تحریر: مظفر علی سید
پطرس مرحوم نے یہ مقالہ ۱۹۴۵ء میں پی ای این کے سالانہ اجلاس منعقدہ جے پور میں پڑھا تھا۔ اس میں انہوں نے اردو ادب کے جدید دور یعنی اقبال کے فوراً بعد کے زمانے کو موضوع بنایا تھا۔ اور اپنے مخصوص چبھتے ہوئے انداز میں اس پر رائے زنی کی تھی۔ اس مضمون کی اصل خوبی تو ان کی انگریزی انشاء پردازی ہے جس کا اردو ترجمہ وہ خود ہی کرتے تو کرتے۔ زیر نظر ترجمہ محض اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ لوگ بھی جو انگریزی سے زیادہ واقف نہیں، ان کے اندازِ نظر اور جدید اردو ادب کے بارے میں ان کے نقطہٴ خیال سے واقف ہوجائیں۔
چونکہ پطرس مرحوم کا اپنا تعلق اس دور کے ادب سے دو گونہ تھا۔ نئے ادیب کی حیثیت سے اور اس سے بھی زیادہ نئے ادیبوں کے استاد کی حیثیت سے، اس لئے اس مقالے کی ”معروضیت“ اور ”بےلاگ مطالعہ“شاید عجیب معلوم ہو۔ پطرس نے اپنے نوجوان ساتھیوں کو ایک پہاڑی پہ چڑھ کے دیکھنے کی کوشش کی ہے (یہ الگ بات کہ دو ایک عزیزوں کو بھی اپنے ساتھ لے گئے ہیں) اور اُن پر ہلکی ہلکی کنکریاں بھی پھینکی ہیں۔ ممکن ہے آپ اس مضمون کو محض تبرک سمجھیں مگر واقعہ یہ ہے کہ چند ایک ٹکڑے اس میں ہرلحاظ سے اچھے ہیں۔ گیارہ سال پہلے، جب اقبال اپنے اسلاف سے عالم بالا میں جا کر ملے تو دور ونزدیک کے زمانوں سے کئی ایک دوست ان کے گرد اکھٹے ہوئے۔ غالب اور میر، حالی،شبلی اور گرامی، حتیٰ کہ نظیری، رومی اور حافظ بھی۔ چنانچہ گفتگو روانی سے ہونے لگی۔ کچھ لمحے گومگو کی حالت میں بھی گزرے۔ مثلاً جب خودی کے مسئلے پر ایک عالمانہ بحث رومی اور اقبال کے درمیان شروع ہوئی تو باقی لوگ اونگھنے لگے اور ”تقدیر اُمم“ پر اقبال کی تنہا کلامی کے دوران میں تو غالب کے خراٹے بھی سنائی دیئے۔ مگر مجموعی طور پر یہ صحبت بےحد ساز گار رہی۔ جانے پہچانے اقتباسات، کتابوں سے یا حافظے سے بآواز بلند پڑھے گئے اور شب وروز کی بےزماں لہروں پر حکمت اور ظرافت کا ملاپ ہوتا رہا۔ بہت سے قضیے سامنے آئے اور ان میں سے کئی ایک حل نہ ہوسکے اس کے باوجود فہم وبصیرت کے تازہ اور فرح بخش نقش ونگار دریافت ہوئے۔ اقبال قدماء میں سے نہ تھے پھر بھی قدماء کے لئے اجنبی نہ تھے بس ذرا نئے نئے اور بھرپور سے لگتے تھے۔
