(فیض احمد فیض)
دوستی تندہی اورمستعدی کا نام ہے یارو، محبت تو یونہی کہنے کی بات ہے۔ دیکھو تو ہرروز میں تم میں سے ہر پاجی کو ٹیلیفون کرتا ہوں، ہر ایک کے گھر پہنچتا ہوں، اپنے گھر لاتا ہوں، کھلاتا ہوں، پلاتا ہوں، سیر کراتا ہو،ں ہنساتا ہوں، شعر سناتا ہوں، پھر رات گئے بار بار سے سب کو گھر پہنچاتا ہوں، سب بیویوں کی بددعائیں میرے حساب میں لکھی جاتی ہیں، آدھی تنخواہ پٹرول میں اڑ جاتی ہے، یعنی اول نقصان مایہ، مایہ نہیں مائع یعنی پٹرول، دوم شماتت ہمسائی، ارے یار یہ شماتت کیا لفظ ہے، ش۔ ما۔ تت کچھ پنجابی گالی معلوم ہوتا ہے نہیں" ....... قہقہہ۔
"کچھ تو خدا کا خوف کرودوستو۔ کسی کم بخت کو توفیق نہیں کہ کبھی خود ہی اٹھ کر جو چلاآئے۔ میں کوئی ٹیکسی ڈرائیور ہوں؟ شوفرہوں؟ میراثی ہوں؟ مجھے تنخواہ دیتے ہیں آپ؟ یا آپ میری معشوقائیں ہیں؟ برس پندرہ یا کہ سولہ کا سن ہے آپ کا؟ یا آپ کے ذہن مبارک سے حکمت و موعظمت کے وہ لعل و گہر برستے ہیں کہ اس ہیچمدان کا دامن گنج ہائے گران مایہ، اوئے مایہ، پٹرول والا مائع نہیں۔ دوسرا۔ عثمان نوٹ کرو، بلکہ تیسرا پنجابی والا، نون غنہ کے ساتھ، اوئے سمجھے آئی جے؟ (عثمان نوٹ کرو کی تلمیع کسی معمربزرگ کی جانب تھی جسے بخاری صاحب نجانے کب ملے تھے؟ روایت یہ تھی کہ ان بزرگ کے فرزند اکبر عثمان بھی سفید ریش اور کبر سنی کی منزل میں تھے لیکن بڑے میاں انھیں وہی طفل مکتب گردانتے اور انھیں اسی ڈھب سے خطاب کرتے۔ چنانچہ اگر محفل میں کسی نے کہا کہ میر صاحب وہ ڈپٹی کلکٹر آپ کو پوچھ رہے تھے تو میرصاحب کڑک کر بولے، "صحیح تلفظ ڈسیسیوٹی ہے،عثمان نوٹ کرو!" سمجھ آئی جے، کا قصہ میں نے انھیں سنا تھا اور مجھے خورشید انور نے، بھائی اسلامیہ ہائی اسکول میں کوئی ماسٹر صاحب تھے، جو تختہ سیاہ پر ریاضی کا کوئی مسئلہ حل کرنے کے بعد قریب قریب ہمیشہ اپنے طلبا سے پوچھتے "اوئے سمجھ آئی جے۔" اور لڑکے ہمیشہ جواب میں کہتے، "نہیں جی۔" اس پر ماسٹر صاحب بھنا کرایک موٹی سے گالی دیتے اور کہتے، "نہیں سمجھ آئی تو جاؤفلاں کی فلاں میں۔" بخاری صاحب سن کر لوٹ پوٹ ہوگئے کہنے لگے "یاراگر اسے یہی کہنا تھا تو پوچھتا ہی کیوں تھا؟" اس کے بعد عثمان نوٹ کرو کے ساتھ "سمجھ آئی جے" بھی ان کی محفل کے روز مرہ میں شامل ہوگیا۔
ان کی فریاد ابھی جاری تھی۔
"دیکھو یارو اگر میں تم میں سے کسی کو ٹیلیفون کروں کہ بھائی جان مجھے ہیضہ ہوگیا ہے، پلیگ کی گلٹی نکل آئی ہے، ڈاکٹر جواب دے گئے ہیں، لبوں پہ دم ہے، لله آکر منہ دیکھ جاؤ تو سو فیصدی یہی جواب ملے گا کہ موٹر میں آکر لے جاؤ....."
