عصمت چغتائی کے افسانہ میں ایک لڑکی دوسری کے متعلق کہتی ہے کہ ”سعیدہ موٹی تھی تو کیا، کمزور تو حد سے زیادہ تھی بےچاری۔ لوگ جسم دیکھتے ہیں یہ نہیں دیکھتے جی کیسا ہر وقت خراب رہتا ہے“۔ جب میں نے عصمت کی کلیاں اور چوٹیں دونوں مجموعے ختم کر لئے اور جو چند دیباچے اور مضامین ان کے مداحین اور معترضین نے ان پر ازرہ تنقید وتعارف لکھے ہیں ان سے بہرہ یاب ہوچکا تو استعارے کے رنگ میں یہ فقرہ پھر یاد آیا۔ ”لوگ جسم دیکھتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ جی کیسا ہر وقت خراب رہتا ہے“۔
اس فقرے کے معانی کو کھینچ تان کر پھیلا لیجئے، اور اس پر تھوڑا سا فلسفیانہ رنگ پھیر لیجئے تو عصمت کے بعض کمالات اور نقادوں کی بعض کوتاہیوں کو بیان کرنے کا اچھا خاص بہانہ ہاتھ آجاتا ہے جو حال فربہی کا ہے وہی حال کئی او رمعروف اور متدا دل اور لیبلوں کا ہے جو مستعمل الفاظ اور عادات مستمرہ کی شکل میں قسم قسم کی اشیاء پر چپکے نظر آتے ہیں۔ ذہنی کسالت اور خوف اور بزدلی کے مارے ہم اکثر فیصلے لیبلوں ہی کو دیکھ کر صادر کر دیتے ہیں۔ ان سے آگے نکل کر اصل چیز کو جانچنے اور تولنے کی ہمت اپنے آپ میں نہیں پاتے۔ مامتا اور عشق پر دل گدازی کا لیبل مدت سے لگا ہوا ہے اس لئے جہاں ان کا ذکر آئے کہنے اور سننے والے دونوں ایک علّو اور ایک پاکیزہ رقت کے لئے پہلے ہی سے تیار ہو بیٹھتے ہیں۔ جنسی مشاغل تحقیق کہ پستی کی طرف لے جاتے ہیں۔ چنانچہ ان کا بیان بغیر کراہت یا اخلاقی غیظ کے ہو تو لوگ برہم ہوجاتے ہیں۔ بہن بھائیوں کا سا پیار جاننا چاہئے کہ پاک محبت کا سب سے اونچا درجہ ہے لہٰذا بہن بھائی کے درمیان بجز اس جذبہٴ عالیہ کے کسی اور تعلق کی گنجائش ناممکن یا کم از کم نامناسب ضرور سمجھی جاتی ہے۔ عصمت چغتائی کے رہنما بھی اندھا دھند ایسے ہی کلیئے ہوتے تو ادب ان کی بہترین انشا سے محروم رہ جاتا لیکن ان کی بصیرت اس سے کہیں زیادہ دوررس ہے۔ وہ لیبلوں کے فریب میں نہیں آتیں اور جسم اور دل اور دماغ کی کئی کنیتیں ایسی ہیں جن سے وہ اکیلے میں دوچار ہوتے نہیں گھبراتیں۔ ایسے انشا پرداز کا بغیر حوصلہ مشاہدہ، وقت نظر اور جرأت بیان کے گزارہ نہیں۔ اور یہ ادیب کی خوش قسمتی ہے کہ عصمت کو یہ تینوں نعمتیں میسر ہیں۔
برخلاف اس کے احساس محرومی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس جرأت اور وقت نظر میں سے عصمت کے نقادوں کو حصہ وافر نہیں ملا۔ فی الحال ان کا ذکر جانے دیجئے جن کو عصمت کی تحریروں میں اپنے اخلاق اور ادب دونوں کی تباہی نظر آتی ہے وہ تو ان لوگوں میں سے ہیں جن کے لیبل گوند سے چپکے ہوئے نہیں میخوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ جنہوں نے ذہنوں میں ایک موٹی موٹی لکیروں والی جد
ول بنا رکھی ہے کہ ان چیزوں کا ذکر حلال ہے ان کا حرام ہے نامحرم کا ذکر ہم مقرر کر چکے ہیں کہ فحش ہے۔ محرم کا ذکر معاملہ بندی ہے یعنی جائز ہے۔ حرام کا بچہ فطرت کو منظور ہے تو ہوا کرے، ہمارے ادب کو منظور نہیں۔ اور یہ فطرت کا مطالعہ؟ محض ایک ڈھونگ! آوارہ مزاجوں کا عذر آوارگی! ہمیں بچپن میں مطالعہ پر کوئی مجبور نہ کرسکا تو اب کسی کی کیا مجال ہے؟ ہم جب بھی کھلونے سے دل بہلاتے تھے اب بھی کھلونوں سے دل بہلائیں گے… ایسے لوگوں سے اس وقت بحث نہیں کیونکہ
وہ وہاں ہیں جہاں سے ان کو بھی
کوئی ان کی خبر نہیں آتی
شکایت ان سے ہے اور اپنوں کی شکایت ہے، بیگانوں کی سی نہیں۔ جو عصمت چغتائی کے قدر دان اور مداح ہیں ان لیبلوں کے مضامین کو پڑھ کر روح میں ایک بالیدگی محسوس کرتے ہیں جس سے دل میں امنگیں پیدا ہوتی ہیں۔ اور نئی نئی راہیں کھلتی ہیں۔ گلہ ہے کہ وہ بھی ہر پھر کر لیبلوں ہی کے چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ افسوس کہ عصمت مرد نہیں اور افسوس کہ لیبلوں میں سے سب سے بڑا اور گمراہ کن لیبل عورت ہے۔ مرد ذات کے قرنوں کے خرابوں اور محرومیوں سے چپکا ہوا۔ عورت دلفریب ہے، مکار ہے، صنف نازک ہے، ایک معمہ ہے، کمزور ہے، کم عقل ہے، مجموعہٴ اضداد ہے۔ جہاں آپ نے عورت کا نام لیا، ان میں سے دو چارگھڑے گھڑائے معنی ذہن اُگل کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ چنانچہ اسی فریب میں آکر ہونہار اور ذہین دیباچہ نویس فرماتے ہیں:
”عصمت کے افسانے گویا عورت کے دل کی طرح پُر پیچ اور دشوارگزار نظر آتے ہیں۔ میں شاعری نہیں کررہا اور اگر اس بات میں شاعری ہے تو اسی حد تک جہاں تک شاعری کو سچی بات میں دخل ہوتا ہے۔ مجھے یہ افسانے اس جوہر سے متشابہ معلوم ہوتے ہیں جو عورت میں ہے۔ اس کی روح میں ہے۔ اس کے دل میں ہے۔ اس کے ظاہر میں ہے۔ اس کے باطن میں ہے۔“
اب نہ معلوم اس نوجوان نقاد کے تصور نے عورت کا لیبل کس قسم کی چیزوں پر لگا رکھا ہے۔ یہ معلوم ہوتا تو وہ جوہر بھی کھلتا جو بہ قول ان کے عصمت کے افسانوں میں ہے لیکن ان کے رنگین تصورات ومفروضات کے خلوت کدہ میں ہمیں کیونکر باریابی ہوسکتی ہے اور کوئی ایسی ڈکشنری بھی نہیں جس میں عورت کے وہ معنی مل جائیں جو اس تنقید کی تہہ میں کام کر رہے ہیں۔ دیباچے کا مقطع ہے:
”عصمت کا نام آتے ہی مرد افسانہ نگار کو دورے پڑنے لگتے ہیں۔ شرمندہ ہو رہے ہیں آپ ہی آپ خفیف ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ دیباچہ بھی اسی خفت کو مٹانے کا ایک نتیجہ ہے۔“لیجئے۔ عورت کے ایک دوسرے تصور سے پھر میرے عزیز کی ناقدرانہ نظر بہک گئی۔ دکھانے تو چلے تھے عصمت کے افسانوں کا جوہر لیکن آخر کہہ گئے کہ یہ عورت ناقص العقل جانور ہے ڈاکٹر جانسن کے کتے کی طرح کہ دو ٹانگوں کے بل کھڑا ہو جائے تو تعجب وتحسین ہی کا نہیں بلکہ ہم انسانوں (یعنی مردوں) کے لئے شرم و ندامت کا موجب ہے۔ ایک اور مقتدر و پختہ کار دیباچہ نویس نے بھی معلوم ہوتا ہے انشا پردازوں کے ریوڑ میں نر اور مادہ الگ الگ کر رکھے ہیں۔ عصمت کے متعلق فرماتے ہیں کہ ”اپنی جنس کے اعتبار سے اردو میں کم و بیش انہیں وہی مرتبہ حاصل ہے جو ایک زمانہ میں اردو ادب میں جارج ایلیٹ کو نصیب ہوا“۔ گویا ادب بھی کوئی ٹینس کا ٹورنامنٹ ہے جس میں عورت اور مردوں کے میچ علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں۔ جارج ایلٹ کا رتبہ مسلم۔ لیکن یوں اس کا نام لے دینے سے تک ہی ملا اور بوجھوں تو کوئی کیا مرے گا۔ اب یہ امر ایک علیحدہ بحث کا محتاج ہے کہ کیا کوئی مابہ الامتیاز ایسا ہے۔ خارجی اور ہنگامی اور اتفاقی نہیں بلکہ داخلی اور جبلّی اور بنیادی جو انشا پرداز عورتوں کے ادب کو انشا پرداز مردوں کے ادب سے ممیز کرتا ہے اور اگر ہے تو وہ کیا ہے؟ ان سوالوں کا جواب کچھ بھی ہو، بہرحال اس نوع کا ہرگز نہیں کہ اس کی بنا پر مصنفین کو ”جنس کے اعتبار سے“ الگ الگ دو قطاروں میں کھڑا کر دیا جائے۔
اسی طرح جہاں کسی افسانے میں خاندان، گھر بار، اعزا واقربا کا ذکر آگیا۔ یا کسی متمول لڑکے نے کسی مفلس لڑکی پر ہاتھ ڈالا، جوشیلے اور دردمند دل رکھنے والے نقادوں نے مسرت کا نعرہ لگایا اور بغلیں بجائیں کہ سماج کی خبر لی جا رہی ہے۔ اب غور سے دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ عصمت کے اچھے افسانوں میں ماحول محض اس لئے شامل فسانہ ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں۔ کردار کہیں تو رہیں گے۔ کسی سے تو ملیں گے افسانہ کا جو ڈھانچہ ہے اس کا کوئی گوشت پوست تو ہوگا پھر اس کے بغیر بھی چارہ نہیں کہ وہ ماحول ایک نہ ایک معروف طبقے کا ماحول ہو۔ بودوباش کا کوئی نہ کوئی ڈھنگ تو پیش نظر رکھنا ہی پڑے گا۔ لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ یہ ماحول جن معاشی اصولوں کی وجہ سے پیدا ہوا خود وہ اصول جانچے اور پرکھے جا رہے ہیں۔
عصمت کے بعض مضامین ایسے بھی ہیں جن پر شبہ ہوتا ہے کہ سماج کو سامنے رکھ کر لکھے گئے ہیں۔ لیکن انہوں نے جہاں بھی سماج کو اپنا نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے ان کا ہاتھ جھوٹا ہی پڑا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سماج کی جن باتوں سے عصمت کا جی برا ہوتا ہے ان پر عصمت نے غور ضرور کیا ہوگا۔ لیکن تلخی کام ودہن ابھی ان کے رگوپے تک نہیں پہنچی اور جب تک یہ نصیب نہ ہو سماجی کمزوریوں پر اخباروں میں مضمون لکھ لینے چاہیں۔ ان کو فن کی لپیٹ میں لانے کا خیال چھوڑ دینا چاہئے۔ عصمت کو فی الحقیقت شغف سماج سے نہیں شخصیتوں بلکہ اشخاص سے ہے۔ ان کے جوش اور ہوس سے۔ ان کی تھرتھراہٹ اور کپکپی سے، ان کی باہمی کشمکش اور عداوت اور فریب کاری سے، غرض ان تمام کیفیتوں سے جو انسان پر جب طاری ہوتی ہیں تو جسم پھڑکنے لگتا ہے اور دوران خون تیز ہوجاتا ہے یا اعصاب میں الجھاؤ اور طبیعت میں تناؤ پیدا ہوجاتا ہے اگر عصمت اور سماج کا باہم ذکر اس نقطہٴ نظر سے کیا جائے کہ ان کی سی انشاء ان کا سارا رجحان اور ان کا سااسلوب انتخاب ایک خاص زمانے اور خاصی سماجی کشمکش کی پیدوار ہیں تو یہبحث مناسب ہی نہیں بلکہ نتیجہ خیز بھی ہوگی۔ یہ کون نہیں جانتا کہ اردو میں عصمت جیسے ادیب اس صدی کے اوائل میں بھی منفقود تھے۔ اور اس سے پہلے کا ذکر ہی کیا۔ یہ ایک امر واقعہ ہے اور اس میں کئی دلچسپ نکتے مضمر ہیں۔ جن کی توضیع یقیناً خیال انگیز ہوگی۔ لیکن حالات سے اثر پذیر ہونا اور حالات کا مفسر ہونا دو مختلف چیزیں ہیں۔ اس بات کا مطالعہ کرنا ہوکہ بعض سماجی حالات نے کیونکر عصمت جیسی انشا پرداز کو پیدا کیا تو شوق سے کیجئے لیکن اس شوق میں خواہ مخواہ سماج کی نباضی عصمت کے سر نہ منڈھ دیجئے۔ سیب درخت سے گرا تو یقیناً کششِ ثقل ہی کی وجہ سے گرا۔ لیکن اس کارگزاری کے صلہ میں سیب کا نام نیوٹن نہیں رکھا جا سکتا۔ نہ سیب کو سیب سمجھنے میں کچھ اس کی ہیٹی ہوتی ہے۔
عصمت کے دونوں مجموعوں میں ڈرامے، افسانے اور اسکیچ تینوں قسم کی چیزیں شامل ہیں۔ ان میں ڈرامے سب سے کمزور ہیں اور اس کی کئی وجوہ ہیں اول تو یہ کہ ڈرامے کی ٹیکنیک عصمت کے قابو میں نہیں آئی یا یہ کہیے کہ ابھی تک ان کو اس پر قدرت حاصل نہیں ہوئی۔ پلاٹ کو مناظر میں تقسیم کرتی ہے تو ناپ کی قینچی سے نہیں کترتیں۔ یونہی دانتوں سے چیر پھاڑ کر چیتھڑے بنا ڈالتی ہیں چنانچہ پھوسڑ جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی سین جب پھیلتا ہے تو سمٹے بغیر ہی ختم ہو جاتا ہے جیسے گاڑی دو اسٹیشنوں کے درمیان کہیں بھی رک جائے۔ خیر اس قدر نازک مزاجی سے کیا حاصل؟ کھیر نہ سہی دلیا ہی سہی پیٹ بھر جائے تو کیا مضائقہ ہے۔ ڈرامے کو ڈرامہ نہ سمجھے۔ کہانی سمجھ کر پڑھیئے اور فرض کر لیجئے کہ کہانی نے ڈرامے کا لباس کسی ضرورت سے نہیں بلکہ محض تنوع کی خاطر پہن رکھا ہے۔ لیکن افسوس کہ رواداری سے بھی مشکل حل نہیں ہوتی۔ کہانی کو ڈرامے کی شکل دی جائے تو ایک جبر اپنے اوپر ضرور کرنا پڑتا ہے اور وہ یہ کہ قصہ اول سے آخر تک مع اپنے نشیب وفراز کے تمام تر افراد قصہ ہی کے اقوال وافعال کے ذریعے بیان کرنا پڑتا ہے مصنف سے یہ آزادی پھر چھن جاتی ہے کہ ساتھ کرداروں کے جذبات، خیالات کو اپنی زبان سے واضح کرتا جائے۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پابندی عصمت کے بس کا روگ نہیں۔ افسانہ ہو تو عصمت کو کسی انوٹ یا تیور کے واضح کرنے میں دقّت پیش نہیں آتی۔ انہیں افسانہ نویس کے اس حق سے فائدہ اُٹھانا خوب آتا ہے کہ جب چاہا کیریکٹر سے کچھ کہلوالیا۔ جب چاہا خود کچھ کہہ لیا۔ لیکن جب اپنی زبان بند ہو اور سب کھیل کیریکٹروں ہی کو کھیلنا ہو تو عصمت قاصر رہ جاتی ہے۔ اور ان مجبوریوں میں گھر کر ان کا مطلب اکثر فوت ہوجاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ مکالمے بھی پھسپھسے ہوجاتے ہیں اور ان میں اس کردار پن کا نام ونشان تک نظر نہیں آتا۔ جو ان کے افسانوں کے مکالوں میں اکثر پایا جاتا ہے۔ (پردے کے پیچھے میں کس قدر چستی اور پھرتیلا پن ہے) بعض اوقات تو مکالمہ کچھ ایسا بےجوڑ ہوجاتا ہے کہ یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا واقعہ کیا پیش آیا۔ چنانچہ ان کا ڈرامہ ”انتخاب“ کے واقعات پیشتر اس کے کہ سمجھ میں آسکیں بہت کچھ وضاحت کے محتاج ہیں۔ (یہ نقص ان کے افسانہ ”تاریکی“ میں بھی رہ گیا ہے) ڈرامہ نویس کو تو اجازت نہیں کہ وہ سیدھے منہ ہم سے بات کرے۔ باقی رہے کیریکٹر سو وہ آپس میں الجھی سلجھی گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ (ڈرامہ جوٹھہرا) مگر ہمارے پلے کچھ نہیں پڑنے دیتے۔ ڈرامہ نویس عدم تعاون پر مجبور ہیں اور کیریکٹروں کو تعاون کا سلیقہ نہیں۔ ان حالات میں ڈرامہ کامیاب ہو تو کیونکر؟ پھر ان ڈراموں میں (جہاں تک میری سمجھ میں آئے) عصمت کی کوشش یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ چند اشخاص نہیں چند ٹائپ پیش کریں۔ یعنی ہر شخص ایک طبقہ کا نمائندہ بن کر سامنے آئے۔ مگر اس کے لئے اشخاص کا اداراک نہیں گروہ کا احساس چاہئے اور عصمت اور گروہ میں وہ انہماک نہیں جو اشخاص میں ہے تو پھر نہ معلوم انہیں یہ مصیبت کیوں مول لی؟
