(محمد طفیل)
پطرس نے جب بھی لکھا۔ لفظوں کے تاج محل بنائے۔ پطرس کو جب بھی کسی دوست نے پکارا، لبیک کی آواز آئی۔ پطرس جس بھی راہ سے گذرے، اپنے نقش چھوڑ گئے۔ اپنے جھنڈے گاڑ گئے۔ بخاری صاحب سے میری یاد ، کوئی زیادہ پرانی نہیں۔ نئی بھی نہیں، اس لئے کہ مرحوم کو میں نے ہر رنگ میں دیکھا نہیں، سنا تو ہے۔ اگر ملنے ملانے کی حد تک، میں ان کی خدمت میں نووارد ہوں تو سننے سنانے کی حد تک بیگانہ نہیں۔ جب یہ طالب علم تھے تو اُنہوں نے ”پطرس کے مضامین“ لکھی۔ (غالباً ۱۹۲۸ء) جب میں طالب علم تھا۔ تو میں نے یہ کتاب پڑھی۔ بہ ظاہر ان کا لکھنا اور میرا پڑھنا زمانہ طالب علمی کی داستان ہے۔ مگر حقیقت کچھ اور بھی ہے۔ جب میں بچہ تھا اس وقت بھی میں نے اسے پڑھا اب جبکہ بچوں کا باپ ہوں تو بھی یہ چھوٹی سی کتاب میرا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ ہر وقت اکساتی رہتی ہے۔ مجھے پڑھو، مجھ سے سیکھو، پہلے جو فقرے مجھے ہنسنے ہنسانے پر آمادہ کرتے تھے آج غوروفکر پر مجبور کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بوڑھا ہوں گا تو نہ جانے یہ کتاب کیا کیا سلوک نہ کرے۔
پطرس کے بارے میں لکھنا آسان نہیں اور اس جیسا ایک فقرہ لکھنا، قیامت ہی قیامت۔ میرا خیال ہے جس نے پطرس جیسا ایک بھی فقرہ لکھ لیا وہ اور کچھ ہو یا نہ ہو، کم بخت ادیب ضرور ہے۔ جس شخص نے اپنی زندگی میں، جو کچھ بھی لکھا ہو۔ اس کے ایک ایک لفظ پر غور کرکے لکھا ہو۔ اب کوئی اس کے بارے میں، بغیر غور کئے لکھ دے تو یہ زیادتی ہے یا نہیں۔ سچ جانئے غور کرتا ہوں تو میرے بھی پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ قلم رک جاتا ہے۔ بات آگے نہیں بڑھتی۔ مجبوراً طے کرنا پڑا۔ لکھوں پہلے، غور بعد میں کروں۔ مرحوم کے جتنے بھی قریبی دوست تھے۔ معلوم ہوتا ہے وہ سب غور ہی کی زد میں آئے ہوئے ہیں۔ ورنہ کچھ نہ کچھ تو لکھ ہی لیتے۔ اب جس سے عرض کرتا ہوں…بھائی! اپنے یار پطرس پر کچھ لکھئے تو ان میں سے ہر ایک یہی جواب دیتا ہے۔ غور کر رہا ہوں…کچھ عرصے کے بعد دوبارہ عرض کیا غور کر لیا ہو تو کچھ لکھ ڈالئے۔ پھر جواب ملا جتنا غور کرتا ہوں اتنا ہی لکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ یہ جواب مرحوم کے ایک دوست کا نہیں۔ تقریباً سب ہی کا ہے۔ نہ جانے یہ قصور، پطرس کی قابو میں نہ آنے والی شخصیت کا ہے یا مرحوم کے دوستوں کا، اس کا فیصلہ مجھ سے نہ کرائیے۔ اس لئے کہ مجھے آئندہ بھی پرچہ چھاپنا ہے۔ میرا عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مجبوراً مجھ ہی کو مرحوم کا قریبی دوست بننا پڑا ہے۔ حالانکہ اس بندہٴ پُرتقصیر نے مرحوم کو صرف ایک بار دیکھا تھا۔ ان سے خط وکتابت ضرور تھی۔ وہ بھی مختصر، دو تین خط میرے نام آئے تھے اور بس۔
میں نے پچھلے دنوں، رشید احمد صدیقی کا مضمون مولانا ابوالکلام پر پڑھا، اس میں لکھا تھا کہ مولانا آزاد سے میری صرف چند منٹوں کی ایک ملاقات ہے اور دو خط مولانا کے میرے نام …یہ پڑھ کر میری ڈھارس بندھی۔ سوچا پطرس سے میرا رشتہ اس سے زیادہ کا ہے۔ اس لئے میں کیوں چپ رہوں۔ ضرور گھاس کاٹنی چاہیئے۔ پہلے عرض کرچکا ہوں کہ مرحوم ایک ایک لفظ کو کئی کئی طرح سے سوچتے اور لکھتے تھے تب کہیں جا کر کوئی خوش قسمت لفظ ان کے فقرے کی زینت بنتا تھا۔ بعض اوقات یہ بھی ہوا۔ امتیاز علی تاج، عبدالحمید سالک، صوفی تبسم، حفیظ جالندھری کی محفل جمی ہے۔ گپ شپ ہو رہی ہے، لطیفے تصنیف کئے جا رہے ہیں مگر ان کے دماغ میں وہی لفظ گھوم رہا ہے جس کے لئے یہ آج پریشان رہے تھے۔ رہا نہ گیا۔ سوال کر دیا۔ چنداں چوکڑی یہ بتائیے فقرہ یوں ہے اور ماحول یہ، لہٰذا اس جگہ اس مفہوم میں کون سا لفظ سجے گا؟ کسی نے کہا یہ، کسی نے کہا وہ، انہوں نے کہا سب غلط، بھئی پورے فقرے کی ساخت پر غور کرو۔ مضمون کے پس منظر پر نظر رکھو۔ کیریکٹر کے مزاج کو جانچو، پھر بتاؤ، میرے لفظ سے زیادہ موزوں کوئی لفظ اور ہے؟
