(آغا بابر)
جس قلم سے آج یہ چند منتشر خیالات خراج عقیدت کے طور پر پروفیسر بخاری مرحوم کی نذر کررہا ہوں، یہ قلم چلانا انہوں نے ہی سکھایا تھا۔ وہ میرے استاد تھے۔ مشفق تھے۔ زندگی کی جنگ لڑنے کا اعتماد، حوصلہ نہ ہارنے کا جذبہ سب کچھ انہیں کی تہذیب وتربیت کا نتیجہ تھا۔ ان کی ناگہانی موت سے خیالات اس طرح پریشان ہیں کہ کیا لکھوں کیا نہ لکھوں کا رشتہ ترتیب قلم کے قابو سے باہر ہے۔ دماغ میں جو کچھ آرہا ہے جس ترتیب سے آرہا ہے اسی طرح پیش کر رہا ہوں:
خاطر مسلسل است پریشاں چوں زلفِ یار
عیبم مکن کہ در شب ہجراں نوشتہ ام
گورنمنٹ کالج لاہور ہندوستان میں سب سے بڑی اور سب سے پرانی درسگاہ تھی۔ اس کی تعلیم کا ڈھنگ، علمی وادبی صحبتیں اور پروفیسروں کی قابلیت کا شہرہ دور دور تھا۔ لڑکے اس درسگاہ سے منجھ کر نکلتے۔ انہیں بھی فخر ہوتا اور پروفیسروں کو بھی۔ جب فرسٹ ائیر میں یہاں داخل ہوا تو پروفیسر بخاری انٹرویو بورڈ میں تھے بلکہ بورڈ میں انہیں کی رائے چلتی تھی۔ گردن میں آپریشن ہونے کی وجہ سے ایک گڑھا سا پڑتا تھا۔ جس کی وجہ سے نسیں کھنچی رہتیں۔ شکل وصورت ایرانیوں کی سی تھی۔ ان دنوں مسٹر گیرٹ پرنسپل تھے۔ پروفیسر بخاری کی وضع قطع، باتیں کرنے کا ڈھنگ، لباس اور اطوار سے یورپینی انداز ٹپکتا۔ کسی پروفیسر کی کیا مجال کی گیرٹ کے کمرے میں سگریٹ پیتے ہوئے گھس جائے۔ مگر پروفیسر بخاری جب پرنسپل کے کمرے میں جاتے تو ہم 'کی ہول' (Key Hole) میں سے دیکھتے۔ گیرٹ کے سامنے وہ کھڑے سگریٹ پیتے۔ دھواں نتھنوں سے نکلتا۔ کبھی کش لیتے تو دھواں منہ سے نکلتا نہ نتھنوں سے۔ باتیں کر رہے ہیں دھواں غائب اتنی دیر میں دھواں نتھنوں سے نکلتا پھر منہ سے۔ یہ تماشا سرکس میں دیکھا تھا۔ گورنمنٹ کالج کے چوٹی کے پروفیسر کا یہ انداز اپنے اندر عجیب وقار، حسن، اور کشش لئے ہوئے تھا۔ پروفیسر بخاری بی اے کو ڈرامہ پڑھاتے تھے۔ میری بڑی خواہش تھی کہ میں ان کی باتیں سنوں۔ ان کی صحبت میں بیٹھوں۔
اردو مجلس کے وہ صدر تھے۔ اجلاس ان کے مکان پر ہوتے تھے۔ وہ ان دنوں میکلوڈ روڈ پر عطر چند کپور بلڈنگ میں رہتے تھے۔ پہلی دفعہ مجھے وہیں پروفیسر بخاری کی باتیں سننے کا اتفاق ہوا۔ فلیٹ کے برآمدے کی آرائش اور ڈرائنگ روم کی سجاوٹ ہر شے میں مغربی انداز جلوہ گر تھا۔ اس مغربی ماحول میں اردو مجلس کی میٹنگ پھر گفتگو کا انداز اتنا بےتکلف، سب کے ساتھ خلوص آمیز میل ملاپ۔ اس مجلس میں سید امتیاز علی تاج اور سالک صاحب بھی موجود تھے۔ ان سے بخاری گفتگو کرتے تو بات بات کے ٹکراؤ سے عجب پھلجھڑیاں اور شرارے پھوٹتے۔ تین گھنٹے کی مجلس رہی، مگر وقت گزرنے کا پتہ نہ چلا۔