علاوہ ان سب باتوں کے ان ڈراموں کی کمزوری کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان میں عصمت نے جس قسم کے لوگوں کا نقشہ کھینچنا چاہا ہے، ان سے وہ طبعاً گھل مل نہیں سکتیں یعنی وہ مرفہ الحال لوگ جو کہلاتے تعلیم یافتہ ہیں مگر جن کی ترکیب میں تعلیم کم اور بےیافتہ زیادہ ہوتی ہیں۔ جو خوش حالی، بےحسی، انحطاط اور اپنے رنگ وروغن کے بل پر اپنے مشاغل اور اپنی گفتگو میں بےفکراپن اور چمک پیدا کرلیتے ہیں جس کی بدولت وہ ”سمارٹ سیٹ“ کہلاتے ہیں۔ اور کم نصیب لوگ کچھ ان سے نفرت کچھ ان پر شک کرتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے اس طبقے کی بعض حماقتوں اور خود فربیبیوں پر عصمت کو غصہ آتا ہے جس کو وہ بیان کرنا چاہتی ہیں۔ اور اس کی عشرتوں پر تھوڑا سا رشک جس کو وہ خود بھی نہیں جانتیں لیکن یہ بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس چمکیلے طبقہ کو انہوں نے دور ہی سے دیکھا ہے۔ قریب آنے کا موقع نہیں ملا کہ اس کے نقوش اور خدوخال واضح دکھائی دیتے اور اس کے خوب وزشت اور ظاہر وباطن کا وہ اچھی طرح موازنہ کرسکتیں۔ چنانچہ جب عصمت اس قسم کے کیریکٹروں یا ان کے ماحول کی تصویر کھینچتی ہیں تو نوک پلک کبھی درست نہیں ہوتی۔ چھری، کانٹے، ”ارغنوں“ (یعنی چہ؟) ٹینس، ڈرائنگ روم، ڈنر سیٹ، الم غلم اس قسم کی اصلی اور خیالی چیزیں جمع کرکے ایک کباڑ خانہ سا بنا لیتی ہیں۔ گو ان کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس سازو سامان سے امیرانہ ٹھاٹھ باندھا جائے اور کچھ اس یقین کے ساتھ اسباب چنتی جاتی ہیں کہ ان کی سادگی پر رشک آتا ہے۔
کیریکٹروں کی گفتگو اور حرکتیں بھی اس قسم کی ہوتی ہیں کہ جب مصنف ہنسائے تو رونا آتا ہے اور رلائے تو ہنسی آتی ہے۔ ایک تصنع تو ان میں وہ ہے جس کا مصنف کو علم ہے لیکن ایک تصنع ان میں ایسا بھی آجاتا ہے جس سے مصنف خود بےخبر ہے، اور جو دراصل اس کے اپنے تصنع کا عکس ہے یعنی کیریکٹروں کی سطیحت کو تو بے نقاب کرنا ہی تھا اپنی سطحیت بھی ساتھ بے نقاب ہو رہی ہے۔ ایکٹروں سے پہلے کیریکٹر خود ایکٹ کرتے ہیں۔ بات بات پر اپنی زندگی میں تھیٹر کی سی سچوایشن (situation) پیدا کر لیتے ہیں اور کچھ اس طرح بنتے ہیں کہ ان کے تو خیر خود ڈرامہ نویس کے حسن مذاق پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ ”سانپ“ میں عصمت نے چند ایسی عورتیں دکھانے کی کوشش کی ہے جو بزعم مصنف ”شکاری عورتیں“ ہیں یعنی وہ رنگین تریا چلتر ہے مردوں کے جذبات کے ساتھ کھیلتی ہیں۔ جیسے بلّی چوہے سے کھیلتی ہے۔ لیکن ان کی تھکی ہوئی باتیں سنئے اور ان کی اکتا دینے والی خوش فعلیوں کا تماشا کیجئے تو اس نتیجے پر پہنچے گا کہ کسی چوہے کا شکار تو یہ شاید کرلیں لیکن اس سے زیادہ کی امید بےچاریوں سے خام خیالی ہے۔ معلوم ہوتا ہے چند کم عقل چھوکریاں ہیں۔ جنہوں نے کوئی ارزاں قسم کا خوش پوش امریکن فلم دیکھ لیا ہے۔ اور گھر میں دو ایک جگہ صوفے، کرسیاں بچھا کر نقل اتارنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ قیاس اس امکان کو بھی ردنہیں کرتا کہ وہ فلم خود مصنف ہی نے دیکھا ہو اور اس کی ارزانی کا احساس اس کو نہ ہوا ہو۔ ایک مکالمہ تو اس ڈرامے میں ایسا ہے کہ اپنے بےساختہ میلوڈرامیٹک اسلوب کی وجہ سے کشتِ زعفران سے کم نہیں۔ رفیعہ کی منگنی غفار سے ہو چکی ہے لیکن اب وہ اس سے نہیں ظفر سے شادی کرے گی۔ غفار کو اس سانحہٴ جانکاہ کا علم یوں ہوتا ہے:
رفیعہ۔ نہیں میں تمہاری زندگی برباد نہیں کروں گی۔
غفار۔ (جوش سے) برباد نہیں۔ تم میری زندگی آباد کرو گی۔
رفیعہ۔ نہیں، میں تمہیں نگل جاؤں گی۔ سانپ جو ٹھہری۔
غفار۔ (شدت جوش سے کانپ کر) کیسی باتیں کرتی ہو، تم مجھے نگل بھی جاؤ، تو میرے لئے عین راحت ہوگی۔
خالدہ۔ (رفیعہ کی سہیلی) مگر اب تو رفیعہ نے فیصلہ کرلیا۔
غفار۔ (چونک کر) کیا فیصلہ کرلیا؟
خالدہ۔ یہی کہ وہ تمہیں نہ نگلے گی۔
رفیعہ۔ ہاں اب تو میں ظفر کو نگلوں گی۔
(ظفر پریشان ہو کر مسکراتا ہے)
غفار۔ (سمجھ کر) تو… تمہارا یہ مطلب ہے کہ تم مجھے ٹھکرا رہی ہو!
رفیہ۔ اُونہہ۔ اب تم نے بھی غلیظ شاعری شروع کر دی۔
غفار۔ (پریشانی سے انگلیاں چٹخا کر) اور ظفر تم مجھے دھوکا دیتے رہے۔
ظفر۔ غفار، بچہ نہ بنو، یہ فتنہ تمہارے بس کا نہ تھا۔ شکر کرو کہ میرے ہی اوپر بیتی اور تم بچ گئے۔ تم دیکھنا میری وہ گت بنائے گی کہ توبہ ہی بھلی۔
غفار۔ کاش میری ہی وہ درگت بن جاتی۔
خالدہ۔ مگر غفار سوچو تو…
غفار۔ ایک عرصہ دراز سے بزرگوں نے یہ بات طے کر دی تھی۔
خالدہ۔ یہ ٹھیک ہے کہ آبائی حق تو تمہارا ہے پر یہاں تو رفیعہ کا معاملہ آن پڑا ہے۔ وہ ایک ضدی ہے!