مرحوم انگریزی اتنی اچھی جانتے تھے جتنی سارے پاکستانی مل کر جانتے ہیں۔ اردو جتنی جانتے تھے اتنی اردو کے سارے پروفیسر مل کر بھی نہیں جانتے۔ اگر کسی پروفیسر کو میرا یہ تبصرہ برا لگے تو وہ مرحوم جیسا ایک جملہ لکھ کے تو دیکھے۔ ۱۹۲۸ء کے آس پاس اہل پنجاب او ریوپی والوں کے درمیان چلی اور خوب چلی۔ اُدھر سے بھی بڑے بڑے بقراط سامنے آئے۔ ادھر سے بھی، ادھروالوں کو میں نہیں چھیڑتا۔ اُدھر والوں کی بات کرتا ہوں۔ اس وقت یو پی کے کئی رسائل نے پنجابی اہل قلم کو مطعون گردانا۔ مگر ان میں قابل ذکر علی گڑھ میگزین اور جامعہ تھے۔ ادھر والوں کا سارا زور زبان کی اغلاط پر تھا۔ ادھر والوں میں صلاح مشورے کی حد تک، عبدالمجید سالک، ڈاکٹر تاثیر، امتیاز علی تاج تھے، مگر جواباً جو کچھ لکھا جاتا تھا اسے لکھتے پطرس ہی تھے ۔ بڑے بڑے تیز فقرے ادھر سے بھی آئے۔ اُدھر سے بھی لوٹائے گئے۔ نیاز مندانِ لاہور کے قلمی نام سے پطرس نے لکھا:
”اردو کے تین مرکز ہیں۔ یوپی حیدرآباد دکن اور لاہور لیکن اہل بنیش بھی یہ بات گاہے گاہے بھول جاتے ہیں کہ یوپی میں یہ زبان خودرو ہے۔ حیدرآباد میں یہ زبان ایک رانی ملک کے سایہٴ عاطفت میں پل رہی ہے اور صرف پنجاب ہی ایک ایسا علاقہ ہے جہاں اس کی نشوونما محض خونِ عشاق کی رہین منت ہے جس جگہ یہ زبان خودرو ہے وہاں خودبین بھی ہے۔ جہاں اتالیق شاہی سے تعلیم پا رہی ہے وہا ں عوام سے کچھ کھچ کے رہتی ہے۔ لیکن پنجاب میں اس زبان کی حالت ایک ہونہار تنومند نوجوان کی ہے جس کا خون گرم ہے اور جس کے اعضا میں لچک ہے جو چھلانگیں مارتا جاتا ہے اور اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ اس کا ہر قدم پگڈنڈی پر پڑتا ہے یا نہیں۔ اسے سمت کا اتنا ہی شعور ہے جتنا کسی اور قدرتی نمو کو ہوتا ہے۔“ بلکہ اس سے بھی تیز فقرے:
”یو پی کے چشمے خشک ہوچکے ہیں۔ پیاس بجھانے کے لئے اب وہاں جانا بےسود ہے۔ اب پنجاب کی رہبری بجز اس کی اپنی قوتِ نامیہ کے کوئی چیز نہیں کرسکتی۔ یوپی اور اردو ادب ایک سسکتا ہوا سانپ ہے۔ جو کبھی کبھی ایک نحیف سی پھنکار مارتا ہے اور بس، اب یو پی صرف اعتراض کرسکتا ہے۔ رہنمائی نہیں کر سکتا اور نہیں جانتا کہ اس کا چڑچڑا پن اس کا مربیانہ انداز، اس کی طفلانہ تنقید یہ سب انحطاط کی نشانیاں ہیں“۔
پطرس کے یہ فقرے تیکھے ضرور ہیں۔ مگر دلآزاری کا سلسلہ دونوں طرف تھا۔ بری بات تھی تو دونوں طرف، اچھی تھی تو دونوں طرف ،مگر میں جو بات یہاں عرض کرنی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مرحوم کو زندگی کے ہر مرحلہ پر سرداری کا چسکا رہا۔ جب اہل پنجاب ہی کے لتّے لئے جا رہے تھے تو یہ کیسے چپ رہتے۔وہ جس بزم میں بیٹھتے تھے۔ چاہتے تھے میری باتیں، میرے جملے، حاصل بزم رہیں۔ بزم ادب میں بھی، انہوں نے اونچی ہی کرسی پر بیٹھنا چاہا۔ بزم سیاست میں بھی آئے تو ساری دنیا نے ان کی طرف مڑ مڑ کر دیکھا۔ میرا ایمان ہے اگر وہ یوں سرفراز نہ رہتے تو یقینا خودکشی کرلیتے۔ ان کے مذہب میں، کسی بھی مرحلہ پر سُبکی، موت کے مترادف تھی۔ مرحوم پر فقرے وارد بھی ہوتے تھے۔ خود بھی جنتے تھے، مطالعہ بھی ان کا خوب تھا۔ حافظہ بھی خوب، جو ان کے مطالعہ کی زد پر آگیا وہ چت، جو ان کی ذہنی اپچ کی زد پر آگیا وہ چت، غالباً قدرت نے انہیں بھیجا ہی اس لئے تھا کہ وہ لوگوں کے دلوں کو بھی فتح کر لیں، دماغوں کو بھی۔ حصول تعلیم کے لئے جب یہ لندن گئے تو انہوں نے تاج صاحب کو کیا عمدہ لکھا تھا:
”حضرت یہ کیمبرج یونیورسٹی ہے۔ یہاں کا ہر فرمودہ پتھر تاریخ انگلش کی ایک خاموش فصل ہے۔ یہ وہ دارالعلوم ہے جہاں ہم سے کہیں پہلے جان ہاورڈ (جس نے امریکہ میں ہاورڈ یونیورسٹی کی بنیاد ڈالی) آلیوم کرام ویل (Crom Well) سٹرن (Sterene) کولرج، سیموئیل بٹلر، بیکن، ٹینی سن، تھیکرے، میکالے، نیوٹن، بل ورلٹن، سیلے، لارڈ چسٹر فیلڈ، مارلو، ولیم پٹ، گرے اور ملٹن کسبِ فیض کر چکے ہیں اور جہاں اس وقت انگلستان کی آئندہ نسل کے کئی مشاہیر تعلیم حاصل کر رہے ہیں اس بہارستان کا ایک مرجھایا ہوا بےرنگ وبُو پھول کیا حقیقت رکھتا ہے غریب ماں باپ کا بیٹا، ایک غلام قوم کا فرد، نسیم اور مرزا شوق کی مثنویوں کا پڑھنے والا، فسانہٴ آزاد کا دلدادہ، طبلے اور سارنگی کا شوقین، زمیندار اور گروگھنٹال کا خریدار، ایشیاء کے عشقیہ افسانوں میں رچا ہوا۔ مغلیہ عیش وعشرت کا خواہش مند اتحادِ اسلامی کے خواب دیکھنے والا، میں بھلا کیا حقیقت رکھتاہوں۔
بخاری صاحب جب کیمبرج پہنچے تو ان کے سامنے یونیورسٹی کا سارا ماضی تھا۔ چھوٹی بڑی کئی ادبی چٹانیں، انہیں خوف زدہ کرنے کے لئے تاریخ کے صفحات پر موجود تھیں۔ انہیں اپنی کم مائیگی کا احساس تھا مگر مرعوب نہ تھے وہ سارے نام گنواتے ضرور ہیں مگر اس احساس کے ساتھ کہ کبھی میرا بھی نام ان لوگوں کے ساتھ لیاجائے گا۔ مرعوب ہونا تو یہ شروع ہی سے جانتے نہیں تھے۔ بلکہ مرعوب کرنا ان کا فن رہا۔ یہی وجہ ہے کہ غریب ماں باپ کے بچے نے اپنے آپ کو بنانے سنوارنے میں بڑا زور مارا۔ بڑا ہی زور مارا۔ ریاضت اور وہ بھی اس حد تک، کس کے بس کی بات ہے…آج کل (اور اس وقت بھی) لڑکے لندن اس لئے جاتے ہیں تاکہ ذرا عیش کر آئیں۔ پڑھنے کہاں جاتے ہیں مگر پطرس نے وہاں جاکر نہ صرف پڑھا بلکہ استادوں کو پڑھایا بھی۔ قدرت اگر پطرس کو لکھنے لکھانے کا موقع دیتی تو پھر ساری دنیا دیکھ لیتی کہ پطرس کا مقام دنیا کے لیکھیکھوں میں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔بخاری صاحب جب کوئی مضمون لکھنے بیٹھتے تھے تو وہ کامل سکون اور سکوت چاہتے تھے۔ بالکل الگ تھلگ اور تنہا جب کچھ لکھ لیتے تو پھر نچلے نہ بیٹھتے، فوراً اپنی موٹر نکالتے اور بھاگتے اپنے کسی ذہنی دوست کے پاس، تاکہ اسے جاکر اپنا کارنامہ سنائیں۔ جب تک وہ اپنا لکھا ہوا مضمون اپنے سارے دوستوں کو سنا نہیں لیتے تھے انہیں چین نہیں آتا تھا بیکل رہتے تھے۔یہی حال ان کا دوستوں کی تخلیقات کے بارے میں تھا وہ ہر دوست سے پوچھا کرتے تھے۔ سناؤ بھئی کوئی چیز لکھی؟ کچھ لکھا تو سناؤ، جب وہ بے چارہ سناتا تو یہ اس میں عیب ہی عیب نکالتے۔امتیاز علی تاج نے مجھے بتایا۔ میں نے جب بھی پطرس کو کوئی چیز سنائی، اس نے ہزار جگہ انگلی رکھ دی۔ چنانچہ مرحوم کی اس ”حرکت“پر پریشان رہنے لگا اور یہ طے کر لیا کہ اب انہیں کوئی چیز نہیں سناؤں گا۔ چنانچہ ایک دن، میں اپنے دوست کو اپنا کوئی مضمون سنا رہا تھا تو یہ دھم سے آنکلے میں نے انہیں دیکھا تو مضمون تہہ کرکے رکھ دیا۔ پطرس نے تاڑ لیا۔ کہنے لگے۔ اب مضمون کیوں نہیں سناتے؟
