بی۔ اے۔ ہاشمی
کسی نے دروازے پر دستک دی۔
"آجائيے۔"
"السلام علیکم۔۔۔ امتیاز ہیں؟"
"کمرہ آپ کے سامنے ہے دیکھ لیجئے۔"
نمایاں طور مسکراتے ہوئے "میرا نام بخاری ہے امتیاز نے کہا تھا کہ وہ آپ کے پاس آئیں گے تو ابھی تک نہیں پہونچے۔ ناگوار خاطر نہ ہو تو میں یہاں بیٹھ کر ان کا انتظار کرلوں۔"
"بسم الله۔"
یوں میری اور بخاری صاحب کی ۱۹۳۰ء میں پہلی ملاقات ہوئی۔
بخاری صاحب بیٹھ گئے۔اِدھر اُدھر کی رسمی باتیں کرتے رہے پھر دہلی شہر گفتگو کا موضوع بن گیا۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک دہلی کے آثارقدیمہ سے لے کر کارخانہ داروں کے طورطریق اور رہن سہن کی باتیں ہوتی رہیں۔ سورج ڈھل گیا۔ مغرب کی اذانیں ہونے لگیں۔ بخاری صاحب بولے۔ امتیاز نہیں آئے میں نے آپ کا وقت ضائع کیا۔ زبان پر یہ لفظ تھے لیکن چہرے پر شادابی کہ اچھا کیا تیرا وقت ضائع کیا۔ پھر بولے آپ شام کو ٹہلنے نہیں جاتے۔ میں نے کہا التزاماً اس کے ليے کوئی وقت مقرر نہیں۔ جی چاہے تو چلیے۔ یوں بخاری صاحب اور میں ٹہلنے نکلے جوپھر مہینوں لیکن بےقاعدگی سے جاری رہا۔ آٹھ بجے کے لگ بھگ واپس آئے تو پھر میرے کمرے میں۔ ملازم نے کہا میاں کھانا لے آؤں۔ میں نے کہا ہاں۔ اپنی کرسی پر اطمینان سے بیٹھے ہوئے فضا کو مخاطب بنا کر بخاری صاحب بولے اب چلنا چاہیئے۔ میں نے عرض کیا دال روٹی یہیں کھا لیجیے۔ انڈوں اور دہی کے اضافے کے بعد کھانا آیا۔ ہم دونوں نے معمولی اور مختصر کھانے کو آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت میں ختم کیا۔ ساڑھے نو کے قریب بخاری صاحب بولے۔ اچھا بھائی میں چلا۔ میں گورنمنٹ کالج کے ہوسٹل کواڈرنیگل میں رہتا ہوں۔ میں بھی ہمراہی کے ليے ان کے ساتھ ہولیا۔ اور نیلے گنبد کے چوک سے واپس آگیا۔
اس کے بعد کم وبیش بلاناغہ شام کی ملاقاتوں کا سلسلہ کئی مہینوں تک جاری رہا۔
ہمارے ایک مشترکہ دوست کوبخاری صاحب کااس باقاعدگی سے میرے پاس تشریف لانا کچھ گراں گذرا۔ ایک دن وہ بولے کہ دیکھو بخاری! باوجود دیرینہ رسم کے تم میرے پاس نہیں آتے اور ہاشمی کے پاس روز آتے ہو، بخاری صاحب نے جواب دیا ملک صاحب یہ دل ملنے کے سودے ہیں۔ آپ اگر چاہتے ہیں کہ آپ کی خدمت میں روز حاضر ہوں تو میرے آنے کی ٹیوشن بلکہ 'وزیٹنگ فی' مقرر کردیجیے۔ سو روپیہ مہینے پر روز ایک گھنٹہ کے لئے مقرر وقت پر حاضر ہوا کروں گا۔ البتہ اتوار اور چھٹی کے دن نہیں۔
بخاری صاحب بڑی ہموار طبعیت کے آدمی تھے۔ اکثر باتیں ہنسی میں ٹال دیتے تھے۔ غالباً وہ چھوٹی چھوٹی ناگواریوں کو دوسروں کا مزاق اڑانے والے کا خمیازہ سمجھ کر ایسا کرتے تھے لیکن جب گرم ہوتے تو بہت گرم ہوجاتے مگر شاذونادر۔
