Noo Insan Ki Kahani (نوع انسان کی کہانی)

نوع انسان کی کہانی

 
دنیا کی ابتدا
ہماری ہستی ایک بہت بڑا گورکھ دھندا ہے۔
ہم کون ہیں؟
ہم کہاں سے آئے ہیں؟
ہم کہاں جا رہے ہیں؟
ان سوالات کا جواب افق سے بھی پرے کہیں اور ہمارا انتظار کر رہا ہے اور ہم بہت ہی آہستہ آہستہ لیکن بڑے استقلال اور ہمت کے ساتھ اس کے قریب پہنچ رہے ہیں۔
لیکن ابھی ہم کچھ بھی مسافت طے نہیں کی!
ابھی ہمیں کچھ نہیں معلوم۔
ابھی ہمیں کچھ نہیں معلوم۔ تاہم اتنا کچھ جان گئے ہیں کہ اپنے علم کی بدولت کئی اور باتیں بہت حد تک بوجھنے کے قابل ہوگئے ہیں اس باب میں، میں تمہیں یہ بتاؤں گا کہ ظہور انسان سے پہلے جہاں تک ہمیں معلوم ہے دنیا کا کیا حال تھا!
اگر ہم یہ اندازہ لگائیں کہ کرہٴ زمین پر جان دار اشیاء کا وجود کتنے عرصہ سے ممکن ہے اور مدت کو اس لکیر سے ظاہر کریں کہ جو ننھی سی لکیر اس کے نیچے کھینچی گئی ہے وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ انسان یا انسان کی طرح کی مخلوق یہاں کتنے عرصہ سے رہتی ہے۔
انسان سب آخر میں آیا لیکن عقل کے ذریعے قدرت کی طاقتوں کو تسخیر سب سے پہلے کیا۔ اسی لئے ہم بلیوں یا کتوں یا گھوڑوں یا دوسرے جانوروں کی بجائے انسان ہی کی تاریخ کا مطالعہ کریں گے گو اپنی اپنی جگہ ہر ایک کی تاریخ بہت دلچسپ ہے۔
    جہاں تک ہمیں معلوم ہے۔ یہ کرئہ ارض جس پر ہم آباد ہیں شروع شروع میں شعلہ بار مادے کا ایک بہت بڑا گولہ تھا جو فضا کے ناپیدا کنار سمندر میں دھوئیں کے ایک ننھے سے بادل کی مانند اڑ رہا تھا۔ رفتہ رفتہ کئی سال بعد جب زمین کی سطح جل چکی تو اس پر چٹانوں کی ایک ہلکی سی تہہ نمودار ہوئی ان بنجر چٹانوں پر موسلا دھار مینہ برسا سخت پتر بارش کے پانی میں تحلیل ہوگئے۔ اور گدلا پانی وادیوں میں بہہ نکلا جو گرم گرم زمین کی اونچی اونچی پہاڑیوں کے درمیان چھپی ہوئی تھی۔
آخر ایک ایسا زمانہ آیا جب سورج نے بادلوں میں اپنا چہرہ نکالا اور دیکھا کہ اس ننھے سے کرے کی سطح پر پانی نے چند تالاب سے بن گئے ہیں یہی تالاب بعد میں مشرقی او رمغربی نصف کروّں کے عظیم الشان سمندر بن گئے۔
    پھر ایک دن ایک حیرت انگیز معجزہ ظہور میں آیا بے جان دنیا نے جان دار چیزوں کو جنم دیا۔
    پہلا جان دار ذرہ سمندر کی سطح پر نمودار ہوا۔
    کئی سال تک یہ ذرہ پانی کے بہاؤ کے ساتھ بہتا رہا۔ اس عرصے میں رفتہ رفتہ زمین کے ناموافق حالات سے مانوس ہوتا گیا اور بالآخر زندگی کی مشکلات پر قابو پالیا۔ بعض ذرے ایسے بھی تھے جو جھیلوں اور جوہڑوں کی تاریک گہرائیوں ہی میں خوش رہتے تھے بہت سی مٹی اور کیچڑ پہاڑوں کی چوٹیوں سے بہہ کر نیچے آگئی تھی اس میں جڑیں پکڑ لی اور پودے بن گئے بعض نے کسی جگہ ٹھہرنا پسند نہ کیا یونہی ادھر ادھر گھومتے رہے۔ ان کے جسم میں سے بچھوؤں کی سی عجیب وغریب جوڑ دار ٹانگیں نمودار ہوئیں۔ اور وہ سمندر کی تہ میں پودوں اور ان سبزی مائل لوتھڑوں کے درمیان جو جیلی مچھلیوں سے مشابہ تھے رینگنے لگے۔ بعض چھلکوں والے ذرے ایسے بھی تھے جنہیں خواراک کی تلاش میں ادھر ادھر تیرنا پڑا ان کی بدولت سمندر رفتہ رفتہ کروڑوں مچھلیوں سے آباد ہوگیا۔