آج کا نوجوان اُردو ادیب، اگر اس کو اس سفر پہ وقت سے پہلے روانہ ہونا پڑے، اس محفل میں کیسا لگے گا؟ مجھے یقین ہے کہ اس کا استقبال مروت اور شفقت سے کیا جائے گا مگر یہ خوف بھی ہے کہ وہ ذرا کھویا کھویا سا لگے گا۔ قدماء سے اظہار خیال اس کے لئے آسان نہیں ہوگا۔ نیا مسافر، اپنے اور اپنے پیشرؤں کے درمیان ایک بہت بڑی خلیج حائل پائے گا جسے پاٹنے کے لئے اس کو کتب خانہ فردوس میں طویل نشستوں کا پروگرام بنانا پڑے گا۔ وہ حالات کی مجبوری سے اپنے اجداد کا جائز ورثہ وصول نہ کرسکا۔ الا ماشاء الله۔ راشد اور فیض، فراق اور فرحت الله بیگ، جوش اور حفیظ، ماضی کے ساتھ ان سب کے مراسم اچھے ہیں اگرچہ انہوں نے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ، اپنے آپ کو حال یا مستقبل کے ساتھ وابستہ کررکھا ہے۔ مگر وہ پیہم کمہوتی ہوئی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں اور سلف کی ایسی یادگار ہیں جو نجانے پھر کب پیدا ہو۔ ہمارے لکھنے والوں کی اکثریت اپنے آپ روایت سے دور ہوتی جارہی ہے۔ مولوی نذیر احمد جو آج سے پچاس برس پہلے کے ناول نگار تھے، انبیاء کے اقوال کو احترام کے ساتھ اور شعراء کے اقوال کو کراہت کے ساتھ نقل کرتے تھے۔ ان کا ویلن انبیاء کو کراہت اور شعراء کو لذت کے ساتھ نقل کرتا تھا۔ مگر بات یہ ہے کہ مصنف اور اس کے کردار دونوں میں حوالہ دینے کی اہلیت تھی۔ دونوں نے ادب کی ایک مشترک دولت ورثے میں پائی تھی جو اس دور کے ذہنوں میں صاف ترتیب کے ساتھ موجود تھی۔ آج کے اردو ناول نگار میں اور اس کے ہیرو میں کوئی بات مشترک ہے تو یہ ہے کہ دونوں کوئی قول نقل نہیں کرسکتے۔ یہ نہیں کہ وہ پڑھتا نہیں۔ وہ بلا نوش قسم کا قاری ہے مگر ولایتی ناشروں کی چھاپی ہوئی ”بہار کی فہرستیں، خزاں کی فہرستیں“ اور ”سمندر پار کے ایڈیشن“ کچھ ایسے تسلسل کے ساتھ چلے آتے ہیں کہ نہ چننے اور چھاپنے کی فرصت رہ جاتی ہے، نہ کسی چیز کو دوبارہ پڑھنے کی۔ ہمارے دور کا نصاب بھی الجھا ہوا ہے اور پیچھے مڑ کر دیکھنے کی تو تحریک ہی پیدا نہیں ہوتی۔ ہمارے زمانے کے اردو ادیب کا مستقبل ہو تو ہو، ماضی کوئی نہیں۔
اس قطع تعلق کی وجوہات گوناگوں اور پیچیدہ ہیں۔ اوپری نظر سے دیکھیں تو یہ خیال ہوتا ہے کہ ہمارے ادیب نے جس نظام تعلیم کے تحت نشوونما پائی ہے۔ یہ سب اسی کا قصور ہے۔ رسمی تعلیم پچھلے پچاس ایک سال میں، شرافت اور (یا تقدس کے اس قدیم تصور سے دور ہٹ گئی ہے جو طالب علم کو اس دنیا اور) یا اس دنیا کے لئے انبیاء وشعراء کی مناسب مقدار کی مدد سے تیار کرتا تھا۔ پرانے مسلمات غائب ہوچکے ہیں اور اس کے ساتھ انبیاء وشعراء بھی۔ یہی ایک کارنامہ ہے جو ہمارے نظام تعلیم نے سرانجام دیا ہے۔ باقی اس عرصے میں، ہماری تعلیم ایک نئے تصور کی تلاش میں جو پرانے تصور کی جگہ لے سکے) تجربوں یا ٹامک ٹوئیوں کا ایک سلسلہ ہے اور یہ ٹامک ٹوئیاں اب بھی جاری ہیں۔