"ہمارے پاس موٹر موجود نہیں ہے"۔ تاثیر نے آہستہ سے کہا۔
"جی ہاں اور آپ ہر روز کالج تو میری ہی موٹر پر تشریف لے جاتے ہیں اور دن بھر جہاں جہاں بھی آپ حضرات جھک مارا کرتے ہیں، اس خاکسار ہی کے ساتھ تو جاتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ تم سب نہایت برے دوست ہو، کاہل، بے قاعدہ، بے سلیقہ، اگر میں اس شہر میں نہ ہوں تو تم مہینوں ایک دوسرے کی صورت بھی نہ دیکھو۔"
اور یہی ہوا بھی "ان کے اٹھتے ہی دگرگوں رنگ محفل ہوگیا" ادھر بخاری صاحب لندن اور میکسیکو روانہ ہوئے ادھر یہ بساط الٹ گئی۔ ان کی محفل شبینہ کا شیرازہ ایسا بکھرا کہ پھر کبھی یکجانہ ہو سکا۔ ۴۹ء میں وہ مختصر سے عرصے کے لئے لاہور لوٹے تو یہاں کی صورت احوال سے بہت رنجیدہ ہوئے۔ کہنے لگے "یار تم لوگوں نے سب چوپٹ کردیا ہے، اب ہم جائت ہیں " اور اس کے بعد ایسے گئے کہ اپنی مٹی بھی پردیس ہی کو سونپ دی۔"
بخاری صاحب کی شخصیت کا ہلکا سا نقش بھی قلم کی گرفت میں کب آتا ہے، یہ کام تو انھیں کے کرنے کا تھا۔ ہاں انھیں یاد کرنے بیٹھا ہوں تو یہی تندہی، مستعدی، قاعدہ اور سلیقہ طرح طرح سے یاد آتے ہیں۔ خوش وقتی کے لئے احباب کی محفل کا اہتمام تو شادی ایسی بڑی بات نہیں۔ اگرچہ ہم سے بیشتر اتنا بھی نہیں کرتے اور بخاری صاحب ایسی تندہی سے تو کوئی بھی نہیں کرتا لیکن وہ تو جو کچھ کرتے ایسے ہی ڈوب کرتے تھے۔ دفتر ہو یا گھر، تحریر ہو یا گفتگو ، دقیق علمی بحث ہو یا ہلڑ بازی۔
مغنی نے غزل شروع کی:۔
کجوائی دو چشمت بلا نشستہ
چوں قبیلہ گرد لیلیٰ ہمہ جابجانشستہ
تو اسی مطلع پر سحر ہوگئی، قوال اس شعر پر پہنچے۔
صد چاک شدہ سینہ وصد پارہ شدہ دل
دیں بےخبراں جامہ دریدن نگزارند
تو گھنٹوں وارفتگی کا عالم رہا۔ کوئی شعر، کوئی مصرع، کوئی ترکیب، کسی محراب کا خم، کسی کتبے کاخط ،کسی خوانچے والے کی آواز، کوئی محاورہ، کوئی گالی جہاں بھی دل کو وجدواہتزاز کا ذرا سا اشارہ ملا، اپنا واردات میں سبھی کو شریک کرلیا۔
دہلی کی جلتی ہوئی دوپہر میں کبھی بھٹک کر گھٹا آگئی تو جنگ عظیم، ہٹلر اور مسولینی، آل انڈیا ریڈیو، دولت مشترکہ انگلشیہ اور ایسے سبھی دفاتر یک لخت بے معین ہوگئے۔ دوستوں کے افسروں کو ٹیلیفون ہوئے کہ ڈائریکٹر جنرل آل انڈیا ریڈیو فلاں فلاں ثاحب سے بہت اہم گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ ہم بھاگم بھاگ پہنچے۔ بخاری صاحب دفتر میں دربار لگائے بیٹھے ہیں۔ آغا حمید، سید رشید احمد، غلام عباس، یا ایک آدھ اور، تاثیر پہنچے، مجید ملک آئے۔ میں گیا، بخاری صاحب کی مخصوص طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