بیدل صاحب اس زمانہ میں انارکلی کے دہلی مسلم ہوٹل میں رہتے تھے۔ ان کے پاس کبھی کبھی امتیاز، بخاری، اور چند اور دوست ملنے جایا کرتے تھے۔ ایک دن بیدل صاحب نے ازراہ شفقت دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔ کھانا شروع ہوا تو بیدل صاحب کو خیال آیا کہ بخاری صاحب کو دہی سے بہت رغبت ہے۔ بولے آپ لوگ دہی کھائیں گے۔ یک زبان ہو کر سب نے عرض کیا۔ جی ہاں۔ بیدل صاحب نے آواز دی۔ ارے لمڈے۔ ایک آنے کا دہی لے آ۔ سستا زمانہ تھا لیکن ایک آنے کا دہی تو اس وقت بھی ایک ہی آنے کا ہوتا تھا۔ بیدل صاحب یہ دہی کیا ملنے کے ليے منگایا ہے، بیدل صاحب ذرا تنک مزاج تھے، برہم ہوگئے۔ بخاری صاحب نے بھی خلاف معمول برہمی کا جواب برہمی سے دیا۔ بہرحال بات آئی گئی ہوگئی لیکن لوگ بدمزہ ہو کر لوٹے۔
بخاری صاحب غیرارادی طور پر ہمیشہ محفل کی توجہ کا مرکز خود ہی رہنا چاہتے تھے۔کبھی علم میں ٹھٹھول کی چاشنی اور کبھی ٹھٹول میں علم کی لاگ لفظوں کے الٹ پھیر سے، بات کی برجستگی سے ذہانت اور حسب موقع معصوم روئی سے وہ ہر بات اور ہر حرکت میں ایک ایسی لذت بھر دیتے تھے کہ محفل کی نگاہیں اور کان ان کے ليے وقف ہوجاتے تھے۔
ایکٹر اور تمثیل کار ایک معنوں میں خوش نصیب ہوتے ہیں۔ وہ اپنی پسند کے مطابق اپنے پارٹ تجویز کرتے ہیں۔ کبھی تخت شاہی اور کبھی کاسہ گدائی، کبھی ہمہ وقت خوش باشی اور خوش کامی اور کبھی پیہم مصائب وآلام۔ لیکن زندگی کا رنگ نرالا ہے۔ اس میں اپنی پسند اور انتخاب کو زیادہ دخل نہیں ہوتا۔ اس میں رنج اور خوشی توام ہیں۔ تاہم ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی زندگی کو تمثیل کارہی بنالے۔ مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ زندگی کا صرف وہی رخ پیش کرے جو اوروں کی خوشی اور اپنی بالیدگی کا باعث ہو۔ بخاری صاحب کی زندگی کا فلسفہ اور شیوہ یہی تھا۔ تاہم ان کے نیازمندوں میں دو تین ایسے شخص بھی تھےجن کے سامنے دکھ سے رو دیئےہوں یا خوشی سے ہنس پڑے ہوں۔ شاذونادر ہی سہی لیکن ایسا بھی ہوا ہے کہ یہ چہکنے والا بخاری اور ہر بات میں امرت گھولنے والا بخاری اپنے کسی نیازمند کے پاس آدھ آدھ گھنٹہ خاموش بیٹھا رہا ہے۔ ایسے موقعوں پر اس کا دل اس کی زبان سے زیادہ بلاغت اور ندرت سے اپنی کہتا تھا۔ اور دوسروں کی سنتا تھا۔ یہ لمحے اس کے نیازمندوں کو نہیں بھول سکتے اور خواہ کوئی خود کو کتنا ہی زبان آور اور قلم کا دھنی کہے، بیان نہیں کئے جاسکتے:
محبت کےفسانے دیدہ ودل کی امانت ہیں
خیانت سے زباں کو محرم اسرار کرلینا