مگر یہ خیال پوری طرح صحیح نہیں۔ بنیادی وجوہ اس سے کہیں زیادہ گہری ہیں۔ دنیا بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے اور لکھنے والا بھی نئی نسل کی طرح اس بڑھتے ہوئے پھیلاؤ کو محسوس کرتا ہے۔ اس نصف صدی میں بہت سے بند اور پشتے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں۔ روایتی اقدار جو معاشرے کو بقا اور استحکام بخشتی تھیں، اسی وقت تک کار آمد تھیں جب تک معاشرے کا ناک نقشہ درست تھا۔ ناک نقشہ پھیل پھیل کر یوں متزلزل ہوگیا ہے جیسے پانی کی سطح پر تیل کے لہریے۔ قدیم معاشرے سے اس کا کوئی ربط نہیں کیونکہ قدیم معاشرہ باقی نہیں رہا۔ وہ اپنے آپ کو ایک نئے اور ہر لحظہ بدلتے ہوئے معاشرے میں گھرا ہوا دیکھتا ہے جس سے مربوط ہونا اس کے لئے لازم ہے۔ اگر وہ بالکل ہی کٹ کے رہ جانا نہیں چاہتا۔ وہ پوری طرح اس کا شعور نہیں رکھتا مگر یہ بات اس کو معلوم ہوچکی ہے کہ پچھلی نسل نے اس کو کچھ نہیں دیا۔ نئی دنیا میں کوئی مناسب مقام اس کو حاصل کرنا ہے۔ ماضی کی کئی چیزیں اس کو ایسا کرنے سے روکتی ہیں اور وہ ماضی مردہ باد کا نعرہ لگاتا ہے۔ اس لئے نئی پود کا سب سے بڑا تقاضا بغاوت ہے۔ رسم ورواج کے خلاف، قوت اور اختیار کے خلاف، والدین اور پولیس کے خلاف، وہ قدیم انبیاء اور شعراء دونوں سے دور بھاگتا ہے بلکہ ہر اس چیز سے جو اسے ماضی کی یاد دلائے۔ یہ جنگ کبھی کبھار دھندلی اور غیر واضح سی ہوجاتی ہے اور پرکار کے نقطے آپس میں گڈمڈ ہوجاتے ہیں مگر خیر ایسا تو ہر جنگ میں ہوتا ہے۔
اردو ادیب کو اپنے ماضی سے قطع تعلق کرکے کم سے کم ایک بڑی قربانی تو دینی پڑی ہے۔ وہ بیک جنبش قلم الفاظ وتلمیحات اور حکایات وعلائم کے ذخیرے سے، جو فن کار مصنف کو نازک اور کار آمد ترین آلات اظہار بخشتا ہے، محروم ہوگیا ہے۔ لفظ محض چند آوازوں او رلکیروں کا نام نہیں جو مٹ جانے کے بعدپھر پیدا کی جا سکیں۔ ان میں ہمارے پیشرؤں کی جذباتی وارداتیں اور نفسیاتی مشاہدات مضمر ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک انسانی تجربے کی طیف میں ایک خط کا حکم رکھتا ہے۔ اگر طیف کا ایک خط گم ہوجائے تو ہم اس کی جگہ دوسرا خط نہیں کھینچ سکتے۔ اُسی پہلے خط کو پھر سے دریافت کرنا پڑے گا۔ آج کے لکھنے والے کو اس وجہ سے نئی چیزوں کو نئے نام دینے ہیں۔ اسے ان چیزوں کو جو پہلے معلوم ومحسوس تھیں پھر سے جاننا اور پہچاننا ہے۔ ماضی سے دست بردار ہو کر اس نے اپنی تخلیقی شخصیت پہ ایک بوجھ ڈال دیا ہے جس سے اس کی فنی مشکلات دو چند ہوگئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس کو بیک وقت نازک اور اکھڑ، واضح اور دھندلا، گومگو میں گرفتار اور ہزاروں معنوں میں مضطرب دیکھتے ہیں۔ لفظ جن سے اس نے پہلو تہی برتی تھی۔ اب اس سے پہلو چراتے ہیں۔ (سر) ڈینی سن روس نے، جو اس بات سے واقف تھے کہ زندہ زبانوں میں تلمیحات اور حوالوں کا ایک ذخیرہ مخفی ہوتا ہے جسے تعلیم یافتہ افراد اپنا کر اپنی تحریر وتقدیر میں رنگ اور زور پیدا کرتے ہیں، چند سال پہلے ایک کتاب کی صورت میں انگریزی زبان کے پس منظر کا نقشہ کھینچا تھا۔ ادبی حوالوں کے زیرعنوان انہوں نے بائبل کے مستند ترجمے کا، شکسپیئر کا اور بچوں کے گیتوں کا تذکرہ کیا تھا اور ”انگریزی روایت“ کے تحت قومی تہوار معروف شخصیتوں کے القاب وخطابات اور مشہور اشتہارات گنائے تھے حتیٰ کہ ایک جُز ”گھسے پٹے جملوں“ پر بھی لکھاتھا۔ آج سے پچاس برس پہلے، اسی انداز سے، اردو کا ناک نقشہ کتنی آسانی سے بیان ہوسکتا تھا! اور آج یہ کام کتنا مشکل ہے!
اردو ادیب کو یہی ایک مشکل درپیش نہیں۔ وہ دو زبانیں پڑھتا اور بولتا ہے اور جب یہ دو زبانیں اردو اور انگریزی کا سا وسیع اختلاف رکھتی ہوں تو یہ خوبی کتنی بڑی خرابی بن جاتی ہے۔ علماء اور ماہرین تعلیم، تاریخ اور تجربے کی مدد سے کئی ایک ناقابل تردید دلائل پیش کرکے ارشادکریں گے کہ دو زبانوں کی مہارت بہت بڑی نعمت ہے۔ بین الاقوامیت کے قائل یہ کہیں گے کہ ہر بیرونی زبان دوگونہ رحمت ہے، اس ملک کے لئے جس کی وہ زبان ہے۔ اور اس کے لئے بھی جس نے اُسے اختیار کیا۔ان کا ارشاد بجا ہے کیونکہ ہر نئی زبان ذہن میں ایک نیا دریچہ کھول دیتی ہے اور کون ہے جو روشنی کو پسند نہیں کرتا۔ انسانوں کی اکثریت کے لئے اس کے اثرات خوشگوار ہوں گے مگر افسوس کہ لکھنے والے کو اپنا دماغ ہی روشن نہیں کرنا، کچھ کام بھی کرنا ہے۔ اظہار خیالاس کا فرض ہے اور اس پر طرہ یہ کہ ایک وقت میں ایک ہی زبان کے ذریعے۔ چاہے کتنی زبانوں سے اس نے ذہنی غذا حاصل کی ہو۔ ذہن تو اس کے پاس ایک ہی ہے۔ ایک دریچہ سبز ہے تو دوسرا سرخ مگر ذہن میں یہ دونوں رنگ آرام سے ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو اور ایک دوسرے سے جدا نہیں رہ سکتے۔ وہ آپس میں گھل مل کر ایک تیسرے رنگ کی شکل اختیار کرلیتے ہیں جو ایک دریچے کے پاس ذرا زیادہ سبز ہے اور دوسرے کے پاس ذرا زیادہ سرخ۔ مگر نہ تو کہیں پوری طرح سبز ہے اور نہ پوری طرح سرخ۔ یہ لطیف او رپراسرار روشنی اس کے لئے باعث نشاط بھی ہو سکتی ہے اور باعث فخر بھی۔ مگر اس ملی جلی روشنی کو سبز یا سرخ فلٹر میں سے اپنےاصلی رنگ میں گزارنا کتنا مشکل ہوگا۔ ایک لحاظ سے یہ کہنا درست ہے کہ دو زبانی ادیب اپنے دل کی بات آپ سے نہیں کہہ سکتا۔ جب تک کہ دونوں زبانیں استعمال نہ کرے۔ مگر اس صورت میں بھی ایک دقّت ہے۔ اس کا ذہن کسی واضح شکل میں ہمارے سامنے نہیں آتا بلکہ ذہن کی دو لہریں یکے بعد دیگرے پیہم ابھرتی ڈوبتی دکھائی دیتی ہے۔ اگر اس کو ایک زبان کا پابند کر دیا جائے او رپوری بات کہنے کی مجبوری بھی ہو تو نیم واضح اور بے ربط و مہمل قسم کی گفتگو سننے میں آئے گی۔ اس کی تحریر کی بُنت میں آپ کو عجیب قسم کے خم وپیچ نظر آئیں گے۔ اور ابہام واشکال کی کئی صورتیں ملیں گی اور سب سے بڑھ کر، انگریزی ساخت کے جملے بے ڈھنگی اردو میں ملبوس دکھائی دیں گے جن کو دونوں زبانوں کے ماہرین ہی سمجھ سکیں گے۔ زبان ایک نازک اور لطیف آلہٴ اظہار ہے جسے فن کار بڑی مہارت سے برتتا ہے مگر یہ دوغلی زبان معنی کے گرد طواف کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتی اور گونگے کے اشاروں سے زیادہ قابل فہم نہیں ہوتی۔ لفظ اپنے معنوں کو ساتھ لے کے نہیں چلتے بلکہ محض دور سے ان کی طرف اشارہ کرکے رہ جاتے ہیں جب احساسِ شکست قوی ہوجاتا ہے تو اردو کا ادیب اردو کو چھوڑ کر انگریزیمیں لکھنے لگ جاتا ہے مگر فلٹر سبز ہو یا سرخ، مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے۔
ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ ہمارا ادیب اپنے آپ کو ایک نئے معاشرے میں گھرا ہوا دیکھتا ہے۔ یہ معاشرہ اس کے فہم وبصیرت کی حدوں سے بڑھ کر وسیع او رپیچیدہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایسا معاشرہ اس کے اسلاف کے تجربے اور مشاہدے سے ماورا ہے۔ اور اسی وسیع وعریض حقیقت سے اس کو موافقت پیدا کرنا ہے تاکہ تکمیل اور استحکام حاصل ہو۔ جب تک یہ موافقت پوری نہیں ہوتی۔ وہ بڑے پُرجوش اضطراب کے ساتھ کسی نہ کسی طرز کی محفل بناکے بیٹھ جائے۔ اسی اضطراب کی وجہ سے اس زمانے کے اکثر ادیب ایک نہ ایک انجمن یا حلقے سے وابستہ ہوگئے ہیں اور ایک دوسرے کے تصانیف پر دیباچے اور پیش لفظ لکھتے رہتے ہیں۔ آج سے پہلے شاید ہی کبھی ہمارے ادیبوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنے، محفلیں، انجمنیں اور حلقے بنانے کی ضرورت محسوس کی ہو۔ یہ ادارے کتنی ہی سنجیدگی اور خلوص سے کیوں نہ وجود میں آئے ہوں، معاشرہ سازی کی جعلی اور مجنونانہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اور ادیب کو ان آوارگیوں اور سیاحتوں کی قیمت اپنے تخلیقی جوہر سے ادا کرنی پڑتی ہے۔ ان غیر واضح قسم کی حرکتوں سے اس کا مدعا یہ ہے کہ زندگی کے ”کل“ کو پالے اور چونکہ برونِ خانہ سے اس کا ربط قائم نہیں ہوا ، اس کو درون خانہ میں تلاش وتجسس سے کام لینا پڑتا ہے۔ مگر اس تلاش کے دوران میں زندگی کا کاروبار ملتوی ہوتا رہتا ہے اور جب تک کوئی زرخیز زمین ملے۔ زندگی کا رس خشک ہوجاتا ہے۔