ان کی ذات میں مشرق ومغرب کا جو لطیف امتزاج موجود تھا پہلی صحبت ہی میں آدمی اس سے متاثر ہوتا۔ کمال تو یہ تھا کہ وہ بڑے سے بڑے اہم اور سنجیدہ مسئلے پر بحث کرتے ہوئے کس طرح مزاح وظرافت سے اسے حل کرکے رکھ دیتے تھے۔ ان کے مزاج کی آراستگی ساری محفل کو گرما دیتی۔ ان کی شخصیت میں ایک ایسی گرفت تھی کہ خواہ مخواہ طبعتیں کھنچی چلی آتیں۔وہ ان دنوں گورنمنٹ کالج کی تہذیبی سرگرمیوں کے روح رواں تھے۔ گھر پر اردو مجلس کی کھیتی کو سینچ رہے تھے۔ راشد اور فیض کو جدید شاعری کے گل بوٹے سجانے پر شاباشیاں مل رہی تھیں۔ شام کو انگریزی ڈرامے 'دی مین ہو ایٹ دی پوپو میک' (The Man Who Ate The Popomack) کا ریہرسل کرا رہے ہیں۔ انگریزی مباحثوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ ادب اور فلسفہ پر لیکچر تیار کررہے ہیں۔ پھر آستینیں چڑھی ہوئی ہیں، ہاتھ گرد آلود، ڈرامے کی سیٹنگ کا ٹھونکا ٹھانکی ہورہی ہے۔ وقت کے ایک ایک لمحے سے اس کا اس طرح رس نچوڑ رہے ہیں کہ وقت اپنی تہی دامنی پر نادم ہے۔ ان کے کام کرنے کا طریقہ اتنا خوش آئند ہوتا کہ دیکھنے والوں میں بھی تکمیل کار کا ایک ولولہ جاگ اُٹھتا۔ جو لوگ ڈرامے کا ریہرسل دیکھنے آتے وہیں کے ہو رہتے۔ وہ لڑکوں کو یونیورسٹی ڈی بیٹ کے لئے تیاری کراتے تو لڑکوں کا یہی جی چاہتا کہ وہ بس ڈی بیٹ ہی کو زندگی کا مسلک بنا لیں۔ یہ بخاری صاحب کے خلوص کار کے کرشمے تھے۔
صوفی تبسم اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ : ”بخاری کا مقولہ ہے کہ کسی کام کی صحیح تکمیل کے لئے انسان میں محض شوق نہیں بلکہ چسکا ہونا چاہئے چنانچہ وہ جب بھی کسی کام کو کرتے ہیں تو ایسے ذوق وشوق سے کرتے ہیں، گویا انہیں اس کام کا چسکا ہے“۔ان کا اپنے شاگردوں سے بڑا مشفقانہ برتاؤ ہوتا تھا، کلاس میں بھی اور کلاس سے باہر بھی۔ اس کے باوجود ان سے جی ڈرتا۔ وہ اس لئے کہ جہاں کوئی اصول کی بات آجاتی وہ معاف نہ کرتے، ڈانٹ پڑجاتی۔ میں نے بی اے میں ان سے ڈرامہ پڑھا، شیکسپیئر کے وہ عاشق تھے۔”ہملٹ“ ہمارے نصاب میں تھا۔ جہاں پلونیئس لی آرٹینر کو تقریر کرتے ہوئے عقل ودانش کی باتیں سمجھاتا ہے جو انسانی زندگی اور دنیوی تجربوں کا نچوڑ ہیں۔ اس مقام پر شیکسپیئر نے جو باتیں سمجھائی ہیں ان کے متعلق پروفیسر بخاری ہمیں نوٹس لکھوانا چاہتے تھے۔ ہم نے اپنا اپنا قلم سنبھالا۔ اصغر (اب کمانڈ کنٹرولر راولپنڈی) میرے دائیں ہاتھ بیٹھتا تھا۔ اس نے موٹا سا پیلے رنگ کا قلم نکالا۔ نوٹ بک پر اس روز کی تاریخ لکھی۔ اور میری نوٹ بک کی طرف دیکھنے لگا میں نے اپنے قلم سے تاریخ لکھنی چاہی تو قلم نے لکھنے سے انکار کر دیا۔ میں نے اصغر کی طرف دیکھا پھر قلم کو انگلی سے ذرا ٹھونک کر لکھنا چاہا۔ قلم نے نہ لکھا۔ میں نے اصغر کو زور سے کہنی ماری اور کہا۔
”ادہر مت دیکھو میرے قلم کو نظر لگ رہی ہے“۔