غفار۔ (اندوہ گیں ہو کر) میں ۔۔جا رہا ہوں (نہایت اداسی سے) رفیعہ! خدا کرےتم خوش رہو۔
عصمت اس سین کو کامک سین سمجھ کر لکھتیں تو شاید ڈرامہ نویس میں ان کا نام رہ جاتا۔ لیکن افسوس کہ ان کے ہونٹوں پر مجھے مسکراہٹ نظر نہیں آئی۔ اور جب مصنف نے ہنسانے والی باتیں لکھیں اور خود سے ہنسی کی کوئی بات نظر نہ آئے تو افسوس ہوتا ہے۔کچھ ایسا ہی بے تکا پن ڈراموں کے علاوہ ان افسانوں میں بھی پایا جاتا ہے جن میں عصمت نے ان جدید نما چمکیلے لوگوں کو اپنانے کی کوشش کی ہے۔ ایسے افسانوں میں نہ پلاٹ کی چولیں ہی ٹھیک بیٹھی ہیں نہ کیریکٹر کا ناک نقشہ ہی درست ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انگریزی میں سے کہانیوں کے ٹکڑے کاٹ کاٹ کر جوڑ لئے ہیں۔ اور پیشہ ور افسانہ نویسوں کی طرح رسمی رومان کا رنگ دے کر جھوٹ موٹ ایک بات بنا لی ہے۔ ”پنکچر“ اور ”شادی“ پڑھ کر دل پر یہی اثر ہوتا ہے اور ”میرا بچہ“ میں تو برنارڈ شا کے“‘ آرمز اینڈ دی مین“ کے پہلے سین پر کچھ اس طرح سے ہاتھ صاف کیا ہے کہ شبہ کی گنجائش نہیں۔
یہ سیلیا اور نیلی اور ”ارغنوں“ اور پارٹیوں کی دنیا عصمت کی دنیا نہیں۔ اس میں وہ اجنبی رہتی ہیں اس کی تہہ کو وہ جب پہنچیں گی۔ تب دیکھا جائے گا۔ فی الحال تو ان کی دنیا وہی ہے جو ان کے بہتر افسانوں یعنی جوانی، ڈائن، نیرا، بھول بھلیاں ، ساس، بیمار اور تل میں پائی جاتی ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جس میں عورتیں پردے کے پیچھے سے فقرے چست کرتی ہیں جس میں زینوں پر اور دیواروں کی آڑ میں آنکھ مچولی کھیلی جاتی ہے۔ جس میں نوا ڑ کی پلنگڑیوں پر پٹاریاں رکھی ہیں۔ مہترانیوں کی جوان بہوئیں کمر لچکا کر چلتی ہیں۔ اکھڑلڑکیاں گوبر بنتی پھرتی ہیں اور تلیا میں ڈبکیاں لگاتی ہیں جس میں گلگلے بچے ماں کے پیٹ سے چھپکلی کی طرح چپکے ہوئے چپڑ چپڑ منہ مارتے ہیں اس کے گردو پیش میں وہ اس بے تکلفی اور احساس ہم آہنگی کے ساتھ گھومتی پھرتی ہیں کہ اسی کا ایک جزو معلوم ہوتی ہیں چنانچہ وہ کس سہولت کے ساتھ دوہی چار خط کھینچ کر اس دنیا کو کاغذ پر لے آتی ہیں۔ عصمت کے بہترین افسانوں میں آپ کو فضا اور ماحول کے لمبے لمبے پُرتکلف ڈسکرپشن (Description) کہیں نہ ملیں گے۔ لیکن جو بات ہے وہ ایسے پتے کی ہے کہ اختصار سے تشنگی اور خلاء کی شکل پیدا نہیں ہوتی۔ ”ساس“ کے شروع کے فقرے ہیں:
”سورج کچھ ایسے زاویئے پر پہنچ گیا کہ معلوم ہوتا تھا چھ سات سورج ہیں جو تاک تاک کر بڑھیا کے گھر میں ہی روشنی پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں۔ تین دفعہ کھٹولی دھوپ کے رخ سے گھسیٹی اور اے لو پھر پیروں پر دھوپ اور جو ذرا اونگھنے کی کوشش کی تو دھمادہم ٹھٹوں کی آواز چھت پر سے آئی۔ ”خدا غارت کرے پیاری بیٹیوں کو“۔ ساس نے بےحیا بہو کو کوسا جو محلے کے چھوکروں کے سنگ چھت پر آنکھ مچولی اور کبڈی اڑا رہی تھی“۔ دنیا میں ایسی بہوئیں ہوں تو کوئی کاہے کو جئے۔ اے لو دوپہر ہوئی اور لاڈو چڑھ گئیں کوٹھے پر ذرا ذرا سے چھوکرےاور چھوکریوں کا دل آپہنچا پھر کیا مجال ہے جو کوئی آنکھ جھپکا سکے“۔
اتنے تھوڑی سے الفاظ میں اس سے زیادہ کوئی کیا رنگ بھرے گا اور رنگ بھی ایسے کہ نہ ضرورت سے زیادہ شوخ نہ ضرورت سے زیادہ مدہم۔ یہی حال ”نیرا“ میں کے ایک ٹکڑے کا ہے:
”چھوٹے تال سے گزر کر پلیا پر سے ہوتے ہوئے دونوں ننھے منے بیوپاری شہر کی سڑک پر چلنے لگے۔ یہ کم بخت جاڑا تو اب کے ایسا دانت پیس کر پیچھے پڑا تھا کہ نرم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ گرمی تو جیسے تیسے کٹ جاتی ہے چاہو جتنا نہاؤ، پیاؤ پر سے ٹھنڈا پانی جتنا چاہو پی لو۔ نہ کپڑے کی ضرورت نہ کچھ۔ رمو کو تو دھوتی کا بھی مرہون منت نہ ہونا پڑتا تھا۔ سیاہ سوت کا ڈورا جو اس کے کچری جیسے پیٹ پر ے پھسل کر کولہے کی ہڈیوں پر مزے سے ٹک جاتا تھا۔ ضرورت سے زیادہ تھا۔ مزے سے تلّیا میں ڈبکی لگائی، کناروں پر اکڑوں بیٹھ گئے او رلُو کے چھپاکوں سے سوکھ گئے“۔
اور اس سے بھی مختصر یہ کہ:
”اندھیری سنسان راتیں جیسے تیسے کٹنے لگیں۔ بیجھڑ کی روٹیاں اور لوٹا بھر مٹھا حاصل کرنے کے لئے سارے گھر کو دن بھر تیرے میرے کھیت میں جتے جتے گزر جاتی۔ نیرا گھاس چھیل لاتی، بھینسوں کو بھی دن لگے اور دودھ چرانا شروع کر دیا۔ کون دیکھتا بھالتا۔ کانجی ہاؤس میں ہی ایک توضبط ہوگئی دوسری بیاہنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ بھینس جب بوڑھی ہوجاتی ہے تو پتہ بھی نہیں چلتا۔ نہ اس کی کمر جھکے نہ بال کھچڑی ہوں“۔
ان اقتباسات میں پانچ پانچ چھ چھ فقرے ایک ساتھ پائے جاتے ہیں۔ اس لئے ان کو یہاں نقل بھی کر لیا۔ ورنہ اسی قسم کے ایک ایک دو دو فقروں کے کنائے تو کئی جگہ ہیں۔