تاج صاحب کہتے ہیں پطرس میرے اس جواب پر بڑے آزردہ ہوئے اور بڑے پیار سے کہا۔ ”تاج تو نے مجھے بڑا غلط سمجھا ہے۔ میں جب بھی تمہاری کوئی چیز سنتا ہوں تو میرے پیش نظر دنیا کے تمام بڑے بڑے ادیب ہوتے ہیں۔ میں تمہیں ان کے معیار پر پرکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ تمہارا کام اور نام ان کے ساتھ لیا جائے اور تم ہو کہ مجھ سے ناراض ہو“۔یہ تھی پطرس کی نقادانہ شان اور دوستوں کے فن کے بارے میں خلوص، اب کوئی مانے یا نہ مانے۔ آج پنجاب کے جتنے بڑے شاعر اور ادیب ہیں تقریباً ان سب کے فن کے نکھار میں پطرس کا بڑا ہاتھ ہے۔ یقین نہ ہو تو میری بات کی تصدیق سالک، تاج، عابد، صوفی، راشد اور فیض سے کر لی جائے۔ارے بھئی پطرس تو وہ بلا تھی جو علامہ اقبال تک سے بھڑ جایا کرتی تھی۔ ایک دفعہ اقبال اور پطرس کی برگساں کے فلسفے پر بات چل نکلی۔ باتیں ہوئیں۔دلیلیں دیں اور لیں۔ کوئی بھی قائل نہ ہوا۔ بالآخر اقبال چپ ہوگئے۔ جب پطرس چلے گئے تو اقبال نے ایک نظم پطرس کے بارے میں کہی جس کا عنوان ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام تھا نظم یہ ہے:
تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا
زنا ریٴ برگساں نہ ہوتا
ہیگل کا صدف گہر سے خالی
ہے اس کا طلسم سب خالی
محکم کیسے ہو زندگانی؟
کس طرح خودی ہو لازمانی
آدم کو ثبات کی طلب ہے
دستورِ حیات کی طلب ہے
دنیا کی عشا ہو جس سے اشراق
مومن کی اذاں ندائے آفاق
میں اصل کا خال سومناتی
آبا میرے لاتی ومناتی
تو سید ہاشمی کی اولاد
مری کف خاک برہمن زاد
ہے فلسفہ میرے آب وگل میں
پوشیدہ ہے ریشہ ہائے دل میں
اقبال اگرچہ بے ہنر ہے
اس کی رگ رگ سے بے خبر ہے
شعلہ ہے ترے جنوں کا بے سوز
سن مجھ سے یہ نکتہٴ دل افروز
انجام خرد ہے بے حضوری
ہے فلسفہٴ زندگی سے دوری
افکار کے نغمہ ہائے بے صوت
ہیں ذوق عمل کے واسطے موت
دیں مسلک زندگی کی تقویم
دیں مرا محمدﷺوابراہیم
”دل در سخن محمدی بند
اے پور علی زبور علی چند
چوں دیدہٴ راہ بیں نداری
قائد قرشی از بہ بخاری“
غور کیجئے اقبال پطرس کے بارے میں نظم کہتے ہیں۔ اقبال اس وقت اپنے عروج کی آخری بلندیوں پہ تھے اور پطرس بلندیوں کی طرف ہُمک رہے تھے مگر حوصلہ دیکھئے۔ پہاڑ سے ٹکر لے لی۔اب ذرا مضمون میں توازن پیدا کر لوں۔ ورنہ آپ کہیں گے کہ میں برابر بےنیاز مندی برتتا چلا جا رہا ہوں۔ مرحوم تو واقعی بڑی صلاحیتوں کے مالک تھے ان کی تعریف وتوصیف نہ بھی کروں تو بھی ان کا کچھ نہ بگڑے گا۔ میرا ”پٹٹرا“ ہوجائے گا۔ اسی الزام سے بچنے کے لئے مرحوم کی چٹکی لے رہا ہوں۔ اس کے دو فائدے ہوں گے۔ ایک تو پطرس بےچارے اوتاروں کے زمرے سے نکل جائیں گے۔ دوسرے پطرس کے بدخواہوں میں سے کوئی مجھے جان سے نہیں مار ے گا۔ وہ تو مرحوم ہیں۔ میں مرحوم بننا نہیں چاہتا۔ موت برحق ضرور ہے مگر وہ پطرس کی وجہ سے کیوں آئے۔پطرس کے ہاں فقروں، ترکیبوں اور خیالات کی تکرار بہت ہے۔ وہ اپنے ایک دوست کو جن خوب صورت الفاظ سے یاد کریں گے۔ ان ہی الفاظ اور ان ہی طرحدار ترکیبوں سے اپنے دوسرے دوست کو زیر کریں گے۔ مرحوم کو کیا پتہ تھا کہ میرے بعد یہ کم بخت میری اس کمزوری کو اچھالے گا۔ یہ نقص مرحوم کے خطوط میں زیادہ نمایاں ہے۔ اُن میں ایک ہی طرح کے الفاظ کھلتے ہیں مگر بعض جگہ تو پیرے کے پیرے لڑگئے ہیں۔ مثالیں کیا دوں خود پڑھ لیجئے۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔اسی ضمن میں، میں نے ایک لطیفہ سنا ہے، معلوم نہیں کہاں تک صحیح ہے، راوی اس کا معتبر ضرور ہے۔دلّی میں جب عصمت چغتائی پطرس سے ملیں۔ تو یہ ان دنوں آل آنڈیا ریڈیوکے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ عہدے کا بھی رعب تھا اور پھر یہ تھے بھی پطرس مقابل میں بھی عصمت تھیں۔ ایک ادیبوں کا امام، ایک ”ادیبنیوں “کی امام۔مرحوم نے تابڑ توڑ کئی خوب صورت فقرے کہہ ڈالے۔ عصمت چُپ خاموشی سے سنتی رہیں۔ جب پطرس ذرا تھمے تو عصمت نے کہا، آپ کے یہ سارے فقرے میں پہلے بھی سن چکی ہوں۔ کوئی نیا فقرہ کہئے۔معلوم نہیں یہ دو بڑے ذہنوں کی زور آزمائی بھی، چھیڑ چھاڑ تھی یا افسانہ، عصمت بہ فضل تعالیٰ زندہ ہیں۔ اگر انہوں نے مجھے اس واقعہ کے غلط یا صحیح ہونے کے بارے میں لکھ دیا تو وہ آپ کو بھی بتا دوں گا ویسے آپ اسی شمارے کا بھی مضمون پڑھ لیں یہ واقعہ ممکن تو ہے پطرس بھی بلاعصمت بھی بلا۔ویسے یہ واقعہ ہے کہ پطرس عصمت سے بہت متاثر تھے۔ مرحوم نے عصمت پر ایک بڑے زور کا مضمون لکھا تھا۔ پاکستان ٹائمز میں عصمت کے مضمون ”ہیروئن“ کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ دوستوں میں بیٹھ کر عصمت کے فن کی تعریف کی۔
پطرس کے مزاج میں اپچ ہی اپچ تھی۔ زندگی کے عام چلن میں، کبھی یہ یکسانیت ہی یکسانیت سے اکتا بھی جایا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کالج کے زمانہ میں، انہوں نے دیا سلائی کی ڈبیاں چرانے کی ایک سوسائٹی بنائی۔ دوستوں سے سگریٹ سلگانے کے لئے دیا سلائی مانگتے، سگریٹ سلگاتے، ماچس جیب میں ڈال لیتے۔ شام کو باقاعدہ حساب ہوتا ۔ بخاری کی جیب میں باقی ممبروں سے زیادہ ڈبیاں برآمد ہوتیں۔ حتیٰ کہ یہ اپنے پروفیسروں تک کی ڈبیاں صاف کر دیا کرتے تھے۔ سالک صاحب راوی ہیں کہ ایک بار انہوں نے اپنے ایک پروفیسر سے ماچس مانگی۔ سگریٹ سلگانے کے بعد، جونہی انہوں نے ڈبیا جیب میں ڈالی۔ پروفیسر نے چلا کر کہا۔ بخاری خدا کے لئے میری ماچس نہ چراؤ۔ بخاری نے ماچس واپس کر دی۔ اور اس دن سے یہ سوسائٹی بھی توڑ دی۔ آرٹ پر آنچ جو آگئی تھی۔کالج کے زمانے کے بعد بعض شرارتوں کا ذکر، انہوں نے اپنے مضمون ”ہوسٹل میں پڑھنا“ میں کیا ہے۔ یہاں ان کا اعادہ اُن طبیعتوں پر بار ہوگا جن ”مظلوموں“ نے وہ کتاب پڑھی ہے اور بار بار پڑھی ہے۔عابد صاحب نے بتایا ایک رات میں، حسرت، تاثیر، صوفی اور پطرس موٹر پر گھوم رہے تھے۔ رات اپنے شباب پر آرہی تھی کہ ہم میں سے کسی نے کہا۔ پیاس لگی ہے۔ لیمو نیڈ پیا جائے کچھ کچھ دکانیں کھلی تھیں۔ جن میں ایک سگریٹ والا بھی تھا۔ اس کے پاس لیمونیڈ تھی۔ بخاری صاحب نے ان پینے والوں سے پوچھا ”پیسے ہیں آپ حضرات کے پاس“ جیبیں ٹٹولی گئیں تو سب کی کُل پونجی سوا چھ آنے نکلی۔سب موٹر ہی میں بیٹھے رہے۔ پانچ لیمونیڈ کا آرڈر دیا گیا۔ جب سب پی کر ڈکار لے چکے تو بخاری صاحب دکاندار سے کہنے لگے۔ بڑے میاں! یہ لوگ شریفانہ لباس میں ضرور ہیں مگر ہیں سب کے سب آوارہ اُچکّے، ان کی جیبوں میں پھوٹی کوڑی نہیں۔ ان لفنگوں کی دوستی میں، مجھ جیسے شریف آدمی کا بھی حال پتلا ہوگیا ہے۔ بہرحال ہم اس وقت آپ کے سوا روپے کے مقروض ہیں۔ اعتبار کر لیں تو یہ رقم کل تک پہنچا دوں گا۔ اگر آپ کو میری بات پر اعتبار نہ ہو تو میری ۲۵ ہزار کی گاڑی کل تک کے لئے گروی رکھ لیں۔ ہم آپ کا سوا روپیہ دے جائیں گے تو اپنی موٹر لے جائیں گے۔ابھی دکان دار فیصلہ ہی کر رہا تھا کہ موٹر گروی رکھ لوں یا اعتبار کر لوں۔ بخاری صاحب نے موٹر اسٹارٹ کر دی۔ دکان دار ہکا بکا رہ گیا۔ ضرور سوچتا ہوگا پانچواں بھی اُچکا نکلا۔ (ویسے دوسرے دن یہ رقم مع سود کے ادا کر دی گئی تھی)
ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب یہ آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل تھے انہوں نے ایک گٹار خریدا اور اپنے ایک دوست کو ساتھ لے کر دلّی کی نواحی بستیوں میں گھر گھر جا کر یہ صدا دی۔”بابا الله کے نام پر کچھ ملے گا“۔”ہم دونوں بھائی کل رات سے بھوکے ہیں“۔”بھلا کر بھلا ہوگا“۔”اپنے بچوں کے صدقے میں ہمیں کھانا کھلادو“۔معلوم ہے ان کا ساتھی کون تھا؟ سابق گورنر جنرل پاکستان غلام محمد!