پروفیسر بخاری نے مسکرا کر منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ہم اگلی بنچوں پر بیٹھا کرتے تھے۔ دو سال ہوئے میں نے اپنے افسانوں کا تازہ مجموعہ ”لب گویا“ ن۔م۔راشد کے ہاتھ بخاری صاحب کو نیویارک بھیجا۔ میں نے اس پر لکھا۔۔ اپنے نالائق شاگرد کی طرف سے یہ کتاب قبول فرمائیے جو اگلی بنچوں پر اس لئے بیٹھا کرتا تھا کہ آپ پچھلی بنچوں پر بیٹھنے والوں سے سوال پوچھا کرتے تھے“۔۔ بخاری صاحب مسکرا کرکتاب دیکھنے لگے اور اگلے روز نئے سال کا کارڈ مجھے روانہ کیا جو اس وقت میرے سامنے موجود ہے، ہملٹ کا وہ نسخہ بھی جو پروفیسر بخاری ہمیں پڑھایا کرتے تھے میرے پاس موجود ہے۔ حقیقت میں تو ہمارے پاس ان کے وہ تحفے ہیں جن کو ہم نے زندگی بھر اپنائے رکھا ہے۔ یہ لکھنے کا روگ جو ہم طالب علمی کے زمانے سے پال رہے ہیں انہیں کی بخشش ہے۔ ڈرامے کا شوق بلکہ چسکا انہیں کا دیا ہوا ہے۔ جذبات کی یہ آگ جس نے استخواں تک کو جلا دیا ہے اور ابھی ”آرزوئے سوختن باقیت“ انہیں کا کرشمہ ہے انہوں نے ن۔م۔راشد کی حوصلہ افزائی کی۔ فیض کی کمر ٹھونکی۔ آغا عبدالحمید (سی ایس پی) بشیر قریشی (سی ایس پی) علی اصغر (سی ایس پی) رشید احمد (ڈپٹی ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان) اور مظہر علی خاں (سابق ایڈیٹر پاکستان ٹائمز) پروفیسر بخاری کے وہ شاگرد ہیں جن کی علمی استعداد اور ادبی تہذیب وتربیت بخاری صاحب کی شخصیت کا پر تو ہیں۔ وہ روشنی کا چراغ جس سے ہزاروں چراغ جلے۔ سینکڑوں نے اکتساب نور کیا۔ آج اپنی لو ختم کر چکا۔۔پرانے وقت تابڑ توڑ ذہن پر وارد ہورہے ہیں جن سے اپنے استاد کی تعظیم وتکریم میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس عظیم انسان کا وقار فضیلت بڑھ رہا ہے مرحوم کی شخصیت کا ایک پیارا پہلو یاد آیا۔ اصغر حسین قلعہ گوجر سنگھ میں رہتا تھا۔ پروفیسر صوفی تبسم نے کہا ”تم میکلوڈ روڈ سے گزرتے ہوئے بخاری صاحب کے ہاں چلے جانا اور ان سے کہنا کہ آج شام کو چھ بجے اردو مجلس کی میٹنگ ان کے مکان پر ہوگی“۔اصغر نے عطر چند کپور بلڈنگ کے ساتھ بائیسکل رکھا۔ سیڑھیاں چڑھ کر اُوپر پہنچا۔ دروازہ اندر سے بند۔ بجلی کی گھنٹی کا بٹن دبایا۔ کوئی جواب نہ آیا۔ اس نے انگلی رکھ کر بٹن کو زیادہ زور سے دبایا۔ پھر بھی کوئی جواب نہ آیا۔ اب وہ انگلی رکھ کر دباتا ہی چلا گیا۔
بخاری صاحب ڈریسنگ گاؤن پہنے ہوئے آئے۔ دروازہ کھول کر بولے ”جو گھنٹی کے بٹن کے اوپر لکھا ہے تم نے پڑھا۔“وہاں لکھا ہوا تھا ”Be Brief And Patient“اصغر کچھ نہ بولا۔ انہوں نے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا ”No Mistake in Future“ اور چلے گئے۔ اصغر حیران کہ اچھا پیغام دینے آئے کہ الٹی ڈانٹ کھا لی اور اس مرد خدا نے پوچھا تک نہیں کہ کیوں آئے کیا بات ہے؟اصغر نے گھنٹی کو زور سے بجایا۔ سیڑھیاں اترا۔ بائیسکل لیا اور بھاگ گیا۔ اگلے دن پروفیسر بخاری کے پیریڈ میں اصغر کا دل دھڑک رہا تھا کہ وہ حاضری لے رہے تھے جب نمبر ۱۵۶ بولا تو رک گئے۔ اصغر کا برا حال، بخاری نے رجسٹر سے نظر اٹھائی۔ اصغر کی طرف دیکھا۔ ذرا سا ڈرمائی وقفہ دے کر بولے۔ ”I Liked It“