یہ دنیا بیشتر مفلسوں اور اکھڑوں کی دنیا ہے۔ بہرحال! امیروں، نفاست پسندوں اور تراشیدہ لوگوں کی دنیا نہیں۔ اس میں فاقے ہیں غلاظتیں ہیں (اور غلاظتوں کا حال عصمت کتنی برہم ہو کر اور برہمی کے مزے لے لے کر بیان کرتی ہیں)جہالتیں ہیں، بدزبانیاں ہیں، ہاتھا پائیاں ہیں، بیماریاں ہیں، ڈھیروں بچے ہیں، لیکن پھر بھی ان میں زندگی کا ایک خط ہے جو دبائے نہیں دبتا، امنگیں اُبھرتی ہیں، جوانی اپنے کرشمے دکھاتی ہے۔ ذہن میں شرارتیں چٹکیاں لیتی ہیں اور نفس انسانی کا پہلو ان زور آزمائی کرتا ہے جن افسانوں کو میں نے بحث کے لئے منتخب کیا ہے۔ ان میں آپ کو بہت بڑی بلندی یا بہت پُر معنی گہرائی نظرنہ آئے گی۔ عمیق امن، خاموش آسودگی یا مسرت عالیہ کہیں نہ ملے گی۔ نہ وہ حزن وملال ہی ملے گا جو کہر کی طرح دل پر جم جاتا ہے اس میں ٹریجیڈی کی کوشش ہے نہ کامیڈی کی۔ لیکن انسانی خون آپ کو رگوں میں دوڑتا نظر آئے گا اس طرح دوڑتا ہوا جیسے پہاڑی ندی کا پانی دوڑتا ہے۔ لبالب اور ابلتا ہوا اور ٹکراتا ہوا اور رستہ چیرتا ہوا۔
ان افسانوں کا موضوع کیا ہے۔ اگلے وقتوں کے لوگ ان افسانوں کو (اگر ایسے افسانے انہیں ہاتھ آتے تو) عشقیہ افسانے یا ”عشقیہ افسانے ہی سمجھ“ کہتے۔ لیکن عشق کے معنی اس قدر پھیل چکے ہیں کہ عشقیہ سے یہاں کام نہ چلے گا۔ لیلیٰ مجنوں کا عشق، صوفیوں کا عشق، غزلوں کا عشق، فلموں کا عشق، امرد پرستوں کا عشق، سبھی طرح کے عشق ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں اور ہر ایک کا مزاج جدا ہے۔ اس لئے عشق کے لفظ سے نہ جانے کہنے والے کا مفہوم کیا ہو۔ اور سننے والے کیا سمجھ بیٹھیں۔ ”جنسی بھوک“ پر مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن محض اس سے بات بھی نہیں بنتی۔ کیونکہ جنسی بھوک تو اتنے بی ایڑس سے لے کر کتے کتیا تک سبھی کو لگتی ہے۔ عصمت کے افسانوں میں جو جذبہ مرد عورت کو ایک دوسرے کی طرف کھینچتا ہے اس کی کسی قدر اور تخصیص کرنی چاہئے۔ ایک بات تو ظاہر ہے اور وہ یہ کہ اس جذبے میں شاعرانہ لطافتوں کی رنگینی نہیں پائی جاتی۔ اس کا رومان سے کوئی تعلق نہیں۔ عصمت کے کسی افسانے میں مرد یا عورت کے حسن کا کبھی ذکر نہیں آتا۔ کیونکہ جو جذبہ ان کے پیش نظر ہے اس کی تحریک کے ليےحسن کی ضرورت نہیں۔ یہ محض خون کی تاریک حرارت اور جسم کی جھلسا دینے والی گرمی سے پیدا ہوتا ہے اور جب انسان کے جسم میں یہ آگ لگتی ہے تو وہ کبھی اس کو سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ کیونکہ اس آگ سے کوئی پیچیدہ نفسیاتی معمے پیدا نہیں ہوتے۔ صرف تند وتیز شراب کا سا نشہ روئیں روئیں میں سرایت کر جاتا ہے۔ دل کی کیفیتں جسم ہی سے رنگ پکڑتی ہیں۔ اور جو کرب یا تسکین بھی نصیب ہوتی ہے اس کا مظہر اول سے آخر تک جسم ہی رہتا ہے عصمت ہی کے فقرے ہیں کہ ”شہر کے تندرست لوگوں کا گھرسڑی بُسی چمرخ بیویوں سے اُجڑ جاتا ہے“۔ اور ”جب تک بدن چست ہے اور گال چکنے ہیں سب کچھ ہے اور پھر کچھ نہیں“ اور پھر ”وہ بیمار تھا تو کیا، دل تو مردہ نہ ہوا تھا پھر اس میں بیوی کا کیا قصور۔ وہ نوجوان تھی اور رگوں میں خون دوڑ رہا تھا۔ مگر وہ کبھی جھوٹ موٹ کو ہی اس سے کچھ کہتا تو وہ اینٹھ جاتی۔“ مطلب یہ کہ جسم مردہ ہو تو یہاں دل کی زندگی سے کام نہیں چلتا۔ جسم کا شعور عصمت کے افسانوں میں اس قدر نمایاں ہے کہ پڑھنے والا جسم کے متواتر ذکر سے خود مصنف کی طرح ہیبت زدہ اور مسحور ہو جاتا ہے۔ صلّو دبلا پتلا آئے دن کا مریض تھا۔ اور پھر جب جوانی آئی تو خون کی حدت سے اس کا چہرہ سانولا ہوگیا۔ اور پتلے سوکھے زرد ہاتھ سخت گٹھلی دار مضبوط شاخوں کی طرح جھلسے ہوئے بادلوں سے ڈھک گئے۔ بیگم جان کے اوپر کے ہونٹ پر ہلکی ہلکی مونچھیں تھیں اور پنڈلیاں سفید اور چکنی۔ دبّو کا گٹھا ہوا ٹھوس جسم اور کسی ہوئی چھوٹی سی توند اور بڑے بڑے پھولے ہونٹ جو ہمیشہ نمی میں ڈوبے رہتے ہیں۔ بیمار کا موٹا پڑوسی سرخ چقندر بڑی گھن دار مونچھوں والا جس کے جسم سے موڑھا بھرجاتا ہے۔ اور جس کے جبڑے چکی کی طرح چلتے ہیں۔ رانی کے چکنے چکنے سیاہ گال اور وہ دیسی جگہ کا تل۔ شبراتی کے سینے پر کتنے بال تھے، گھنے پسینے میں ڈوبے ہوئے اور اس کے کسے ہوئے ڈنرملوں اور رانوں کی مچھلیاں کیسے اچھلتی تھیں۔ اور وہ اس کی چھوٹی چھوٹی مونچھیں اور پھکنی جیسی موٹی انگلیاں۔ بہادر کے بڑے بڑے بالوں دار ہاتھ اور اس کا کافوری سینہ۔ جنّو کی کھونٹے جیسی ناک۔ غرض جسم سے کہیں چھٹکارا نہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ دل لبھانے والا جسم یا آراستہ جسم اپنے تناسب میں رعنائیاں لئے ہوئے یا پاکیزگی اور نفاست کے لئے داد طلب نہیں، بلکہ محض جسم، اپنی گرمی سے پُرنم اور مقناطیسی خون کی حرارت سے سنسناتا ہوا یہ جسم بھی ایک آفت ہے۔ یہ ہم پھر اپنی خواہشوں کے ساتھ اندھے مشٹنڈے کی طرح یا بقول عصمت کے ”جوان جاٹنی“ کی طرح سوار ہے جب خواہشیں پھنکارتی ہیں اور جسم جسم کو پکارتا ہے تو ان افسانوں کے کیریکٹر آہیں نہیں بھرتے۔ غزلیں نہیں گاتے، شعر نہیں لکھتے، بلکہ بغیرچوں وچرا کے اس پر اسرار آواز کے پیچھے ہو لیتے ہیں۔ اور وہ جدہر لے جائے بغیر سوچے بوجھے اسی طرف چل دیتے ہیں۔ مائیں گھڑکتی ہیں، ساسیں الجھتی ہیں، بے پروا لوگ غچا دے جاتے ہیں۔ افلاس کی سڑاند سے دم گھنٹا ہے لیکن اس کے قدم نہیں رکتے یا عصمت کے الفاظ میں یوں کہئے کہ ”جوانی غربت کو نہیں دیکھتی بن بلائے ٹوٹ پڑتی ہے او ربے کہے چل دیتی ہے۔ پیٹ بھر روٹی نہ ملی تو کیا، سہانے خواب تو کوئی روک نہ سکا۔ جمپر اور شلو کے نہیں جڑے تو کیا جسم نے پیر روک لئے۔ وہ تو بڑھتا ہی گیا۔“ اور یہاں غربت اور شلوکوں کی جگہ کچھ ہی رکھ لیجئے جسم کے پیر نہیں رکھتے۔
اور جب اس جسم میں طوفان آتا ہے ”اور پیٹھ پر کن کھجورے رینگنے لگتے ہیں“۔ اور دل ودماغ پر اندھی کیفیتیں طاری ہو جاتی ہیں تو یہ عجیب عجیب بیر باندھ لیتا ہے لیکن جسم اپنا بدلہ جسم ہی سے لیتا ہے چنانچہ اس کشمکش کے زیر اثر حلم اور گداز اور ملائمت نہیں پیدا ہوتی۔ کیریکٹر تخیل کے ریشم میں لپٹ کر غنودہ نہیں ہو جاتے بلکہ ان میں کرخت قسم کی اکھڑ، الھٹرپن اور درشت قسم کی شرارتیں بیدار ہوجاتی ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو چھیڑتے ہیں، دق کرتے ہیں،کچلچا کر کھٹولیوں پر پٹخ دیتے ہیں۔ ننگے جسم پر بدھیاں ڈال دیتے ہیں۔ ہونٹوں کو چٹکیوں سے مسل دیتے ہیں۔ پیر سے پیر دباتے ہیں۔ تھپڑ رسید کرتے ہیں بال پکڑ کر جھٹکے دیتے ہیں۔ دھولیں مارتے ہیں جھاپر کس کس کر لگاتے ہیں، گھسیٹتے ہیں، چچوڑتے ہیں، یعنی دل پر کچھ ہی گزرے جسم کی گرفت کبھی ڈھیلی ہونے نہیں پاتی۔ اور یہ جذبہ شروع سے آخر تک اپنے کھردرے پن اور بدویت کی شان کو نہیں چھوڑتا۔ تو پھر عصمت کے افسانوں کا موضوع جسم ہے؟ نہیں یہ کہنا تو درست نہ ہوگا۔ کیونکہ یہ افسانے بلاشبہ ادب کے دائرے میں شامل ہیں۔ اور ادب (یا کسی بھی آرٹ) کا موضوع جسم نہیں ہوسکتا۔ یعنی وہ جسم جو علم الاعضا کی کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ نہ جسم نہ چاند تارے نہ پھول نہ صحرا۔ آرٹ کو ذہنی کیفیات سے سروکار ہے کیونکہ آرٹ کا منصب ذہنی ارادات کا بیان اور بالآخر ان کیفیات کی تربیت ہے۔ یہ سب چیزیں تو محض محرکات ہیں۔ ان میں نہ سہی دوسری سہی۔ اس سے گزر جائیے کہ کس چیز کا نام لیا ہے۔ یہ دیکھئے کہ ذکر کیا ہو رہا ہے۔ اگر ذہنی کیفیات کا دخل نہ ہو تو مصور مصور نہیں ایک کیمرا ہے۔ ادیب ادیب نہیں نقل نویس ہے۔ اور جسم کا وقامع نگار علم الاعضا کا ماہر اورشارح تو بن سکتا ہے ادب پیدا نہیں کرسکتا۔
جو کچھ میں اوپر بیان کر چکا ہوں اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ عصمت کی جنسی کشش کی ماہیت واضح کر دی جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ اس کے محرکات اور مظاہر کیا ہیں۔ لیکن بحیثیت آرٹسٹ کے عصمت کو پرکھنے کے لئے بالآخر یہ دیکھنا پڑے گا کہ جنسی بھوک سے پیدا ہونے والے جذبات واحساسات کو انہوں نے کس سطح پر ابھارا ہے اپنی مخلوق کو ان سی جو رنگینی بخشی ہے وہ کس رتبے کی ہے اور روح کے لیل ونہار میں ان کا کیا مقام ہے۔ ان سوالوں کا جواب میں مجملاً اوپر ایک دو جگہ دے چکا ہوں اس سے زیادہ تفصیل شاید سودمند نہ ہو ایسی باتوں کو جہاں تک ہوسکے بحث سے مخلصی دلا کر مذاق کے سپرد کر دینا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔لیکن ایک بات ظاہر ہے کہ جو آرٹسٹ عصمت کی طرح اپنی مخلوق کو یوں حیوانات کے کنارے تک لے جاتا ہے وہ تلوار کی دھار پر چلتا ہے۔ چنانچہ ان کے مشہور افسانہ ”لحاف“ میں، میں سمجھتا ہوں ان کا قدم آخر اکھڑ ہی گیا ان کی لغزش یہ نہیں کہ اس میں انہوں نے بعض سماجی ممنوعات کا ذکر کیا ہے سماج اور ادیب کی شریعتیں کب ایک دوسرے کے متوازی ہوئی ہیں۔ میلے کے ڈھیر سے لے کر کہکشاں تک سب ہی چیزیں احساسات کی محرک ہوسکتی ہیں اور جو چیز محرک ہوسکتی ہے وہ ادب کے املاک میں شامل ہے آپ جس زمین سے چاہیں شعر کہہ لیں۔ اس سے کیا غرض کہ زمین کون سی ہے غرض تو اس سے ہے کہ شعر کیسا ہے اس لئے اس پر معترض ہونے کی ضرورت نہیں کہ انہوں نے دیسی باتوں کا ذکر کیوں کیا۔ لیکن اس کہانی کی قیمت گھٹ یوں جاتی ہے کہ اس کا مرکز ثقل (یا عسکری صاحب کی اصطلاح میں اس کا ”تاکیدی نقطہ“) کوئی دل کا معاملہ نہیں۔ بلکہ ایک جسمانی حرکت ہے۔ شروع میں یہ خیال ہوتا ہے کہ بیگم جان کی نفسیات کو بے نقاب کریں گے۔ پھر امید بندھتی ہے کہ جس لڑکی کی زبانی یہ کہانی سنائی جا رہی ہے اس کے جذبات میں دلچسپی ہوگی۔ لیکن ان دونوں سے ہٹ کر کہانی آخر میں ایک اور ہی سمت اختیار کر لیتی ہے۔ اور اپنی نظریں امنڈتے ہوئے لحاف پر گاڑ دیتی ہے۔ چنانچہ پڑھنے والا بےچارہ اپنے آپ کو اس قسم کے لوگوں میں شامل پاتا ہے جو مثلاً جانوروں کے معاشقے کا تماشا کرنے کے لئے سڑک کے کنارے اکڑوں بیٹھ جاتے ہیں۔
