تجویز ہو رہی ہے کہ تصویر کشی کی مشق صرف سیب، ناشپاتی، مرتبان یا پہاڑوں، دریاؤں، جنگل پر کی جائے۔ اس پر ایک آدھ جگہ بحث ہوئی۔ شریعت کا قدم درمیان میں آیا۔ ایک روشن خیال مولوی صاحب نے صرف اتنی ڈھیل دی کہ ہاتھ کی بنی ہوئی تصویریں تو ہرگز جائز نہیں، فوٹو البتہ جائز ہے۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ فوٹو میں انسان کی شبیہ ہو بہو ویسی ہی ہوتی ہے۔ ہاتھ سے تصویر بنائی جائے تو اس میں جھوٹ ضرور سرایت کرجاتا ہے کسی نے کہا فوٹو بھی تو کئی حرفتوں سے لی جاتی ہے اور بعض فوٹو گرافر بھی تو بڑے فن کار ہوتے ہیں جواب ملا کہ چابکدستی اور تکلف سے کام لیا جائے تو فوٹو بھی جائز نہیں رہتا۔ غرض یہ کہ ان کے نزدیک اسی ایک فوٹوگرافر کا کام حق وراستی کا آئینہ دار ہے جو لاہور کے چڑیا گھر کے باہر چار آنے میں تصویر کھینچتا ہے۔ یہ حال تو جان دار اشیاء کا ہے باقی رہے جنگل، پہاڑ، دریا تو وہاں بھی ایک نہ ایک دن کوئی کوتوال حق بین مصوروں کے ”جھوٹ“ کو گردن سے جا دبوچے گا۔ اور آپ چیختے اور سسکتے رہ جائیں گے کہ یہ وین گوگ ہے! یہ تو بہت بڑا آرٹسٹ ہے! اور آپ کے ہاتھوں سے تصویر نوچ کر پھاڑ دی جائے گی۔
ان حالات میں چغتائی کے جینے کا امکان بہت کم ہے۔ کوئی بات ”سچ“ بھی ہوتی ہے اس کی تصویروں میں؟ درخت تک تو مجنوں کی انگلیاں معلوم ہوتے ہیں۔ اور پھر انسانوں کی تصویریں بنانے سے بھی تو وہ نہیں چوکتا اور صرف مرد ہی نہیں بلکہ عورتیں بھی۔ غزال، چشم، سینہ چاک اور بعض اوقات محرم کے بند تک دکھائی دے جاتے ہیں۔ گو یقین سے کچھ کہنا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ چغتائی کی تصویروں میں تسمے، ڈوریاں، پھندنے بہت ہوتے ہیں، اور سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ تکمہ یا ڈوری لیلیٰ کے لباس کا حصہ ہے یا ناقہ کے سازوسامان کا۔ لیکن چغتائی کی وجہ سے ایک سہولت ضرور نظر آتی ہے وہ یہ کہ لے دے کر یہی ایک ہمارا مصور ہے اسے دفن کر دیا تو یہ وبا فوراً تھم جائے گی۔ اور ہماری مصوری ایک ہی ضرب سے ہمیشہ کے لئے پاک ہوجائے گی۔ باقی رہی مغلوں کی قدیم تصویریں یا ایرانی مصوروں کے قدیم نمونے جو چند لوگوں کے پاس بطور تبرک محفوظ ہیں یا جن کی انڈیا آفس کے عجائب خانے کی تقسیم کے بعد پاکستان کو مل جانے کی امید ہے تو ان کو کسی اور ملک کے ہاتھ بیچ کر دام وصول کئے جا سکتے ہیں۔ کیا کراچی میں لوگوں کا یہ خیال نہیں؟ اگر نہیں تو کراچی سب سے الگ تھلگ کوئی جگہ ہوگی۔
لیکن یہ کیونکر ہوسکتا ہے؟ کراچی کون سا ایسا جزیرہ ہے او رکون سے گم شدہ براعظم میں واقع ہے کہ اردگرد کے سمندر کی کوئی لہر وہاں تک نہ پہنچ سکے گی؟ آپ کو تعمیر اور تخلیق کی سوجھ رہی ہے لیکن یہاں تو تخریب کا دور دورہ ہے۔ ہاتھوں سے لٹھ چھین کر اس کی جگہ قلم اور موقلم آپ کیونکر رکھ دیں گے؟ آپ کوئی سا ہیجان پیدا کیجئے۔ آپ کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ تخریب کی راہ اختیار کرلیتا ہے۔ لوگ جس چیز کا نعرہ لگا کر اٹھتے ہیں سب سے پہلے اسی چیز کا خون کرلیتے ہیں۔ آپ کہئے کہ رمضان کا احترام واجب ہے تو لوگ ٹولیاں بنا بنا کر بازاروں میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ کس کا منہ کالا کریں۔ آپ اسلام کی دعوت دیجئے تو تلاشی شروع ہوجاتی ہے کہ کس کے درّے لگائیں؟ کسے سنگسار کریں؟ آپ حیا کی تلقین کیجئے تو لوگ سر بازار عورتوں کے منہ پر تھوکنے لگتے ہیں اور بچیوں پر اپنا بہیمانہ زور آزماتے ہیں:
مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی
اس دور کے ملّا ہیں کیوں ننگ مسلمانی؟
ایسے غیظ وغضب کی فضا میں بھی آج تک کہیں آرٹ پنپا ہے؟ آرٹ کے لئے تو ضبط اور نسق اور استحکام اور اخلاق اور فروغ لازم ہیں یا پھر کوئی ولولہ کوئی امنگ کوئی عشق جو دلوں کے دروازے کھول دے اور ان میں سے شعر وسخن، نغمہ ورنگ کے طوفان اچھل اچھل کر باہر نکل پڑیں۔ کیا کبھی آرٹ ایسے میں بھی پنپتا ہے؟ کہ ہر بڑے کو دولت اور اقتدار کی ہوس نے اندھا اور بہرہ کر رکھا ہے اور ہر چھوٹا اپنی بےبضاعتی کا بدلہ ہر ہمسائے اور راہگیر سے لینے پر تُلا ہو، نہ کوئی اقتصادی نظام ایسا ہو کہ ہر چیز کی پوری قیمت اور ہر قیمت کی پوری چیز نصیب ہو اور لوگ فاقے کے ڈر سے نجات پاکر قناعت کی گود میں ذرا آنکھ جھپک لیں نہ کوئی اخلاقی نظام ایسا ہو کہ لوگوں کو اس دنیا یا اس دنیا میں کہیں بھی جزا وسزا کی امید یا خوف ہو نہ مسرت کا کوئی ایسا جھونکا آئے کہ درختوں کی ٹہنیاں مست ہو کر جھومیں اور پتوں کی سرسراہٹ سے آپ ہی آپ نغمے پیدا ہوں۔ نہ عافیت کا کوئی گوشہ ایسا ہو جہاں آپ کا شکار معتکف ہو کر بیٹھ جائے اور آپ کے لئے تصویریں بناتا رہے۔ نہ آس پاس کوئی ایسی نرالی بستی ہو جہاں شاعر غریب شہر بن کر گھومتا پھرے اور لوگ اسے دیوانہ اجنبی سمجھ کر اسے بک لینے دیں۔ فنون لطیفہ کی انجمن تو آپ نے بنا لی ہے لیکن ڈرتا ہوں کہ کہیں پہلا کام اس انجمن کا یہ نہ ہو کہ چند تصویروں کو مخرب اخلاق اور عریاں کہہ کر جلا دیا جائے۔ چند مصوروں پر اوباشی اور بےدینی کی تہمت لگا کر انہیں ذلیل کیا جائے۔ یا پھر ان پر ایسے لوگ مسلط کر دیئے جائیں جو ان کے ہنر کو کھردری سے کھردری کسوٹیوں پر پرکھیں اور ان پر واضح کر دیں کہ جس برتری کا انہیں دعویٰ تھا اس کا دور اب گزر گیا:
ہیں اہل خرد کس روشِ خاص پہ نازاں
پابستگیٴ رسم ورہِ عام بہت ہے
میں جانتا ہوں کہ آپ آرٹ کو عشرت نہیں سمجھتے، اسے محض امارت کا دل بہلاوا نہیں سمجھتے۔ آپ ایسے نہیں کہ آپ کو جاندار ہی کی تصویر پر اصرار ہو یا محض تصویر ہی پر اصرار ہو۔ حسن کو اختیار ہے جہاں چاہے رہے جو شکل چاہے اختیار کرے صرف یہ ہے کہ زندہ رہے اور امیرغریب، چھوٹے، بڑے، ادنیٰ، اعلیٰ سب پر اپنی بخششیں ارزانی فرمائے۔ ایک زمانہ تھا کہ آرٹ اور صنعت وحرفت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ تھا۔ آپ تو اس عہدِ زریں کو واپس لانا چاہتے ہوں گے۔ تاکہ آرٹ کا جلوہ بچوں کے کھلونوں میں، کسانوں کے تہمد میں، سیلانی کے ہاتھ کی چھڑی میں، پنہاری کے مٹی کے گھڑوں میں، غرض زندگی کے ہر گوشے میں نورپاش ہو لیکن جو ننھی ننھی شمعیں یہاں وہاں ٹمٹما رہی ہیں انہیں ہی بجھا دیا گیا تو لاکھوں انسانوں کی زندگیاں جو ابھی تک تاریک پڑی ہیں وہ کیسے جگمگائیں گی؟ کیا کراچی میں جو آپ کے ہم جلیس ہیں انہیں اس بات کا احساس ہے؟ اگر ہے تو انہیں بتا دیجئے کہ آرٹ کی ایک مسکراہٹ کے لئے انہیں سب یگانہٴ تبسم ماحول میں کئی صحرا چھاننے پڑیں گے۔
فرحتے نیت کہ در پہلوئے آں صد غم نیست
روز مولود جہاں کم زشب ماتم نیست
اگر یہ محض میرا وہم ہے تو اے میرے دوست پھر کراچی سب سے الگ تھلگ کوئی جگہ ہوگی تو پھر اے دوست ہم سب کو وہاں بلا لیجئے یا کراچی کو اتنا وسیع کیجئے کہ ہم سب اس میں سما جائیں۔ کراچی میں آپ نے بہت کچھ رسوخ پیدا کر لیا ہوگا۔ آپ کے اخلاص اور اصابت رائے کے سب لوگ قائل ہوں گے۔ بڑے بڑے افسروں سے آپ کی ملاقات ہوگی، بڑے بڑے ارباب حل وعقد کا قرب نصیب ہوگا۔ ان سے کہئے کہ:
منزل راہرواں دور بھی دشوار بھی ہے
کوئی اس قافلہ میں قافلہ سالار بھی ہے؟
(نقوش جشنِ آزادی نمبر ۱۹۴۸ء)
* * *