اور حاضری لینے لگے۔اسی زمانے کی بات ہے۔ یونیورسٹی سے کہہ سن کر پروفیسر نے کالجوں میں پراکٹوریل سسٹم رائج کرایا۔ طلباء کو شناختی کارڈ رکھنے کا حکم دیا گیا۔ نو بجے سے اوپر بغیر اجازت نامہ کے طالب علم گھر سے باہر نہیں رہ سکتا تھا۔میں ایک دن پکڑا گیا۔میں اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی کے ساتھ ایک کھانے پر مدعو تھا۔ انہوں نے مجھےگنڈیریاں لینے بھیج دیا۔ میں گوالمنڈی کے چوک میں گنڈیریاں تُلوا رہا تھا کہ ایک کار آکر رکی۔ بخاری صاحب بولے۔ ”اجازت نامہ؟“میں نے کہا ”میں تو…“بولے ”کل صبح“ اور چلے گئے۔میں نے عاشق صاحب سے اجازت نامہ لیا کہ میری اجازت سے باہر گیا تھا۔ مگر بخاری صاحب نے دس روپے جرمانہ کر دیا۔ بولے ”اس وقت تمہارے پاس اجازت نامہ کیوں نہیں تھا؟ تم نے اصول توڑا ہے“۔آج جب ہم اپنے بچوں سے اصول برتتے ہیں تو انہیں کیا معلوم کہ اس میں ہمارے پروفیسر کی تربیت بول رہی ہے ہم نے جو کچھ استاد سے سیکھا اگلی پود کو وہی کچھ دے رہے ہیں۔
گذشتہ جنوری میں وہ ڈھائی برس کے بعد رخصت لے کر امریکہ سے پاکستان آئے۔ راولپنڈی میں اپنے چھوٹے لڑکے ہارون کے پاس چند دن رہے۔ میں ملنے گیا۔ وہی پرانی گرم جوشی اور بزرگانہ شفقت، پوچھنے لگے ”سنا ہے تم نے پنڈی میں ڈرامے اسٹیج کئے ہیں“۔میں نے کہا ”آپ کی لگائی ہوئی آگ ابھی تک نہیں بجھی“یہ سن کر مسکرائے۔میں نے کہا ”لٹل تھیٹر گروپ آپ کو چائے کی پیالی پلانے کا خواہشمند ہے۔بولے ”میں ان تکلفات (Formalities) سے بڑا تھک گیا ہوں۔ تم بلاؤ تو آجاؤں گا۔ کراچی اور لاہور میں، میں نے کسی ادارے کی دعوت قبول نہیں کی۔میں نے کہا ”لٹل تھیٹر کو کوئی پیغام ہی دے دیں“۔بولے ”پیغام تو بڑے آدمی دیا کرتے ہیں“۔راولپنڈی میں انہوں نے اپنے شاگردوں اور مداحوں کے ساتھ ایک شام بسر کی۔ عابد علی کے ہاں تین گھنٹے محفل جمی اور گفتگو کے بادشاہ کو ہم نے پھر بلندیوں پر اُڑتے دیکھا۔ دل خوش ہوا کہ دل کے دوروں نے ابھی تک اس عظیم شخصیت کا کچھ نہیں بگاڑا۔ وقت سے زندگی کا پورا رس نچوڑ لینے والا یہ انسان ابھی زندہ رہے گا۔
وہ اپنے قیام کے دوران اپنے شاگردوں اور دوستوں سے پہلا سوال یہی کرتے رہے۔ کیا تم مطمئن ہونا؟“اس سوال کو اولیت دینے کی وجہ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان کا ہر شخص شاکی نظر آتا ہے۔ میں یہاں ایک عام فرسٹریشن دیکھ رہا ہوں بے دلی، بے اطمینانی اور محرومی کا احساس چاروں طرف دکھائی دے رہا ہے۔ لوگوں کی اپنی ذات میں دلچسپی انتہائی طور پر بڑھ گئی ہے۔ سب قوموں میں، میں نے یہ دیکھا ہے کہ ان کی قوم کا کوئی فرد امریکہ میں آئے تو وہ اس کی بےحد تعریف کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں یہ ہمارے ملک کا ممتاز اور قابل ترین فرد ہے۔ واحدپاکستانی ایسا شخص ہے جسے میں نے کبھی اپنے ملک کے فرد کی تعریف کرتے نہیں سنا۔ وہ تو دراصل یہ کہنا چاہتا ہے کہ ”سب سے ممتاز اور قابل ترین فرد تو میں ہوں“ یہ تو بس ایسوں میں سے ہی ہے۔ اگر کسی کو کوئی اچھا عہدہ مل جائے۔ کسی منصب پر کوئی جا پہنچے اور کسی پاکستانی سے کہا جائے کیوں بھئی وہ اچھے عہدے پر جاپہنچا؟ تو پتہ ہے وہ کیا جواب دیتا ہے۔۔ اوچھڈو جی… یہاں پھرا کرتا تھا!“ پھر میری طرف دیکھ کر بولے۔ کوئی اگر یہ کہے کہ بابر نے بڑا اچھا ڈرامہ اسٹیج کیا تو کہیں گے۔ اوچھڈو جی۔۔ کل ایتھے لگا پھرداسی۔