عصمت نے کچھ تھوڑے سے اسکیچ بھی لکھے ہیں جن میں سے ایک بھی دلچسپی، دّقت نظر اور عصمت کی مخصوص کنایہ بازی سے خالی نہیں۔ لیکن پھر بھی ان میں کوئی ”دوزخی“ کے رتبے کو نہیں پہنچتا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اردو ادب میں اس اسلوب نظر کی مثال نہیں ملتی۔ جو عصمت نے اس اسکیچ میں اختیار کیا ہے۔ ان چند صفحات میں عصمت کچھ اس طرح اپنے پروں کو پھیلا کر اڑتی ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے اپنے بلند ترین مقام پر پہنچ جاتی ہیں۔ ”میں ایک بہن کی حیثیت سے نہیں عورت بن کر… میں بہن ہو کر نہیں انسان ہو کر کہتی ہوں“۔ انہیں اس عذرخواہی کی ضرورت بھی یوں پیش آئی کہ اپنی دیانت پر تو ایمان تھا پڑھنے والوں کی دیانت پر ایمان نہیں تھا لیکن چند فقروں میں وہ اپنے خلوص اور اپنی جرأت سے پڑھنے والوں کی ہمت بلند کر دیتی ہیں۔ آرٹسٹ کسی کا بھائی نہیں ہوتا۔ کسی کی بہن نہیں ہوتی۔ احساسات اور اقدار کی دنیا میں ایسے رشتے تو محض اتفاقات کا نام ہیں۔ چند لیبل جو نہ معلوم کن چیزوں پر لگے ہوئے ہیں۔ لیبل ہٹا کر دیکھئے تو نیتوں اور وہموں کا امتحان ہوگا۔ اور ذہن جلا پائے گا۔ عصمت نے کس خود اعتماد ی کے ساتھ لیبلوں کو ہٹا کر پھینک دیا ہے اور جو زندگی میں بھی لاش تھا اس کی لاش کو بھی زندہ کر دکھایا ہے۔
مضمون ختم کرنے سے پہلے دو ایک باتیں عصمت کی زبان کے متعلق بھی کہنا چاہتا ہوں کیونکہ ان کے لغوی مذاق میں بھی ہمارے لئے ایک ہدایت ہے۔ عصمت کی انشا پر فارسی اور عربی کا اثر بہ نسبت اردو ادیبوں کے بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ او ریہ بےنیازی الفاظ تک ہی محدود نہیں بلکہ ترکیبوں اور فقروں کی ساخت میں بھی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح ان کی تحریر بجز ایک آدھ لاحاصل سی نقالی کی انگریزی تراکیب اور انگریزی اسالیب خیال سے بھی پاک ہے۔ اس زمانہ کے اکثر انشاپردازوں کو بہ وجہ اپنی تعلیم یا ماحول کے اس سے مضر نہیں کہ ان کے کلام میں وقتاً فوقتاً انگریزی کے سر بھی سنائی دے جائیں۔ اردو میں مغربی تلمیحات روز بروز بڑھتی جاتی ہیں۔ چنانچہ عام مصنفوں میں بھی اور کچھ نہیں تو ترجمہ شدہ ترکیبوں کی گٹھلیاں تو اکثر مل جاتی ہیں۔ عصمت انگریزی کے خیر وشر دونوں سے مبرا ہیں۔ یہ تو بتانا ناممکن ہے کہ وہ کیا لطف ہے جو ان کو تحریر میں پیدا ہوجاتا اور اس پاکدامنی کی وجہ سے نہ پیدا ہوا۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس کی بدولت وہ ٹھیٹھ اردو کے بہت سے ایسے الفاظ کام میں لے آئی ہیں جو آج تک پردے سے باہر نہ نکلے تھے۔ اور جن کو اب انہوں نے نئے نئے مطالب کے اظہار کے قابل بنا دیا ہے۔ گویا ادھر اردو انشا کو ایک نئی جوانی نصیب ہوئی۔ ادھر خانہ نشین الفاظ کو تازہ ہوا میں سانس لینے کا موقع ملا۔ عصمت کے فقروں میں بول چال کی سی لطافت اور روانی ہے۔ اور جملوں کا زیرو بم روز مرہ کا سا پھرتیلا زیر وبم ہے۔ اس لئے ان کے فقروں کا سانس کبھی نہیں پھولتا۔ اور ان میں منیشانہ ثقالت اور تکلف نہیں آنے پاتے۔ مختصر یہ کہ الفاظ کے انتخاب اور فقروں کی ساخت ان دونوں رستوں سے وہ انشا کی زبان کو زندگی کے قریب تر لے آئی ہیں جس کے لئے ہمیں ان کا ممنون ہونا چاہئے۔ اس نیک کام میں عصمت کے علاوہ چند اور قابل قدر اہل زبان انشا پرداز بھی شریک ہیں۔ (اور سچ تو یہ ہے کہ یہ کام اہل زبان کے سوا کسی دوسرے کے لئے کچھ ایسا آسان بھی نہیں) لیکن عصمت کے احسان کا بوجھ کچھ اس وجہ سے ہلکا نہیں ہوجاتا۔
عصمت کوئی قدآور ادیب نہیں۔ اردو ادب میں جو امتیاز ان کو حاصل ہے اس سے منکر ہونا کج بینی اور بخل سے کم نہ ہوگا۔ اور یہ مضمون بذات خود اس امتیاز کا اعتراف ہے لیکن بھول نہ جانا چاہئے کہ ہمارا افسانہ ابھی سن رشد یاسنِ بلوغ کو نہیں پہنچا۔ آج کل جب کہ نظروں کو وسعت نصیب ہورہی ہے اور دنیا بھر کا ادب کتاب کی طرح ہمارے سامنے کھلا پڑا ہے۔ اردو ادب کے قدر دانوں میں یہ حوصلہ پیدا ہونا چاہئے کہ وہ وقتاً فوقتاً اپنے ادب کا دنیا کے بہترین ادب سے مقابلہ کرتے رہیں۔ تاکہ تناسب کا احساس کند نہ ہونے پائے۔ مقامی تعصبات کی حقیقت واضح ہوتی رہے اور دل میں امنگ پیدا ہو۔ ہمارے ادب جدید کے پات ضرور چکنے چکنے ہیں لیکن اس میں ابھی بھی بڑے بڑے پھول نہیں لگے۔ اتنی حد بندی کرلینے کے بعد ہمیں اس بات کو تسلیم کرنے میں ذرا بھی تامل نہ ہونا چاہئے کہ عصمت کی شخصیت اردو ادب کے لئے باعث فخر ہے۔ انہوں نے بعض ایسی پرانی فصیلوں میں رخنے ڈال دیئے ہیں کہ جب تک وہ کھڑی تھیں کئی رستے آنکھوں سے اوجھل تھے اس کارنامہ کے لئے اردو خوانوں ہی کو نہیں بلکہ اردو کے ادیبوں کو بھی ان کا ممنون ہونا چاہئے۔
(ساقی دہلی، فروری ۴۵ء)
* * *