”ہیبت ناک افسانے“ کا پیکٹ جب یہاں پہنچا۔ میں گھر پر موجود نہ تھا۔ میری عدم موجودگی میں چند انگریز احباب نے جو
کتابوں اور اشیائے خوردنی کے معاملے میں ہر قسم کی
بےتکلفی کو جائز سمجھتے ہیں
، پیکٹ کھول لیا۔ یہ دوست اردو بالکل نہیں جانتے۔ بجز چند ایسے کلموں کے جو غصے یا رنج کی حالت میں وقتاً فوقتاً میری زبان سے نکل جاتے ہیں او رجو بار بار سننے کی وجہ سے انہیں یاد ہوگئے ہیں
۔ اردو تقریر میں ان کی قابلیت یہیں تک محدود ہے۔ تحریر میں اخبار ”انقلاب“ کا نام پہچان لیتے ہیں وہ بھی اگر خط طغریٰ میں لکھا گیا ہو چنانچہ جب واپس پہنچا تو ہر ایک نے محض کتاب کی وضع قطع دیکھ کر اپنی اپنی رائے قائم کر رکھی تھی۔ سرورق پر جو کھوپڑی کی تصویر بنی ہوئی ہے اس ے ایک صاحب نے یہ اندازہ لگایا کہ یہ کتاب:
میں بھی کبھی کسی کا سر پر غرور تھا
سے متعلق ہے۔ ایشیا کے ادیب (عمر خیام، گوتم بدھ وغیرہ) اکثر اس قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے صاحب سمجھے کہ فن جراحی کے متعلق کوئی تصنیف ہے۔ ایک بولے جادو کی کتاب معلوم ہوتی ہے (ہندوستان کے مداریوں کا یہاں بڑا شہرہ ہے) ایک خاتون نے کتاب کی سرخ رنگت دیکھ کر بالشویکی شبہات قائم کرلئے۔
میں نے کتاب کو شروع سے آخر تک پڑھا۔ گو یہ سب کی سب کہانیاں میں پہلے انگریزی میں پڑھ چکا ہوں۔ اور ان میں سے اکثر تراجم کتابی صورت میں شائع ہونے سے پہلے خود امتیاز سے سن چکا ہوں۔ وہ مختلف قسم کی دلفریبیاں جو مجھے کبھی کسی تصنیف کو مسلسل پڑھنے پر مجبور کرسکتی ہیں سب کی سب یہاں یکجا تھیں۔ کتابت ایسی شگفتہ کہ نظر کو ذرا الجھن نہ ہو تحریرمیں وہ سلاست اور روانیکہ طبیعت پر کوئی بوجھ نہ پڑے۔ او رپھر امتیاز کے نام میں وہ جادو جس سے ہندوستان یا انگلستان میں کبھی بھی مَفر نہ ہو۔ یہ کتاب تیرہ ہیبت ناک افسانوں کا مجموعہ ہے۔ جن کے مصنف کا مدعا یہ تھا کہ پڑھنے والوں کے جسم پر رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے او رہر افسانے میں درد وکرب خوف ودہشت یا پھر مرگ وابتلاء کی ایسی خونیں تصویر کھینچی جائے کہ بدن پر ایک سنسنی سی طاری ہوجائے۔ ایڈگرایلن پو کے پڑھنے والے ایسے افسانوں سے بخوبی آشنا ہوں گے۔ حق تو یہ ہے کہ پو اس فن کا استاد تھا۔ اور یہ جو آج کل اس صنف ادب کی کثرت فرانس میں نظرآتی ہے عجب نہیں کہ اس کا بیشتر حصہ تو اسی کی بدولت ہو۔ کیونکہ فرانس کی ادیبات پر پو کا اثر مسلم ہے اور ادب کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو۔ جہاں کسی نہ کسی صورت میں اس نے اپنا رنگ نہ پھیر رکھا ہو۔ پیرس میں ایک خاص تھیٹر اسی بات کے لئے وقف ہے کہ اس میں دہشت انگیز کھیل دکھائے جائیں۔ اس کمپنی نے اس قسم کے ڈراموں کا اچھا خاصا مجموعہ مہیا کر رکھا ہے۔ تھیٹر کی ڈیوڑی میں چیدہ چیدہ ڈراموں کے مشہور مناظر کی تصاویر آویزاں ہیں۔ کہیں کوئی بدنصیب موت کی آخری انگڑائیاں لے رہا ہے۔ چہرہ تنا ہوا ہے اور آنکھیں باہر پھوٹی پڑتی ہیں۔ کہیں کوئی سفاک کسی حسینہ کی آنکھیں نکال رہا ہے۔ بائیں ہاتھ سے گردن دبوچے ہوئے ہے۔ دائیں ہاتھ میں خون آلود چھریہےاورلڑکی کی آنکھوں سے لہو کی دھاریں بہہ رہی ہیں۔ کھیل کو ہیبت ناک بنانے کے لئے جو جو تدابیر بھی ذہن میں آسکتی ہیں ان سب پر عمل کیا جاتا ہے۔ ایکٹر اپنی شکل شباہت اپنی آواز اور اپنی حرکات کے ذریعے ایک خوف سے کانپتی ہوئی فضا پیدا کرلیتے ہیں۔ پردہ اُٹھنے سے پہلے ہی گھنٹی نہیں بجائی جاتی بلکہ چراغ گل کرکے لکڑی کے تختے پر دستک دی جاتی ہے۔ اس سے ہیبت اور بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔
اس بات میں بحث کی گنجائش نہیں کہ درد وکرب یا خوف ودہشت کے مناظر یا افسانوں سے ایک خاص قسم کی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ یہ فقرہ بظاہر خود اپنی تردید کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے جس کو درد کہا جاتا ہے۔ اس سے خوشی کیسے حاصل ہوگی۔ لیکن یہ ہمارے متدا دل الفاظ کی کم مائیگی کا نتیجہ ہے۔ اصل خیال کو جو اس فقرے سے ظاہر کیا گیا ہے الفاظ کے اس گورکھ دھندے سے باہر نکالنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اسی وجہ سے بعض ماہرین نفسیات دکھ، درد، کرب وغیرہ اس قسم کے الفاظ استعمال سے مجتنب رہتے ہیں کیونکہ وہ کب کے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ بہت سی ایسی کیفیات جن کو ہم عام زبان میں دکھ درد وغیرہ سے موسوم کرتے ہیں۔ بسا اوقات اس قدر تسکین بخش ہوتی ہیں کہ لوگ ان کے وصول کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ اور ان میں اپنی مسر ڈھونڈ لیتے ہیں۔ یقیناً آپ کے پڑوس میں کئی ایسی عورتیں ہوں گی جو اس تلاش میں رہتی ہیں کہ کسی نہ کسی کی موت کی خبر سن پائیں اور بین اور واویلا میں شامل ہو کر آنسو بہا بہا کر اپنی تمنا پوری کرلیں۔ جرائم اور اموات کی گھناؤنی سے گھناؤنی تفصیلات کی اشاعت یورپ اور امریکہ کے کئی اخباروں کی مقبولیت کا باعث ہے۔ لوگوں کو ان کے پڑھنے میں ایک خاص لطف آتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ یا میں بعض دہشت ناک افسانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو ہمیں اس کا اعتراف کرتے ہوئے محض اس وجہ سے متامل نہ ہونا چاہیئے کہ کہیں لوگ اس کو ہماری طینت کے کسی نقص پر محمول نہ کریں۔ مجھے یقین ہے کہ قدیم زمانے میں رومن قوم کے ہجوم اپنے اکھاڑوں میں پہلوانوں کی لڑائیاں اسی جذبے کے ماتحت دیکھنے آتے تھے۔ ہر کشتی ایک نہ ایک حریف کی موت پر جاکر ختم ہوتی تھی۔ او رکشف وخون کا یہ نظارہ ہزاروں لوگوں کو خوشی کے مارے دیوانہ بنا دیا کرتا تھا۔ ہماری تہذیب اس تجاوز کی متحمل نہیں۔ لیکن افسانوں اور ڈراموں سے لطف اندوز ہونا اب بھی ہمارے بس میں ہے۔ اور اگر ہم اس جذبے کو فن کی کیمیا سے کشید کرکے لمحے بھر کو اپنے اعصاب میں ایک کیف انگیز تھرتھراہٹ پیدا کرلیتے ہیں تو کم از کم میں تو کسی طرح بھی نادم نہیں۔ آپ اپنے دل کو ٹٹول لیجئے۔
اعصاب میں ایک تھرتھراہٹ! بس یہی ان افسانوں کا مقصد ہے اور جس کامیابی، جس خوبی اور جس فن کے ساتھ اس کتاب کے مصنف نے اس مقصد کی تکمیل چاہی ہے اس کی تعریف اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ امتیاز جیسے ذی مطالعہ اہل قلم کو اس کے ترجمے کی خواہش ہو۔ ان لوگوں کے سامنے جو اردو ادب کے مشاہیر سے واقف ہیں اس سے زیادہ قابل وقعت ضمانت نہیں پیش کی جاسکتی۔ مصنف کی سب سے بڑی خوبی خود مترجم نے کتاب کے دیباچے میں واضح کر دی ہے۔
”موسیولیول بے انتہا، سلیس عبارت استعمال کرتے ہیں۔ جس کی پختگی اور روانی پڑھنے میں نظم کا سا لطف دیتی ہے۔ ایک فقرہ یا لفظ بھی ضرورت سے زیادہ یا کم نہیں ہوتا۔ مختلف چیزوں کے بیان میں تناسب کی سمجھ بےحد تیز ہے۔ چنانچہ ان کی ہر مکمل کہانی ایک نفیس اور صاف ستھرے ترشےترشائے ہیرے کی طرح دل کش معلوم ہوتی ہے۔“
یہ اختصار دہشت انگیز افسانوں کی ایک ضروری صفت معلوم ہوتی ہے۔ اس کے بغیر ان میں وہ تندی وہ تیزی نہیں رہتی جس سے سنسنی پیدا کی جا سکے۔ او رپھر یہ اختصار ہر رنگ میں شامل حال رہتا ہے ورنہ افسانے یا ڈرامے کی کامیابی میں نمایاں طور پر فرق پڑجاتا ہے اس کی وجہ میں کبھی ٹھیک طور پر سمجھ نہیں سکا لیکن اس کی حقیقت کے متعلق میرے دل میں کوئی شبہ نہیں۔ پیرس کے جس تھیٹر کا میں نے ذکر کیا ہے وہاں اکثر کھیل صرف ایک ایکٹ کے ہوتے ہیں اور خود تھیٹر بھی بہت چھوٹا سا ہے۔ چند دن ہوئے میں نے لندن میں ایک ایسی قسم کا کھیل دیکھا جو ہیو والیول کے ایک ناول سے مرتب کیا گیا ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس کھیل کے لئے بھی لندن کا ایک بہت چھوٹا سا تھیٹر منتخب کیا گیا اس تھیٹر کا نام لٹل تھیٹر یا چھوٹا تھیٹر ہے۔ باقی رہا امتیاز کا ترجمہ، میں حیران ہوں کہ اس مختصر سے تبصرے میں اس موضوع کے متعلق کیا کہوں اور کیا کسی اور وقت پر اُٹھا رکھوں۔ آج کل اردو میں تراجم کثرت سے شائع ہو رہے ہیں اور ضرورت ہے کہ کوئی صاحب فہم ان کے متعلق ایک بسیط تنقیدی مضمون سپرد قلم کر دیں تاکہ ”چترا“ اور ”تائیس“ اور ”مذہب اور سائنس“ اور ”عذرا“ اور ”لیلیٰ“ ایسی تصانیف کی ادبی حیثیت کو جانچنے کے لئے ایک معیار مقرر ہوجائے۔ میں ایسی بحث سے گریز کرتا ہوں خصوصاًاس وقت جبکہ میرے زیر نظر صرف ”ہیبت ناک افسانے“ ہے اور میرا قلم صرف اس کی خدمت میں مصروف ہے۔
یہ کہناکہ امتیاز صاحب انگریزی جانتے ہیں، اس وقت تک بےمعنی فقرہ ہے جب تک کہ میں اس کی مزید تشریح نہ کردوں آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہ وں کہ ”گدھا“ کس کو کہتے ہیں۔ کسی انگریزی کے لئے اس لفظ کے معنی سیکھ لینا کچھ مشکل نہیں۔ جانور کی تصویر دکھا دیجئے اور نام بتا دیجئے۔ قصہ ختم ہوگیا۔ لیکن اس لفظ کے ساتھ ”ابے گدھے“ سے لے کر ”خرِ عیسٰے“ تک جو شعر وادب، فلسفہ ومذہب رسم وعادت، محاورہ اور روز مرہ کی ایک تاریخ وابستہ ہے، اس کو منتقل کرنے کے لئے ایک عمرچاہیئے اور پھر اس کے لئے بصیرت، ذہانت مذاق اور مطالعہ کی ضرورت ہے۔ امتیاز کو خدا نے یہ سب خوبیاں عطا کی ہیں اور یہ ہندوستان کی خوش قسمتی ہے کہ انہوں نے اپنی ان قوتوں کو مطالعہٴالسنہ اور علم وادب کی تحصیل کے لئے وقف کررکھا ہے۔ ہاں وہ انگریزی جانتے ہیں اسی لئے جب کبھی ان کا کوئی دلدادہ اپنی عقیدت کی وجہ سے ان کے نام کے ساتھ بی اے لکھ دیتا ہے تو مجھے غصہ آتا ہے۔
ان کی اردو پرکھنے کے لئے ہندوستان میں مجھ سے بدرجہا بہتر نقاد موجود ہیں۔ اس کے علاوہ میں امتیاز کے نیاز مندوں میں سے ہوں۔ مجھے سنبھل کر قلم اٹھانا چاہیئے۔ مبادا قارئین میرے جذبات کی تو تعریف کریں لیکن میری تنقید کو محض اظہار نیازمندی سمجھ کر پس پشت ڈال دیں۔ اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ اس کتاب کے ایک دو صفحے آپ اور میں مل کر پڑھیں۔
”شام پڑ رہی تھی۔ فقیر سڑک کے کنارے خندق کے پاس کھڑا ہوگیا اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا کہ کوئی کونا کھدرا نظر آئے تو وہاں پڑ کر رات بسر کرے۔ او رکوٹ سمجھ لو یا جو کچھ سمجھ لو ایک بورا سا اس کے پاس تھا۔ اسی میں گھس گیا۔ لاٹھی کے سرے پر ایک گٹھڑی سی باندھ کر کندھے پر اُٹھا رکھی تھی، تکیے کی جگہ اسے سر کے نیچے رکھ لیا۔ تھکن سے چور چور ہو رہا تھا بھوکا تھا، پڑ رہا اور نیلے آسمان پر تاروں کو ایک ایک کرکے اُبھرتے ہوئے دیکھنے لگا۔ سڑک کے دونوں طرف جنگل بیابان پڑا تھا۔ پیڑوں پر چڑیاں نیند میں چپ چاپ تھیں۔ دور بہت فاصلے پر گاؤں ایک بہت بڑا سیاہ دھبہ دکھائی دے رہا تھا۔ یہاں سکون اور سناٹے میں لیٹے لیٹے غریب بڈھے کا دل بھر آیا۔ اسے کچھ معلوم نہ تھا میرے ماں باپ کون تھے۔ لاوارث کو ثواب کمانے کے لئے کسی زمیندار نے لے لیا تھا۔ اسی کے ہاں پروان چڑھا تھا۔ بچہ ہی سا تھا تو وہاں سے نکل بھاگا۔ ادھر اُدھر اس فکر میں پھرنے لگا کہ کہیں کچھ کام مل جائے جس سے روٹیوں کا سہارا ہو سکے۔ بڑی کٹھن زندگی گزررہی تھی۔ دکھوں کے سوا جینے کا کوئی مزا نہ دیکھا تھا۔ جاڑوں کی لمبی لمبی راتیں چکیوں کی دیواروں تلے پڑ کر کاٹ دی تھیں۔ سوال کے لئے ہاتھ پھیلانے کی ذلت اُٹھائی تھی۔ چاہا تھا کہ مرجائے۔ ایسی نیند سوئے کہ پھر کبھی آنکھ نہ کھل سکے۔ جتنے لوگوں سے اب تک واسطہ پڑا تھا۔ بےدرد تھے، شکی تھے۔ سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ معلوم ہوتا تھا ہر ایک اس سے ڈرتا ہے بچے دیکھ پاتے تو بھاگ جاتے۔ کتے اس کو چھتھیڑوں میں دیکھ کربھونکنے لگتے۔ پھر بھی کبھی کسی کا برا نہ چاہا تھا۔ سیدھی سادی اور نیک طبیعت پائی تھی۔ جسے مصبتوں نے مردہ بنا دیا تھا۔“
یہ وہ زبان ہے جو قلعے میں پیدا ہوئی اور جو برسوں تک ”اہل زبان“ کے لئے باعث فخر وناز رہی۔ شمالی ہندوستان کے تعلیم یافتہ طبقے کو یہ زبان رتن ناتھ سرشار، داغ اور امیر، نذیر احمد، اور محمد حسین آزاد سے ورثہ میں ملی۔ اور اسی خزانے کے سکوں سے جنہیں خود ”اہل زبان، محض ممسکوں کی طرح اپنے ہاتھوں ہی میں مل مل کر خوش ہولیتے ہیں۔ اب لاہور کا ادیب فرانس اور انگلستان کا متاع ادب خرید خرید کر ہندوستان میں منتقل کر رہا ہے۔ اس قدیم دولت سے ادب جدید کے بازار میں اپنی ساکھ قائم رکھنا صرف امتیاز ہی کا کام تھا۔
اب ایک اور صفحے کو پڑھئے۔ جو دہلی اور لکھنوٴ دونوں سے بےنیاز ہے بلکہ جو اکثر پرانی وضع کے بزرگوں کو اپنی جدت سے برہم کر دے گا۔
”اس روز میں بہت دیر تک کام کرتا رہا تھا۔ اتنی دیر تک کہ آخر کار جب میں نے میز پر سے نظریں اٹھائیں تو کیا دیکھتا ہوں کہ شفق شام سے میرا مطالعہ کا کمرہ لالہ زار بن رہا ہے۔ ذرا دیر تک میں بےحس وحرکت بیٹھا رہا۔ دماغ پر کسل کی وہ کیفیت طاری تھی جو کسی بڑی ذہنی محنت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ بے تعلق نظروں سے ادھر اُدھر تکتا رہا۔ مدہم روشنی میں ہر چیز دھندلی اور بےوضع نظر آرہی تھی۔ اگر کچھ روشنی تھی تو ان جگہوں پر جہاں غروب ہوتے ہوئے سورج کی آخری شعائیں میز، آئینے اور تصویر سے منعکس ہو کر روشنی کے دھبے ڈال رہی تھی۔ کتابوں کی الماری پر ایک انسانی کھوپڑی رکھی تھی۔ اس میں شعاعیں ضرور خاص قوت سے منعکس ہو کر پڑ رہی ہوں گی۔ کیونکہ میں نے نظریں اٹھائیں تو وہ مجھے ایسے روشن طور پر نظر آئی کہ گال کی ہڈی سے لے کر جبڑے کے زبردست زاوئے تک ہر حصہ بخوبی واضح تھا۔ شام کا دھندلکا بڑی سرعت سے گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ اور ہر چیز کو جیسے نگلنے جا رہا تھا۔ اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ رفتہ رفتہ مگر قطعی طور پر اس سر میں زندگی کی چنگاری چمک اُٹھی ہے۔ وہ گوشت پوست سے منڈھا گیا ہے۔ دانتوں پر ہونٹ سرک آئے۔ حلقوں میں آنکھیں جڑی گئی ہیں۔ بہت جلد کسی انوکھے سحر سے مجھے ایسا نظر آنے لگا کہ میرے سامنے تاریکی میں گویا ایک سر معلق ہے اور میری طرف تک رہا ہے۔ وہ سر جمی ہوئی نظروں سے مجھے گھور رہا تھا۔ اور اس کے چہرے پر استہزا کا ایک تبسم تھا۔ یہ کوئی اس قسم کا گریز پا تصور نہ تھا جو انسان کا تخیل پیدا کرلیا کرتا ہے۔ یہ چہرہ ایسی حقیقی چیز معلوم ہوتا تھا کہ ایک مرتبہ تو میں بےقرار ہوگیا کہ ہاتھ بڑھا کر اسے چھولوں لیکن یکلخت رخسار جیسے تحلیل ہو کر رہ گئے۔ حلقے خالی ہوگئے۔ ایک ہلکی سی گہر نے اسے ملفوف کر لیا۔۔۔ اور پھر مجھے عام کھوپڑیوں کی طرح ایک کھوپڑی نظر آنے لگی“۔
یہ اردو نہ بازار میں پیدا ہوئی نہ گھر میں۔ اس نے نہ لشکر میں پرورش پائی نہ قلعے میں۔ بلکہ یہ صرف ملک کے بہترین دماغوں کی کاوش کا نتیجہ ہے۔ نئی تہذیب کی ضروریات نے اسے ایجاد کیا او رمطالعے اور خوش مذاقی نے اسے یہ دلفریب صورت بخشی۔ اس بارے میں ہمارا ادب سجاد حیدر، ظفر علی خاں، ڈاکٹر اقبال اور ابوالکلام آزاد جیسی شخصیتوں کا ممنون ہے۔ جنہوں نے بعض ایسے دروازے کھول دیئے کہ ترقی کےکئی راستے آنکھوں کے سامنے پھیلتے ہوئے نظر آنے لگے۔
یہ دو مختلف نمونے میں نے امتیاز کی قادر الکلامی کو ثابت کرنے کے لئے پیش کئے ہیں۔ ان پر یہ اعتراض بجا نہ ہوگا کہ ایک ہی تصنیف میں اتنے متبائن ڈھنگ یک رنگی کے منافی ہیں۔ اس کے جواب میں، میں یہ کہوں گا کہ جب آپ کسی ایک ایسی کتاب کو جو ایک غیرملکی تصنیف میں ڈوبی ہوئی ہو،محض اردو جاننے والے ہندوستانیوں کی ضیافت طبع کے لئے کسی دیسی زبان میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ تو یہ یقین مانیے انشاء پردازی کا کوئی ایسا فن نہ ہوگا جس سے آپ بےنیازی برت سکیں۔ اس کے لئے قلم نہیں بلکہ دسوں انگلیاں دس چراغ ہونی چاہئیں۔
پطرس ۔ از کیمبرج
(مخزن مئی ۱۹۲۸ء)
* * *