بخاری صاحب احسان فراموش نہیں تھے لیکن احسان مندی کے اعلان کے بھی قائل نہ تھے۔ ان کی رائے میں اظہار احسان مندی محسن کو خفیف اور خود کو بھکاری بنا دینے کے مترادف تھا۔ محکمہ تعلیم اور پھر آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت کے زمانے میں وہ ہمیشہ جو مکھی لڑاتے رہے لیکن یہ کبھی ظاہر نہیں کیا کہ وہ عمریا زید سے برسرپیکار ہیں۔ ایک بار ریڈیو کی ملازمت کے دوران میں دشمن نے نرغہ کیا۔ وائسرائے کی ایگزیکوٹیوکونسل کے ایک مسلمان ممبر نے بےطلب ودرخواست پانسہ بخاری صاحب کے حق میں پلٹ دیا اور یوں بخاری صاحب نے تشویش سے نجات پائی لیکن اس کے بعد بخاری صاحب ان صاحب کے سامنے پڑنے سے بچتے رہے۔ میں اس قصے سے آگاہ تھا۔ ایک دن میں نے بخاری صاحب سے کہا کہ دیکھو فلاں نے تمہاری یہ مدد کی اور تم یوں طرح دے جاتے ہو کہ سامنے جاکر سلام ودعا بھی نہیں کرتے۔ وہ تمہارے شکریہ کے محتاج نہیں لیکن تمہاری شرافت کا تو یہی تقاضا ہونا چاہیئےکہ تم شکرگزار ہو۔ بولے۔ سنو بھائی یہ پرانے زمانےکے بزرگ ہیں۔ بے کہے انہوں نے کرم فرمایا تھا۔ ان کے احساس خوش کاری اور فتح مندی کو میں شکریہ کے چند جملے کہہ کر کیوں ضائع کروں۔
دوران ملازمت میں ہر ملازم کی طرح بخاری صاحب کو بھی اکثر اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے مختلف تدابیر اختیار کرنی پڑتی تھیں۔ گورنمنٹ کالج میں شعبہ انگریزی کے چیرمین کی جگہ خالی ہوئی۔ بخاری صاحب کو نظرانداز کرکے ایک فرنگی کو چیرمین بنادیا گیا۔ بخاری صاحب نے پرنسپل سے تحریری احتجاج کیا۔ اس نے اپنے فیصلے کو بحال رکھتے ہوئے بخاری صاحب کی درخواست ڈائریکٹر تعلیمات کے پاس بھیج دی۔ ڈائریکٹر نے بھی پرنسپل کےفیصلے کو بدلنے سے انکار کردیا۔ بخاری صاحب نچلے نہ بیٹھے اور درخواست صوبے کے گورنر کو محکمانہ وسیلے سے ارسال کردی۔ گورنر نے روبہ کاری کو بلایا اور کہا کہ گورنمنٹ کالج میں تو انگریزی کا چیرمین انگریز ہی کو ہونا چاہیئے۔ بخاری صاحب نے جواب دیا۔ حضور کا ارشاد بجا لیکن اگر گورنمنٹ کالج میں شعبہ انگریزی کا چیرمین انگریز ہی کو ہونا چاہیے تو اس انگریز کے پاس انگریزی کی فرسٹ کلاس ڈگری بھی ہونا چاہیئے۔ بخاری صاحب کی ڈگری فرسٹ کلاس تھی اور دوسرے شخص کے پاس سیکنڈ کلاس ڈگری تھی۔ فرنگی گورنر نے تالی بجا کر کہا کہ ملاقات نعرہ تحسین کے بعد ختم کی جاتی ہے اور بخاری صاحب شعبہ انگریزی کے چیرمین ہوگئے۔
ریڈیو کی ملازمت کے دوران میں جب وہ ڈپٹی ڈائریکٹرجنرل کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کے ایک دو سال اچھے خاصے بدمزہ سے گزرے لیکن انہوں نے کبھی اپنی پریشانی کا حال بیان نہیں کیا۔ اپنے تمام حربے استعمال کرتے رہے اور آخرکار تمام دشواریوں پر فتح پائی۔ ان کے ایک مچاٹے کا قصہ سینئے:
میں لاہور سے دلی گیا ہوا تھا۔ صرف ایک آدھ روز کے ليے۔ بغیر اطلاع بخاری صاحب سے ملنے ان کے دفتر پہنچا۔ گاڑی سے اُترا ہی تھا کے محکمے کے فرنگی افسر اعلیٰ سے آمنا سامنا ہوگیا۔ ان کی اور میری بےتکلف ملاقات تھی۔ وہ سمجھے کہ میں ان سے ملنے کو آیا ہوں۔ نہایت گرمجوشی سے ملے۔ تھوڑی سی گفتگو کے بعد جب انہوں نے اپنے کمرے میں چلنے کو کہا تو میں نے بتایا کہ میرا مقصود اس وقت بخاری صاحب ہیں۔ یہ بات اسے چبھی لیکن خلش کو دور کرنے کے ليے اس نے سلسلہ گفتگو دراز کردیا۔ اچھے خاصے پندرہ منٹ کھڑے کھڑے اور باتیں کرتے گزرگئے تو بولا چلو میں تمہیں بخاری کے کمرے میں پہنچا دوں۔ بخاری صاحب کے کمرے میں پہنچے۔ میرے اچانک پہنچنے پر متعجب اور خوش ہوئے۔ فوراً غالب کا مصرع پڑھا:
آئے خدا کرے یہاں پر نہ کرے خدا کہ یوں
مجھے بخاری صاحب کے کمرے میں پہنچا کر فرنگی رخصت ہوگیا۔ ہم دونوں باتوں میں مشغول ہوگئے لیکن چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ وہ صاحب پھر آگئے۔ کاروباری بات کی مجھ سے معافی مانگتے ہوئے بخاری صاحب سے مخاطب ہوئے کہ ایک ضروری دورے پر وہ اگلے ہفتہ خود مدراس جائیں گے اور اس ليے بخاری صاحب کے پیش نظر جو بھی پروگرام ہو وہ منسوخ کردیا جائے۔ چونکہ بخاری صاحب کو دفتر میں موجود رہنا ہوگا۔ نہایت خوش ہو کر بخاری صاحب بولے۔ آپ ضرور مدراس جائیے شکر کا مقام ہے کہ میں گرمی کے زمانے میں ریل میں بیٹھ کر ریگستان کی خاک پھانکنے سے بچ گیا۔ دلی کا خوشگوار موسم، دفتر کا دل پسند کمرہ، میں نہایت خوشی سے دفتر میں رہوں گا۔
وہ فرنگی افسر اعلیٰ بخاری صاحب کو میرے آگے ہلکا بنانے آیا تھا لیکن خود سبک ہو کر واپس ہوگیا مگر خراشیدہ راہست قصد خراش۔ دس منٹ کے بعد پھر آیا اور بولا بخاری صاحب مجھے کاغذات دیکھتے ہوئے خیال آیاکہ اگلے ہفتہ ایک دو معاملات کے ليے میری دلی میں موجودگی ضروری ہوگی۔ اس ليے اب تم ہی دورے پر مدراس چلے جاؤ۔ بخاری صاحب اچھل پڑے۔ تالیاں بجانے لگے۔ "الله وہ تاڑ کے لمبے لمبے جھومتے ہوئے درخت، وہ نیلا سمندر، وہ خاموش فضائیں، وہ فلاں اور فلاں سے ملاقات، یقین جانو صعوبت سفر دو لمحے بھی یاد نہ رہے گی"۔ اس شخص نے بھونچکا ہو کر بخاری صاحب کا منہ دیکھا اور کچھ کہے بغیر کلغی گرائے کمرے سے چلا گیا۔ میں اس ڈرامے کا تماشائی تھا۔ بخاری صاحب بولے۔ بھائی اگر یہ سال بھر اور رہ گیا تو یہاں سے پاگل خانے جائے گا۔
قصہ مختصر سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں لیکن آل انڈیا ریڈیو کا فرنگی چند ماہ کے بعد ملازمت سے سبکدوش ہو کر ہندوستان سے رخصت ہوگیا اور بخاری صاحب آل انڈیا ریڈیو کے افسر اعلیٰ مقرر ہوئے۔