پطرس کے یہ مشغلے عجیب ضرور تھے مگر ان میں زندگی سے پیار اور اس سے لطف اندوز ہونے ہی کے تو سارے رنگ روپ ہیں۔ مرحوم کو معلوم تھا۔ زندگی بڑی نعمت ہے۔ اسے ہر رنگ میں بسر کر دیکھو۔ میرا خیال ہے وہ دنیا سے، اپنی کوئی حسرت ساتھ لے کر نہیں گئے، کوئی بھی حسرت، سوائے لکھنے لکھانے کے۔
تاج صاحب نے مجھے بتایا۔ ایک بار حفیظ جالندھری، پطرس سے ناراض ہوگئے۔ دوستوں کی ناراضی پطرس سے دیکھی نہ جاتی تھی۔ بے چین اور بیکل رہتے تھے۔ چنانچہ ایک دن کہنے لگے حفیظ مجھ سے ناراض ہے۔ چلو اسے چل کر منائیں۔ چنانچہ وہ پطرس، حفیظ صاحب کے ہاں پہنچے۔پطرس نے جاتے ہی کہا حفیظ میری خطائیں معاف کر دو میں آج معافی ہی مانگنے آیا ہوں۔ پطرس نے ہر ہر انداز سے چاہا، حفیظ کی ناراضی ختم ہو مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ مرحوم آزردہ ہو کر لوٹے۔کوئی آٹھ دس دن ہوئے حفیظ صاحب میرے دفتر آنکلے۔ میں نے اس واقعہ کے بارے میں استفسار کیا۔ فرمانے لگے۔ ”تم نے جو کچھ سنا ہے ٹھیک سنا ہے۔“”آخر بات کیا تھی؟“”تمہیں کیا بتاؤں طفیل، بخاری میرا دوست تھا جگری دوست، اس جیسا آدمی پاکستان نے پیدا ہی نہیں کیا۔ ذہانت اس پر ختم تھی دوستانہ حقوق کی بجا آوری میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہ تھا۔ مگر…۔”مگر کیا؟“”وہ کم بخت پاکستان کی بعض ایسی شخصیتوں کی صلاحیتوں کا منکر تھا جو میرے نزدیک واجب الاحترام تھیں۔“حفیظ صاحب کہنے کو تو یہ فقرہ کہہ گئے میں نے بھی سن لیا۔ مگر میں اسے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ اس لئے کہ کوئی بڑا آدمی، اگر دوسرے کی بھی بڑائی کا اقرار کر لے تو اس کی اپنی بڑائی پر حرف آجاتا ہے یا وہ سمجھ لیتا ہے کہ حرف آگیا۔ یہ بھی امکان ہے کہ اس معاملے میں، پطرس کی نظر ہی چوک گئی ہو اور انہوں نے ان بزرگوں کو سمجھنے میں بھی غلطی کی ہو۔ مگر ان کی تحریروں، تقریروں اور خطوں سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی۔ برخلاف اس کے پاکستان کی بقاء کے لئے مرحوم کے کارنامے انمٹ ہیں۔ دنیا میں ان کی حب الوطنی کا شہرہ رہا۔ یو۔ این۔ او کی درو دیوار مرحوم کی پاکستان دوستی کی قسمیں کھانے کو تیار ہیں میرے دعوے کی تصدیق میں، اس ناچیز کی پیشکش میں بھی بہت کچھ ملے گا۔ ایک جگہ نہیں۔ کئی جگہ۔
بخاری صاحب کو کوئی باتوں سے جیت لے یہ ناممکن تھا۔ آغا اشرف بتاتے ہیں کہ لیک سکس میں بخاری صاحب کا جب پہلی پریس کانفرنس سے واسطہ پڑا تو یہ چہرے سے نڈھال نظر آئے۔ بخاری صاحب کو بھی معلوم تھامیری زندگی اور موت کا فیصلہ آج ہی ہونے والا ہے۔ چنانچہ یہ اپنی جگہ پورے چوکس تھے۔ہندوستانی اخبار نویسوں کو سوجھی، بخاری کا جلوس آج ہی نکال دیا جائے۔ چنانچہ وہ سب بڑھ چڑھ کر سوال کر رہے تھے عین ممکن تھا کہ ان کے پاؤں اکھڑ جاتے۔ مگر ادھر قدرت نے بخاری کو قوتِ گویائی کی غیر معمولی صلاحیتیں عطا کی تھیں۔ اکھڑتے تو کیسے اکھڑتے۔ یہ پے درپے اپنی لسانی اور مزاحی خوبیوں سے ہندوستانی اخبار نویسوں کو چت کرتے رہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا۔ پاکستان تو ہندوستان سے تعاون کرنا چاہتا ہے مگر ہندوستان ہی راہِ راست پر نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے وقت یہ طے ہوا تھا کہ پاکستانی فوج کو مشترکہ ذخیروں سے کئی ہزار جوتے دیئے جائیں۔ جوتے دیئے ضرور گئے لیکن جب صندوق کھولے گئے تو سارے جوتے بائیں پاؤں کے نکلے۔ دایاں پاؤں ایک نہ تھا۔