"آئیے آئیے"، آپ کانفرنس کرنے آئے ہیں؟ تو کرو، اور سب پر اسکول سے بھاگے ہوئے بچوں کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ دن بھر قطب میں گزارا، شام کو جامع مسجد کی دیوار تلے کباب کھائے، ایک قطعی غیر معزز محلے میں پان خریدے، آدھی رات تک انڈیا گیٹ کے سامنے بیٹھ کر بیت بازی کی پھر کناٹ پلیس کے جس قہوہ خانہ کا درکھلا پایا وہاں سے ملک شیک پیا، اور وہیں کناٹ پلیس کے میدان میں غالب اور نظیری، حافظ اور سعدی، اقبال اور گوئٹے، ہاپکنز اور ڈلن ٹامس کے محاسن و معائب کے بارےمیں کچھ بھی طے نہ ہو پایا کہ مرغ آاذانیں دینے لگے۔ میں نے کہا "ہمارے ہاں چلئے چائے پئیں گے" بخاری صاحب بولے، "ہرگز نہیں، ایک اصول یاد رکھو، آدمی رات چاہے کہیں گزارے لیکن صبح ہمیشہ اپنے بستر سے اٹھنا چاہیے، عثمان نوٹ کرو!"
خیر یہ قصے تو ان کی اپنی دلچسپیوں سے متعلق ہیں لیکن دوستی میں ان کی متعدی اور سلیقے کے ہزار گونہ مظاہراور بھی تھے۔ ایک رات میرے ہاں محفل عین عروج پر تھی۔ تاثیر مرحوم، حسرت مرحوم، صوفی تبسم، عابد علی عابد، آغا بشیر احمد اوربخاری صاحب۔ حسرت صاحب نے انہی دنوں اپنا عجیب و غریب عربی گانا ایجاد کیا تھا اور فلک شگاف آواز میں نظیری کی کسی غزل پر کسی عربی دھن کی چھری چلارہے تھے۔اتنے میں ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ ہمارے رپورٹر میاں شفیع ٹیلیفون پر تھے۔ کہنے لگے، ابھی ابھی ایک ٹیلیفون اپریٹر نے گورنمنٹ ہاوس سے ٹیلیفون ملاتے میں نے سنا ہے کہ قائد اعظم فوت ہوگئے ہیں۔ دفتر پہنچ کر ہزار جگے سے خبر کی تصدی چاہی لیکن کسی نے کچھ بتا کر نہ دیا۔ میں نے طے کیا کہ پاکستان ٹائمز اور امروز کے ضمیمے بہرحال تیار کرلئے جائیں۔ ممکن ہے رات میں کسی وقت کوئی اطلاع پہنچ جائے۔ میں اداریہ لکھنے بیٹھا، توبخاری صاحب مرحوم کے سوانح حیات مرتب کرنے لگے۔ صوفی صاحب قطعہ تاریخ کو فکر کرنے لگے۔ تاثیر مرحوم اور حسرت مرحوم امروز کی ترتیب میں مصروف ہوگئے۔ میں نے رات بھی کام کیا۔ تین بجے کے قریب خبر کی تصدیق ہوئی اور جب ہم دفتر سے نکلے تو پوپھٹ چکی تھی۔اور سیر خیز لوگ کاروبار یا کوئے یا رکارخ کئے گھروں سے روانہ ہوچکے تھے۔ بخاری صاحب کو صحافت یا خالص سیاسی کاروبار سے لگاؤ نہ تھا۔ لیکن انھوں نے اسی ڈھب سے کئی راتیں پاکستان ٹائمز کے دفتر اور چھاپے خانے میں بسر کیں۔ گاندھی جی کے قتل کی رات، پریس میں نئی روٹری مشین چالو ہونے کی رات، ۱۳/۱۴اگست کی درمیان رات، اب شاید بتادینے میں بھی مضائقہ نہیں کہ اس زمانے کے پاکستان ٹائمز کے تین یا چار ادارئیے اور مختلف ناموں سے بہت سے مراسلے بخاری صاحب کے قلم سے ہیں مراسلوں کے کالم میں ایک پرلطف بحث مجھے خاص طور سے یاد ہے جو ہفتوں چلتی ہے اس کا سہرااور اصل ان حقیقی یا فرضی بزرگ کے سر ہے جو مولوی قینچی کے نام سے مشہور تھے۔ اور بقول خلق ہر بے نقاب خاتون کی چٹیا پر دست درازی کی فکر میں رہتے تھے۔ ایسے دو چار واقعات سننے میں آئے تو بخاری صاحب نے مولوی صاحب کی خدمت اور بے نقاب خواتین کی حمایت میں ایک بہت موثر مراسلہ "Mere Woman" کے نام سے لکھا۔ اس پر آزادی نسواں کے حامیوں اور مخالفین میں بہت زوروں کی بحث چلی اور جب تک چلتی رہی بخاری صاحب ان میں سے بیشتر خطوط کی تصحیح و ترتیب پاکستان ٹائمز کے دفتر میں بیٹھ کر خود کرتے رہے۔
انھیں بچوں سے خاص رغبت نہ تھی "چھوڑو یار، عورتوں کا محکمہ ہے۔" لیکن قریب قریب ہر چھٹی کے دن ہمارے اور تاثیر صاحب کے بچوں سے "لاج" میں آنکھ مچولی کھیلتے، ان کے لئے نئے نئے کھیل ایجاد کر تے، گیت گاتے اور کہانیاں سناتے۔
وہ بوڑھوں سے اور بھی زیادہ نفور تھے۔ لیکن انہی دنوں لندن سے میری بیوی کے والدین ہمارے ہاں وارد ہوئے تو بخاری صاحب نے ایک ہی ملاقات میں انہیں بھی رام کرلیا۔ یہ بیچارے اگلے وقتوں کے سیدھے سادھے سفید پوش انگیز لوگ جنہیں بخاری صاحب کے ذہنی مشاغل سے دور دور علاقہ نہ تھا۔ اس شام بخاری صاحب پہنچے تو میں اور میری بیوی دونوں یہ سمجھے کہ آج ان کا رنگ نہ جمے گا اور بات رسمی تکلفات سے آگے نہ بڑے سکے گی۔ خیر تعارف اور دو چار ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں۔ پھر بخاری صاحب اچانک بولے "مسز جارج آپ کو پہلی جنگ عظیم کے بعد کا کوئی گانا یاد ہے۔ مثلاً فلاں اور کوئی پرانا انگریزی گیت گنگنانے لگے۔ ہماری خوشدامن کو گانے سے شغف تھا۔ فورا کھل گئیں اور دو گانوں کیا ایسا تناتا بندھا کہ کسی کو زمان و مکان کی سدھ نہ رہی۔ یہاں تک کہ دونوں موسیقار ہانپنے لگے۔ یہ ایکٹ ختم ہوا تو بخاری صاحب بڑے میاں سے مخاب ہوئے " مسٹر جارج چھوڑیئے۔ ان عورتوں کا، چلئے ہم دونوں چلیں۔"
"کہاں لئے جاتے ہو میرے بڈھے کو۔" مسز جارج پکاریں۔
"ہم عید کرنے جارہے ہیں مسز جارجGoing to paint the town red. اور رات گئے تک انھیں لاہور کے ریستورانوں میں گھماتے اور اینگلو انڈین لڑکیوں کا رقص دکھاتے رہے۔
لیکن ان سب اداؤں کے باوجود ناآشنا لوگ بخاری لوگ کو بہت ہی کم آمیز بڑا صاحب سمجھتےتھے اور یہ تاثر چنداں غلط بھی نہ تھا۔ عمر بھر کی بے تکلفی کے باوجود ہم میں سے بھی کسی کا یہ حوصلہ نہ تھا کہ ان کے اوقات میں مداخلت کرے یا ان کی فرمائش کے بغیر ان کی کسی مصروفیت میں حارج بعض لوگ تو یہاں تک کہتے تھے کہ بخاری صاحب لباس بدلتے ہیں تو ساتھ یہ شخصیت بھی بدل لیتے ہیں۔ دفتر میں اور، گھر میں اور محفل میں اور، اصل میں یوں نہ تھا بلکہ یہ ان کے بہت ہی نپے تلے قاعدے اور سلیقے کا اظہار تھا۔ ایک بارایک بہت ہی باتکلف لیکن کچھ غیر دلچسپ سے حضرت میرے گھر پر تشریف لائے۔ میں بخاری صاحب کے ہاں جانے کی فکر میں تھا۔ کہنے لگے، بھئی ان سے ملنے کا تو بہت اشتیاق ہے، مجھے بھی لے چلو۔" میں نے کہا چلئے۔ بخاری صاحب کی پیشانی پر انھیں دیکھتے ہی ہلکی سی شکن نمودار ہوئی۔ یہ صاحب پہلے تو گم سم بیٹھے رہے۔ پھر ایک آدھ یونہی سی بات کی بخاری صاحب اٹھ کھڑے ہوئے، کہنے لگے، صاحب اس وقت بدقسمتی سے میں مصرف ہوں، معافی چاہتا ہوں، انشاء الله بھر کبھی ملاقات ہوگی۔ ہم چلنے لگے تو چپکے سے پوچھا "اس کے بعد کیا پروگرام ہے؟" میں نے کہا دفتر جاؤں گا۔ میں اپنے ساتھی سے رخصت ہوکر دفتر پہنچا تو تھوڑی دیر میں بخاری صاحب بھی آگئے۔ پوچھا یہ کون تھے؟ میں نے بتایا کہ فلاں فلاں تھے بہت بھلے آدمی ہیں۔ کہنے لگے، تکلف میں تضیعِ اوقات تک تو خیر جائز ہے لیکن تکلف میں بور ہونا کسی صورت بھی جائز نہیں امرتا شیر گل تمہیں یاد ہے؟ کیا غضب کی عورت تھی؟ ایک دفعہ اس کے اعزاز میں یہیں فلیٹیز میں ایک بہت بڑی دعوت تھی۔ بڑا بڑا خان بہادر اور رائے بہار بیٹھا تھا۔ امرتا آکے بیٹھیں، آس پاس کے لوگوں سے کچھ دیر گفتگو کی اور کھانا شروع بھی نہ ہوا تھا کہ اٹھ کھڑی ہوئیں، "میں بور ہوگئی، میں جاتی ہوں۔" میزبان اور مہمان دیکھتے ہی رہ گئے اور وہ کھٹ کھٹ یہ جاوہ جا! اخلاقی جراٴت اسے کہتے ہیں۔ مجھے آج تک اس واقعے سے رشک آتا ہے۔"
یہ تو ایک قاعدہ تھا۔ دوسرا قاعدہ یہ تھا کہ "کام کے وقت ڈٹ کر قاعدے سے کام کرو تاکہ کام کے بعد ڈٹ کر بے قاعدگی کرسکو۔" اور قاعدے کی صورت یہ تھی کہ آل انڈیا ریڈیو کی پہاڑی سی عمارت اور ہندوستان بھر میں بکھرا ہوا چیونٹیوں کا سا عملہ لیکن اور دفتری کام کے علاوہ اس عمارت کی ہر کھڑکی کے ہر شیشے، ہر دروازے کے ہر قبضے، ہر کمرے کے ہر کونے کی صفائی اوراس عملے کے ہر فرد کی ہر سرکاری و غیر سرکاری حرکت پر ان کی نظر رہتی تھی۔ اور یہ تو خیر ممکن ہی نہ تھا کہ مستقل ہنگامہ آرائی، کوچہ گردی اور رتجگوں کے باوجود ان کی گاڑی ہر صبح نو بجے سے پانچ منٹ قبل دفتر کی عمارت میں داخل نہ ہو۔
لیکن اس ساری قاعدے بازی میں ساتھ ہی ساتھ ان کی خوش طبع اور اپج بھی کسمساتی رہتی تھی۔ ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ گھر میں آتشددان کے سامنے بہت سی فائلیں لئے بیٹھے ہیں اور فائلوں میں سے کاغذارت نکال کر آگ میں جھونکے جارہے ہیں۔
"یہ کیا ہورہاہے؟" میں نے حیرت سے پوچھا۔