بخاری صاحب آل انڈیا ریڈیوکے کنٹرولر جنرل ہوگئے لیکن بوجوہ یہ زمانہ بخاری صاحب کے دوستوں اور بخاری صاحب کے ليے خود ایک آزمائش کا دور تھا۔ آل انڈیا ریڈیو ایک نیا اور اس ليے پھیلنے اور بڑھنے والا محکمہ تھا۔ روز نئی نئی نوکریاں نکلتی تھیں اور ہرنوجوان اس محکمہ میں نوکری کا خواہشمند تھا۔
بخاری صاحب کے دوستوں نے پندار تعلقات میں سفارشی خطوط لکھنے شروع کئے اور اپنے اپنے امیدوار کی ناکامی پر ابتدا میں خفیف سی خفگی اور بعد ازاں رنجش کا اظہار شروع کردیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ میں نے کبھی کسی کی سفارش بخاری صاحب سے نہ کی۔ لیکن ایک روز گفتگو کرتے ہوئے ان سے عرض کیا کہ مرد خدا فلاں دوست نے جو ہمارا محترم اور محسن ہے اپنے بیٹے کے ليے تمہیں لکھا اور تم آئیں بائیں شائیں کرگئے۔ یہ کیا طور ہے صاف لکھ دیتے کہ اس کو ملازمت دینا ممکن نہیں لیکن لیت ولعل میں ڈال دینا قطعی غلط ہے۔ بخاری صاحب نے جواب کی تمہید میں سرکاری قسم کی توجہیات پیش کیں جن سے ہر سرکاری ملازم واقف ہوتا ہے۔ پھر کہا کہ بھائی ہر ایک خواہش مند کونوکری کہاں سے دوں البتہ میں اس کمی اور کوتاہی کو اور ذرائع سے پورا کردیتا ہوں۔ مثلاً کوئی فلاں صاحب کا خط لائے تو میں کہہ دوں گا۔ دفتر میں خط لائیے۔ اور فلاں صاحب کا خط ہو کھول کر پڑھتا ہوا برآمدے میں آکر عرض گزاروں سے ملاقات کروں گا۔ غرض یہ کہ اسی طرح کسی سے دفتر کے کمرے میں اور کسی سے ڈرائنگ روم میں ملتا ہوں۔ بہت محترم اور عزیز دوستوں کے سفارشیوں کو گھر پر ٹھہرا بھی لیتا ہوں۔موٹر میں صفدرجنگ اور ہمایوں کے مقبرے کی سیر بھی کرادیتا ہوں۔ نہایت لذیذ گفتگو کے بعد بولے کہ بھائی سفارشی خطوط کی پذیرائی اس سے زیادہ اور کیا کرسکتا ہوں۔
بخاری صاحب نے شعرونثر میں بہت ہی کم لکھا ہے۔ شعر میں ایک نظم جس کا عنوان میں بھول رہا ہوں اور شاید کبھی چھپی بھی نہیں۔ دو تین غزلیں اور چند متفرق شعر۔ نثر میں پطرس کے مضامین کے علاوہ ایک کہانی عشق کی خودکشی اور چند متفرق مضامین جو کہکشاں میں چھپے اور گالزوردی کا ایک ترجمہ سیب کا درخت۔ مجھے یاد نہیں کہ انگریزی میں ایک دو مضمون کے علاوہ جو پاکستان ٹائمز میں چھپے اور کوئی چیز بخاری صاحب نے لکھی ہو۔ اس سرمایہٴ ادب کی سب سے بڑی خوبی اور خصوصیت اس کا انوکھاپن ہے۔۔۔ وہ پچیس تیس بلکہ چالیس پچاس شعر کہتے۔ دو ایک دوستوں کو ایک ایک کرکے کبھی ایک کبھی دوسرا شعر سناتے۔ تنقید سے مستفیض ہوتے جو شعر معیار پر پورا اترتا اسے رکھتے اور باقی اس طرح بھول جاتے جیسے کبھی لکھے ہی نہ تھے۔