یہ اور اس کے قسم کے ہزاروں واقعات ہیں جو بخاری صاحب کی غیرمعمولی ذہانت وفطانت کے مظہر ہیں۔ کوئی ان کا کہاں تک ذکر کرے۔ صوفی غلام مصطفی صاحب تبسم راوی ہیں کہ فسادات کے دنوں میں امتیاز علی تاج بڑے ہی گھبرائے ہوئے تھے۔ ایک شام سالک، بخاری اور میں اس کے گھر گئے تو تاج کو بے حد خوفزدہ پایا۔ وہ بخاری سے کہنے لگے اب کیا ہوگا۔ بخاری صاحب نے کہا۔ کچھ بھی نہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ ہم لوگ یا تو پنیک میں رہتے ہیں یا (Panic) پینک میں، سب ہنس پڑے۔ تاج صاحب میں بھی زندگی کے آثار نظر آئے۔
بخاری صاحب غالب کے بڑے مداح تھے۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ غالب کا خیال ہے کہ انسان حیوانِ ناطق ہے لیکن غالب خود حیوانِ ظریف تھے۔ میرا خیال ہے کہ اس سلسلے میں بخاری غالب کے ہم پلہ تھے بلکہ اس سے بھی دو ہاتھ آگے۔ ان کے سب ہی دوستوں کو ان کے متعدد لطیفے اور قصے یاد ہیں۔مجید ملک نے ایک دفعہ بخاری سے کہا کہ آپ اپنے مضامین کا ایک مجموعہ چھپوائیں اور اس کا نام صحیح بخاری رکھیں۔ بخاری نے بےساختہ جواب دیا۔ عزیز من! آپ اپنی نظموں کا مجموعہ چھپوائیں اور اس کا نام ”کلام مجید“ رکھیں۔ایک بار ایک صاحب نے بخاری صاحب سے پوچھا ”بخاری صاحب آج کل آپ کچھ لکھ رہے ہیں؟“بخاری صاحب نے جواب دیا ”یہ سوال ایسا ہی ہے جیسے کسی عورت سے پوچھا جائے تو حاملہ ہے؟“اگر کوئی بخاری صاحب کے لطیفے، چٹکلے لکھنے ہی پہ آجائے تو پھر وہ لکھتا ہی چلا جائے گا۔ ایک دو نہیں، ہزاروں لطیفے (واقعی ہزاروں لطیفے) اگر میں نے اس سلسلے کو یہیں ختم نہ کیا تو بہت ممکن ہے یہ حصہ بخاری صاحب کی شخصیت پر چھا جائے اور خود بخاری صاحب چھپ جائیں۔ اس لئے یہیں چپ ہوتا ہوں۔
بخاری صاحب کو ڈرامے سے بڑی دلچسپی تھی۔ اس کے فن سے بھی کما حقہ واقف تھے۔ جس کا ذکر اور کئی جگہوں پر آئے گا۔ جب تک یہ گورنمنٹ کالج میں رہے۔ کالج کی ڈرامیٹک کلب زوروں پر رہی۔ خوب خوب داد حاصل کی۔ ضرورت پڑتی تو خود بھی ڈرامے کا کردار بن جاتے اور لوگ بخاری کی ایکٹنگ دیکھ کر دنگ رہ جاتے ان کا ارادہ تھا پختہ ارادہ کہ ڈرامہ کے فن پر ”ایک مبسوط کتاب لکھیں۔ یہ اس ضمن میں اور دوستوں کو پکارتے رہے کہ میرا ساتھ دو تاکہ ایک کام ہو جائے مگر یہ خواہش ان کے ساتھ اس لئے دفن ہوگئی کہ ان کا کوئی دوست آگے نہیں بڑھا تھا“۔اور بھی کئی تخلیقی کام کرنا چاہتے تھے۔ جن میں ایک بچوں کے لئے درسی کتابیں لکھنے کا پروگرام تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ بچوں کے لئے ایسی درسی کتابیں لکھی جائیں کہ پھر مدتوں ان کی یاد بھلائی نہ جا سکے۔ اسی ارادے سے انہوں نے ایک اسکیم بنائی جو کسی وجہ سے بار آور نہ ہوئی۔ایک کتاب ایڈٹ بھی کر رہے تھے۔ نام تھا اس کا A Study of Pakistan کئی ابواب میں اسے تقسیم کیا۔ جو بھی جس موضوع پر کام کی چیز لکھ سکتا تھا۔ اسے اس کام کی تکمیل کے لئے پکارا۔ ادبی رحجانات پر خود لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر یہ کام بھی تکمیل کو نہ پہنچا۔ غرض بہت کچھ کرنے کے ولولے تھے جو ساتھ لے گئے۔ اگر وہ آخری عمر میں پاکستان سے باہر نہ جاتے تو وہ کچھ نہ کچھ کر گزرتے۔ وہ اسی خوشی میں زندگی بسر کرتے رہے کہ کچھ کریں گے۔ اگر انہیں یہ یقین ہوتا کہ کچھ نہیں کر پائیں گے اور چل دیں گے تو یقیناً ان کا اس سے پہلے انتقال ہوجاتا۔