"دیکھو، اس کو انگریزی زبان میں کہتے ہیں۔ "Quick Disposal"بات یہ ہے کہ ان سب فائلوں میں محض خرافات بھری ہے اور اس خرافت سے چھٹکارا پانے کی واحد صورت یہی ہے کہ اس کا نام و نشان صفحہٴ دفترسرکار عالی مدار سے محور کردیا۔" یہ دوسری بات ہے کہ اس نوع کی خرافات وہ خود ہی ایجاد بھی کرتے رہتے تھے۔ ہماری طالب علمی کے زمانے میں وہ گورنمنٹ کالج میں انگریزی کے استاد بھی تھے اور پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کے سیکرٹری بھی۔ ایک دن ہم دو تین دو ست کسی کام سے ٹیکسٹ بک کمیٹی کے دفتر گئے۔ بخاری صاحب نے دیکھا تو اپنے کمرے میں بلالیا۔ کہنے لگے "تمہیں معلوم ہے اس دفتر میں کیا کام ہوتا ہے، یہ دیکھو۔" اور کاغذات میں سے ایک کافی صخیم فائل نکالی جس کے سرورق پہ لکھاتھا "Office Cat" یعنی دفتر کی بلی۔ یہ کون سی درسی کتاب ہے۔ ہم نے پوچھا۔ "بولے،" قصہ یوں ہے کہ ایک دن میرے کمرے میں ایک بلی آگئی۔ مجھے اچھی لگی۔ میں نے کسی سے کہا اسے تھوڑا سا دودھ لادو۔ پھر وہ بلی ہر روز آنے لگی اور ہر روز اسے دودھ بھی ملنے لگا۔ مہینے کے آخر میں سپر نٹنڈنٹ صاحب نے دفتر کے اخراجات کا بل مجھے بھیجا تو اسکے ساتھ ایک تحریری سوال یہ بھی منسلک تھا کہ بلی کے دودھ پر چودہ روپے ساڑھے چھ آنے کی رقم صرف ہوئی ہے وہ کس مد میں جائیگی؟ میں نے لکھ بھیجا "Contingency" یعنی متفرق خرچ میں ڈال دو۔ تھوڑے دنوں کے بعد اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر نے بل لوٹا دیا اور یہ تحریری فہمائش کی کہ "Contingency" کی حد دفتر کے ساز وسامان اور دیگر غیر جانبدار اشیا کے لئے مخصوص ہے۔ بلی جاندار شے ہے اور اس کے اخراجات "Contingency" میں شامل نہیں کئے جاسکتے۔ اس پر سپرنٹنڈنٹ صاحب نے مجھ سے مزید تحریری ہدایت طلب کی۔ میں نے لکھا کہ جاندار غیر جاندار کا قصہ ہے تو یہ خرچ "Establishment" یعنی عملے کی مد میں ڈال دو۔ دوبارہ بل خزانے کو روانہ ہوا اور تھوڑے دنوں میں لوٹ آیا۔ اب کے ایک کافی طویل مراسلے میں یہ استفسارات تھے کہ اگر یہ خرچ عملے کی مد میں جائے گا تو واضع کیا جائے کہ اس رقم کو تنخواہ تصور کیا جائے یا کہ الاؤنس؟ اگر تنخواہ ہے تو بموجب قاعدہ نمبر فلاں فلاں دفتر کی پیشگی منظوری درکار ہے اور اگر یہ الاؤنس ہے تو بموجب قاعدہ فلاں فلاں افسر سے اس کی تصدیق لازمی ہے ...... چنانچہ یہ فائل چھ مہینے سے چل رہی ہے اور اس میں ایسے ایسے نازک اور باریک نکتے بیان ہوئے ہیں کہ اندازہ نہیں۔" ....... سنو، یہ ٹیکسٹ بک کمیٹی، پروفیسر اے ایس بخاری شعبہ انگریزی گورنمنٹ کالج لاہور۔ کہنے لگے "سنو، یہ پہلا خط ہے۔
ازجانب پروفیسر اے ایس بخاری سیکرٹری ٹیکسٹ بک کمیٹی لاہور، بنام پروفیسر اے ایس بخاری شعبہ انگریزی گورنمنٹ کالج لاہور۔
جناب والا!