میرا مقصد یہ نہیں کہ بخاری صاحب پر بحیثیت ادیب یا نقاد کچھ عرض کروں۔ مجھ سے بہتر بہت سے حضرات ہیں جو مبسوط مضامین تحریر فرمائیں گے۔ البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ بخاری صاحب کو قدرت نے یہ دولت فراوانی سے عطا فرمائی تھی کہ وہ چھپے ہوئے کونوں میں اپنی ذہانت کی روشنی ڈال دیں اور ان گوشوں کو منور کردیں کہ دیکھنے والوں کی نگاہیں خیرہ ہوجائیں۔
بخاری صاحب محفل سازی اور محفل آرائی میں فرد تھے۔ اعلان آزادی کے بعد گورنمنٹ کالج میں پرنسپل مقرر ہوئے تو پھر طالب علمی کے زمانے سے ملتی جلتی محفلیں گرم کرنے کی سوجھی۔ میں اس زمانے میں ٹریننگ کالج میں تھا اور اس لئے بہرنوع ان کے بہت قریب۔ سال ڈیڑھ سال ایسا گذرا کہ 'من دانم ودل داندود انددل من' ہم دونوں کو بہت سی آسانیاں میسر تھیں، اس ليے بلالحاظ وقت یا قید لباس جب جی میں آیا ایک دوسرے کے پاس پہنچ گئے۔ شام کے بعد اور رات گئے تک کی صحبتوں میں، میں شریک نہ ہوسکتا تھا۔ میں ہمیشہ سے اس معاملے میں کچا ہوں اس ليے اس وقت بخاری صاحب موٹر میں بیٹھ کر ادھر اُدھردوستوں پر یورش کیا کرتے تھے بلکہ ملاقاتوں کو یقینی بنانے کے ليے انہوں نے ہر دس پندرہ دن کے بعداپنے گھر رات کے کھانے کی دعوتوں کا سلسلہ شروع کیا جو کئی مہینے چلتا رہا۔ دعوتوں میں ان کے پانچ چھ نیازمند شریک ہوتے تھے ان موقعوں پر وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ میرے دوستوں کا خون سفید ہے۔ کھانے کو بلاؤ تو بلاتامل آبیٹھتے ہیں، ویسے ادھر کا کبھی رخ بھی نہیں کرتے۔ دس بارہ برس گذرگئے لیکن:
کسے کہ محرم باد صبا است میداند
کہ باوجود خزاں بوئے یاسمین باقی است
یہ قصے کہاں تک لکھے جاؤں اگر اس زمانے میں انتہائی عدیم الفرصتی نہ ہوتی تو بھی یہ داستان اتنی طویل ہے کہ اس کا لکھنا میرے بس کی بات نہیں۔ ایک بار میں نے بخاری صاحب سے کہا کہ میرے نزدیک 'کلچرڈ' آدمی کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ وہ تنہائی سے نہ گھبرائے اور آپ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تنہائی سے خوف زدہ رہتے ہیں یعنی میرے نزدیک آپ کلچرڈ آدمی نہیں ہیں یا میری 'کلچرڈ' ہونے کی تعریف غلط ہے۔ باوجود میرے کچھ کہنے کے کوئی جواب نہ دیا۔ چہرے پر افسردگی نمایاں ہوگئی۔ میرا گمان ہے کہ بخاری صاحب کے تحت الشعور میں ان کی زندگی کے کم از کم آخری دس پندرہ سالوں میں جان لیوا مرض کا دھڑکا لگا رہتا تھا۔ ضبط نے کبھی انہیں اجازت نہ دی کہ وہ اس کو ظاہر کریں۔ لیکن وہ ہمیشہ انجام مرض سے خائف رہے۔ اس دن کے بعد میں نے اس قسم کی کوئی بات بخاری صاحب سے نہ کی۔
* * *