اصل میں بخاری صاحب ادب ہی کے لئے سب سے زیادہ موزوں تھے۔ مگر زندگی کی اڑان میں وہ اس طرف توجہ نہ کر سکے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں جتنے بھی صاحبِ اختیار تھے ان میں بھی کوئی ایسا دیدہ ور نہ ہوا۔ جو بخاری کی شخصیت کو پہچان لیتا اور ان سے ادب کے سنوارنے ہی کا کام لے سکتا۔بخاری صاحب اپنی آخری عمر میں پنجاب یونیورسٹی کی وائس چانسلری کے لئے کوشاں رہے مگر انہیں وہ بھی نہ ملی۔ یہ بخاری صاحب کے ساتھ ظلم نہیں تو کیا تھا۔ یہ بات ان کے لئے تو باعث فخر نہ تھی کہ وہ کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوتے بلکہ اس یونیورسٹی کی خوش قسمتی تھی جس کے وائس چانسلر بخاری صاحب ہوتے۔ایک دو واقعات، جناب شورش کاشمیری نے بھی خوب سنائے جیسے شورش صاحب ہیں۔ ویسے ہی یہ واقعات، یعنی ہمت وشجاعت کے قصے مرحوم کی مردانگی کے ایسے واقعات پر اور کسی نے روشنی نہیں ڈالی۔ایک زمانہ میں، ایک اخبار نویس کا کام یہ تھا کہ وہ بخاری صاحب کے خلاف لکھا کرتا اور جی بھر کے لکھا کرتا تھا بخاری صاحب پہلے تو دل کو بہلاتے رہے کہ کسی دن یہ الله کا بندہ خود ہی راہ راست پر آجائے گا۔ جب مایوس ہوگئے تو ایک دن اس اخبار کے دفتر جا پہنچے۔اخبار کے ایڈیٹر، کرسیٴ ادارت پر براجمان تھے۔ انہوں نے اس کے کان میں کہا مجھے آپ سے علیحدگی میں ایک کام ہے۔وہ صاحب سمجھے کام بنا۔ آج ضرور اپنی کارگزاریوں کا معاوضہ ملے گا۔ خوش ہو کر اُٹھے۔ من میں ہزاروں کی سوچ لی۔جب بخاری صاحب اور جناب ایڈیٹر صاحب ایک الگ کمرے میں پہنچے تو انہوں نے دروازہ بند کرکے چٹخنی چڑھا دی۔ منہ سے کچھ نہ بولے بڑے اطمینان سے اس کے منہ پر زور سے چانٹا رسید کیا۔ ایک ادھر ایک اُ دھر۔ اس کے بعد چٹخنی کھولی اور یہ کہتے ہوئے سیڑھیاں اُتر گئے اب اطمینان سے بیٹھا لکھتا رہ۔
متحدہ ہندوستان میں، جب انگریز ہی کا طوطی بولتا تھا۔ خلافِ حکومت سرگرمیوں کے سلسلے میں حاکمانِ وقت کو ارونا آصف علی کی تلاش ہوئی وہ روپوش ہوگئیں۔ یہ بھی ان ہی دنوں کا قصہ ہے جب بخاری صاحب ریڈیو کے ناخدا تھے۔ریڈیو پر روز اعلان ہوتا۔ ارونا آصف علی کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں۔ جو صاحب ان کا اتہ پتہ بتائیں گے۔ انہیں انعام دیا جائے گا۔ یہ اعلان ایک دن نہیں ہوا کئی دن ہوتا رہا۔جو محکمہ لوگوں سے یہ کہتا تھا کہ ارونا آصف علی کا پتہ بتانے والے کو انعام دیا جائے گا۔ اسی محکمہ کے ناخدا کے گھر ارونا آصف علی رہتی تھیں۔آصف علی سے مرحوم کے مخلصانہ تعلقات تھے۔ یہ واقعہ ایک طرف تو حق دوستی کی آخری حد ہے اور دوسری طرف جرأت وہمت کی ایک عجیب داستان!
بخاری صاحب نے زندگی بھر اپنے دوستوں سے ٹوٹ کر ہی محبت کی اور نبھائی۔ برخلاف اس کے ان کے دوست اتنے عاشق ثابت نہ ہوئے۔ اپنے خطوں میں انہوں نے کیا کیا گلے نہیں کئے۔ اس کی ایک نفسیاتی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مرحوم کو چھوٹے چھوٹے کئی عارضے تھے۔ اس پر کینسر جیسی خوفناک بیماری، موت ان کے سامنے مدتوں ناچتی رہی۔ مگر یہ آنکھیں چرائے، دل کو طرح طرح سے بہلاتے رہے۔ بالآخر اس جیالے، مخلص اور عالم کو موت نے آن ہی دبوچا آج یہاں سوگ ہے۔ عرش پر جشن ہوگا۔
یہ مانگے تانگے کا مضمون ضرور ہے۔ مگر ”مستند ہے میرا فرمایا ہوا“ کی قسم بھی کون کھائے!
* * *