آپ کی یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ گزشتہ ماہ آپ کو پانچ کتابیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔ ریویو کی غرض سے ارسال کی گئی تھیں۔ لیکن ریویو ابھی تک موصول نہیں ہوئے۔ مہربانی سے جلد توجہ فرمائیے۔
آپ کا نیاز مند:۔ اے۔ایس۔بخاری
اس کے بعد یادہانی کے دو خط اور ہیں۔ اور تیسرا خط یہ ہے۔
از جناب پرورفیسر اے ایس بخاری سیکرٹری ٹیکسٹ بک کمیٹی لاہور، بنام پروفیسر اے ایسی بخاری شعبہٴ انگریزی گورنمنٹ کالج۔ لاہور۔
جناب والا!
بحوالہ خط نمبر فلاں فلاں، آپ کو ٹیکسٹ کمیٹی کی طرف سے جو پانچ کتابویں ارسال کی گئی تھی (تفصیل درج ذیل ہے) ان میں سے تین کے ریویو وصول ہوگئے ہیں جس کے لئےکمیٹی آپ کی ممنون ہے، لیکن کمیٹی توجہ دلانا چاہتی ہے کہ انتہائی اصرار کے باوجود آپ نے دو کتابوں (یعنی فلاں اور فلاں کتاب) کے بارے میں ابھی تک اپنی رائے تحریر نہیں فرمائی۔ کہ کمیٹی اس تاخیر کر وجوہ سمجھنے سے قاصر ہے۔ آپ کو تنبیہہ کی جاتی ہے کہ اگرت فلاں تاریخ تک آپ کی رائے وصول نہ ہوئی تو آپ کا نام ریویو کرنے والوں کا فہرست میں سے خارج کردیا جائیگا۔ آپ کا نیاز مند:۔ اے ایس بخاری
اور کا جواب یہ ہے، منجانب اے ایس بخاری وغیرہ بنام اے ایسی بخاری وغیرہ
جناب والا! بحوالہ خط نمبر فلاں فلاں، بقیہ ریویو ملفوف ہیں۔ میں یہ گوش گزار کئے بغیررہ نہیں رہ سکتا کہ آپ کے خط کا آخری پیرا گراف انتہائی قابل اعتراض ہے۔ سینئر (Senior) افسروں سے خطاب کا یہ انداز قطعی غیر موزوں ہے۔ آپ کا نیاز مند:۔ اے ایس بخاری
پھر بخاری صاحب نے فائلیں اور کاغذات سمیٹے اور بولے "اچھا اب تم فوراً رفوچکر ہوجاؤ، مجھے بہت کام ہے۔"
لیکن یہ سب کچھ تو صرف بخاری صاحب کی باتیں ہیں، بخاری تو نہیں ہیں۔ وہ عالم بھی تھے، ادیب بھی، استاد بھی، ہم جلیس بھی، بذلہ سنج بھی، خود تحریر بھی، سخت گیر منظم بھی، بے فکر بانکے بھی اور آخر میں مدبر اور صاحب سیاست بھی۔ لیکن یہ سب صفات گنوادینے سے بھی کیا ہوتا ہے۔ ان کی زندگی کا بنیادی پہلو تو یہ ہے کہ ان کا کوئی بھی لمحہ بے مقصد اوربے مصرف نہیں گزرا اور ان میں سے بیشتر لمحات موجودات کے ہر مظہر سے خوبی اور حسن اور انبساط کے اخذ و استفادہ میں گزرے اور وہ قلب و نظر کی اس دولت کو عمر بھر محفلوں، دانشکدوں، ایوانوں اور گزرگاہوں میں یوں بکھیرتے رہے کہ اپنے نام کی یادگار کے لئے اس کا عشرعشیر بھی نہ بچا۔ مجھے اس دور کی کوئی ایسی شخصیت معلوم نہیں جس نے اپنے بہت سے لوگوں ے لئے اس قدر لطف و مسرت دریافت اور تخلیق کی ہو۔ وہ سب لوگ جن کے دوسرے اہل کمال گفتار و تحریر کی کیسی بھی نعمتیں مہیا کریں۔ یہی فریاد کریں گے:۔
"عشوہٴ زاں لب شیرین شکربازبیار"
* * *