اس چھڈو جی میں ہماری کم ہمتی، محرومیوں اور اہلیتوں کی بہت بڑی جھلک موجود ہے۔ پاکستان چھوٹا سا ملک ہے آخر یہاں ہی کے لوگ اچھے عہدوں پر متمکن ہوں گے مگر اس پر کوئی دھیان نہیں دیتا۔ پاکستانی خود کچھ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ دوسرا اگر کچھ کرے اور اسے نیک نامی حاصل ہوجائے تو عام ردِ عمل یہی ہوتا ہے ”اوچھڈو جی“۔کہنے لگے امریکہ میں ایک بین الاقوامی تقریب پر چوہدری سرظفر الله خاں کسی سے تنبورے کا ذکر کر رہے تھے۔ کسی غیر ملکی نے پوچھا تنبورے اور تان پورے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ کہنے لگے ”چلو بخاری سے پوچھیں وہ آل انڈیا ریڈیو کا ڈائریکٹرجنرل رہ چکا ہے“۔میں نے کہا ”آل انڈیا ریڈیو کا ڈائریکٹر جنرل رہنا تبنورے اور تان پورے پر کوئی اتھارٹی نہیں ہوسکتا۔ آپ کی عمر کتنی ہوگی؟“بولے ”پینسٹھ سال“میں نے کہا ”جہاں آپ نے پینسٹھ سال تان پورے اور تنبورے کا فرق معلوم کئے بغیر گزار دیئے ہیں دو چار سال اور بھی گزار دیجئے۔
پروفیسر صوفی تبسم کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ پروفیسر بخاری کے رفیقوں میں سے ایک یونیورسٹی کے کسی رکن کی غلط کاریوں پر چیں بہ جبیں ہو رہے تھے۔ بخاری کہنے لگے ”بھائی صاحب میری دو باتیں یاد رکھو۔ زندگی میں کسی سے الجھنا ہو تو کسی بڑے مسئلے پر الجھنا چاہئے اور اپنے سے بڑے آدمی کے ساتھ الجھنا چاہئے ورنہ مزا نہیں آتا۔ انسان کی قوتیں اور کوششیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ کمزور آدمی کو دبانے میں کوئی شان نہیں۔ بڑے آدمی سے تصادم ہو تو انسان کی استعداد کار اور بھی چمکتی ہے۔ مجھے دیکھو میں نے ریڈیو کی ملازمت کے دوران ہمیشہ بڑے آدمیوں سے ٹکر لی ہے اور خدا کے فضل وکرم سے کامیاب رہا ہوں۔“
جب علامہ اقبال کے کلام کے سلسلے میں یوپی کے بعض اہل قلم کی طرف سے اعتراضات اُٹھنے لگے تو ”زندہ دلان“ پنجاب نے ان سے جو جنگ لڑی تھی بخاری اس میں پیش پیش تھے۔ٹکراؤ اور پھر استعداد کا حرکت میں آنا، یہ بات ان کے ڈرامے سے غایت درجہ شغف رکھنے کا ایک طبعی باعث قرار دی جا سکتی ہے اس طرح الجھنے اور ٹکرانے میں جو رکاوٹیں پیدا ہوتیں ان سے عہدہ برآمد ہونے کے لئے وہ کبھی تھکن محسوس نہ کرتے۔ میں نے انہیں ۱۹۵۳ء میں ہملٹ کا پارٹ ادا کرتے دیکھا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پروفیسر بخاری واقعی پرنس ہملٹ ہے۔ ڈرامائی ٹکراؤ، واقعاتی الجھاؤ، کرداری رکاوٹیں ہملٹ کا راستہ روکے کھڑی تھیں۔ اور وہ کس کس طرح ان سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ ہملٹ کے کردار کی جیتی جاگتی تصویر ہمارے سامنے آگئی۔