پی۔ ای۔ این کی سترھویں سالانہ مجلس میں تقریر کرتے ہوئے آرتھرکیسٹلر نے بتایا تھا کہ تورگنیف کیسے لکھتا تھا۔ اپنے پیروں کو گرم پانی کی بالٹی میں ڈالے ہوئے وہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھتا رہتا تھا۔ یہ گرم پانی کی بالٹی، کیسٹلر کے نزدیک الہام یا تخلیقی سرچشمے سے عبارت تھی او رکھلی کھڑکی سے مراد باہر کی دنیا تھی۔ جو فن کار کے لئے خام مواد کا کام دیتی ہے۔ کیسٹلر نے یہ بھی کہا تھا کہ باہر کی دنیا ادیب کے دل میں ایک زبردست خواہش کو جنم دیتی ہے۔ یعنی یہ کہ وہ کھڑکی بند کرکے بیٹھ جائے اور اپنے تخلیقی سرچشمے پر اکتفا کر لے مگر اس کے علاوہ بھی ایک خواہش پیدا ہوسکتی ہے۔ باہر کی ہوا، دباؤ ڈالنے کی بجائے اس کو باہربھی کھینچ سکتی ہے تاکہ وہ گرم پانی سے اپنے پیر نکال کر کھڑکی پر جھک جائے۔
ہمارے اردو ادیب کو بازار کے واقعات سمجھنے یعنی مشاہدہ اور مرکزیت پیدا کرنے کی ضرورت کچھ اس شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ اس کو اکثر وبیشتر کھڑکی پر جھکا دیکھ کر ہمیں حیرانی نہیں ہونی چاہیئے۔ باہر منظر اس کے لئے اتنا دلفریب ہوتا ہے کہ وہ چیخنے چلانے سے بھی باز نہیں رہ سکتا۔ وہ لکھنے کی میز پر واپس نہیں آتا اور اور گرم پانی پڑا پڑا ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ اس کے سامنے ایک نئی دنیا اُبھر آئی ہے۔ دیکھنے اور سمجھنے کے لئے بےشمار چیزیں ہیں اور چھانٹنے کے لئے بےپناہ مسالہ ہے۔ اس حالت میں اس سے عظیم فن پاروں کی توقع بےجا ہے اور یہ امید بھی عبث ہے کہ وہ اپنے پیر گرم پانی میں ڈالے رکھے گا اور گلیوں بازاروں کے ہجوم میں شامل نہیں ہوگا۔ آنے والے فنکار ساتھیوں کو اس کے یہاں مقصد کی سنجیدگی ملے گی۔اور آگے بڑھ کر دیکھنے اور مستقبل کو تلاش کرنے کی ہمت، چاہے اسلاف کی دعائیں اس کے ساتھ ہوں یا نہ ہوں۔ اس کی تیز نظری، اضطراب، آگاہی اور بےجگری، نئی راہوں پر چلنے کا عزم اور کچھ کھونے پانے سے اس کی بےنیازی یادگار رہے گی۔ ہم اس سے بڑا خراج تحسین اس کو نہیں دے سکتے کہ اس کی مشکلات اور مجبوریوں، تکلیفوں اورتعزیروں کو سمجھیں تاکہ اس کی جدوجہد اور اس کے کارنامے کی بیش از پیش قدر کرسکیں۔ میں نے اس جگہ یہی کرنے کی کوشش کی ہے۔
* * *