نیویارک کے جس ڈاکٹر کے وہ زیر علاج رہے وہ بھی شیکسپیئر کا بڑا دلدادہ تھا۔ مریض اور ڈاکٹر دیر تک اسی موضوع پر باتیں کرتے رہتے۔ عارضہٴ قلب میں مبتلا ہونے کے بعد پروفیسر بخاری جب بھی ڈاکٹر سے طبی مشورہ کرتے تو مسکرا کر پُرمعنی انداز میں ضرور پوچھتے۔ کب ڈاکٹر؟ بتاؤ تو سہی کب؟“نیویارک میں ملک ملک کے چوٹی کے اخباری نمائندے مقیم ہیں۔ وہ بخاری کی صحبت میں بیٹھنے کو بہت بڑا پُرمسرت اعزاز سمجھتے۔ ہر شخص ان کا مداح تھا۔ پروفیسر بخاری نے ایک بےچین اور مضطرب طبیعت پائی تھی۔ اس سیماب صفت انسان کا دماغ اس کے جسم سے اور اس کا جسم اس کے دماغ سے زیادہ تیز کام کرتا:
اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز وساز رومی کبھی پیچ وتاب رازی
موت کا فرشتہ دہلیز پر آکر بیٹھ گیا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا اگر تم چاہو تو میں حاضر ہوں۔ رات تمہارے پاس ٹھہرتا ہوں۔ صبح چلا جاؤں گا۔ پروفیسر بخاری نے کہا ”نہیں، نرس جو میرے پاس موجود ہے۔“ڈاکٹر نے مذاق سے کہا ”اچھا سویٹ پرنس شب بخیر“۔مگر یہ رات اس کی آخرت رات تھی۔ موت کے فرشتہ نے دہلیز الانگ لی۔بچے باپوں سے پوچھتے ہیں آج کون مرگیا، آپ اداس جو ہیں کون بتائے نئی پود کو آج وہ مرگیا جس نے کہا تھا۔ بچوں کو بہلانا سہل ہے بڑوں کا بہلانا سہل نہیں۔
پروفیسر بخاری کی شخصیت کی عظمت کا بہت پیارا پہلو یہ تھا کہ عام عالموں کی طرح علم کے اظہار وبیان کو وہ بوریت اور یبوست کی کوئی چیز نہ بننے دیتے۔ بلکہ اپنی فطانت اور ظرافت کے امتزاج سے اسے اتنا پُرمعنی اور پُرکشش بنا دیتے تھے کہ سننے والے کی سوچ کو تحریک بھی ہوتی اور ساتھ ہی ساتھ پھلجھڑیاں بھی بہار دکھاتی رہتیں۔ آج وہ اہل فکروہ دانشور ہم میں نہیں۔ جو فصحا میں بیٹھا تو فصاحت وبلاغت کے دریا بہاتا، لکھتا تو موتی پروتا، بولتا تو زندگی کی چاندنی اور شگفتگی بلائیں لینے آکھڑی ہوتی۔ بچوں سے باتیں کرتا تو سخت مزاج والدین منہ تکنے لگتے۔جذبات کی باریکیوں کو سمجھنے والا یہ حقیقت پسند، حقیقت نگار انسان، زندگی کو زندوں کی طرح گزارنے والا خوش ذوق وسخن سنج ادیب، پاکستان کا شہری نہیں دنیا کا شہری اپنی سرزمین سے دور جا لیٹا۔ جس کی فطانت، طباعی اور تحریر وبیان کے دلداد گان ملک ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ شہزادہ علی خان نے اس کی میت پر آنسو بہاتے ہوئے کہا کہ بخاری کی موت سے اقوام متحدہ کی لابیاں سنسان ہوگئی ہیں۔۔۔ ہائے ان آنکھوں میں کون جھانکےگا جو اس کی میت سے دور آنسو بہا رہی ہیں اور ان دلوں کا حال کون جانے گا جو یہاں ویران اور سنسان ہیں۔
نمی دانم حدیث نامہ چوں است
ہمیں بینم کہ عنو انش بخوں است
* * *