    اس عرصے میں پودوں کی تعداد بہت بڑھ گئی۔ انہیں رہنے کے لئے نئی نئی جگہیں تلاش کرنی پڑیں۔ صوعاً وکراہاً پانی کو الوداع کہا اور پہاڑوں کے دامن میں کیچڑ اور دلدلوں کے اندر سکونت اختیار کر لی۔ دن میں دو دفعہ جو ار بھاٹے کی وجہ سے نمکین سمندر کی لہروں سے ہم آغوش ہوتے۔ لیکن ساتھ تمام وقت بڑی بے چینی سے کاٹتے اور رقیق ہوا میں جو زمین کی سطح کو لپٹی ہوئی تھی۔ زندہ رہنے کی کوشش کرتے کئی صدیوں کی تربیت کے بعد اس قابل ہوئے کہ جس طرح پہلے پانی میں رہتے تھے۔ اسی آسانی کے ساتھ اب ہوا میں رہنے لگے۔ بڑے ہوئے تو جھاڑیاں اور درخت بنے اور آخر کار خوب صورت پھول پیدا کرنا سیکھا۔ جب پھول اُگے تو بھنورے آکر رس چوسنے لگے۔ پرندے دور دور تک بیج اڑا کر لے گئے یہاں تک کہ سب زمین پر سبزے نے اپنی بسات بچھا دی۔ او ربڑے بڑے درختوں نے اپنے سائبان پھیلا دیئے۔
    بعض مچھلیوں نے بھی سمندر سے باہر قدم رکھا اور گلپھڑوں کے بجائے پھیپھڑوں سے سانس لینا سیکھا۔ ایسے جانوروں کو خاکابی کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ دو خشکی اور تری دونوں جگہ آسانی سے زندگی رہ سکتے ہیں کسی میڈنگ سے پوچھو تو وہ تمہیں بتائے گا کہ خاکابی جانور کس مزے سے زندگی بسر کرتے ہیں۔
جب ایک دفعہ پانی سے باہر نکل آئے تو یہ جانور رفتہ رفتہ خشکی ہی کے ہو رہے بعض نے رینگنا سیکھا اور سنسان جنگلوں میں کیڑے مکوڑوں کے ساتھ رہنے لگے۔ نرم نرم زمین پر تیزی سے جلنے کی خواہش پیدا ہوئی تو رفتہ رفتہ ٹانگیں بڑی ہوگئیں۔ ساتھ ہی جسامت بھی بہت بڑھ گئی۔ چنانچہ دنیا بڑے جانوروں سے آباد ہوگئی۔ علم حیوانات کی کتابوں میں اختیا سورس (Iehthyosaurus) میگلاسورس (Megalosaurus) اور برانتو سورس (Brantosaurus) نامی جانوروں کا ذکر آتا ہے جو تیس تیس چالیس چالیس فٹ لمبے تھے اور ہاتھیوں سے اس طرح کھیل سکتے تھے جس طرح بلی اپنے بچوں سے کھیلتی ہے۔
    ان رینگنے والے جانوروں میں سے بعض جانور درختوں پر جا چڑھے اور وہیں رہنے لگے (درخت ان دنوں سب سے زیادہ اونچے نہ تھے) چنانچہ پھرنا موقوف ہوگیا تو ٹانگوں کی بھی ضرورت نہ رہی لیکن ایک شاخ سے دوسری شاخ تک پھرتی سے حرکت کرنے کے لئے اپنی جلد کی جھلی سی بنائی اور اسے اگلے پاؤں کی انگلیوں کے درمیان اس ٹانگ سے اس ٹانگ تک پتنگ کی طرح پھیلا لیا۔ پھر اس جھلی پر پر لگائے دم سے مڑنے تڑنے کا کام لیا۔ ڈال ڈال اڑنے لگے اور سچ مچ کے پرندے بن گئے۔
اس کے بعد ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ بڑے عظیم الحبثہ رینگنے والے جانور سب کے سب مر گئے اس کا سبب آج تک معلوم نہیں ہوسکا شاید آب وہوا یک لخت تبدیل ہوگئی۔ یا شاید بھوک کے مارے مرگئے کیونکہ بہت ممکن ہے وہ اتنے بڑے ہوگئے ہوں کہ نہ تیرنے کے قابل رہے ہوں نہ چلنے کے نہ رینگنے کے اور بڑے بڑے پودے اور درخت سامنے دکھائی دے رہے ہوں لیکن وہ ان تک پہنچ نہ سکتے ہوں بہرحال بڑے بڑے رینگنے والے جانور دس لاکھ سال تک اس دنیا پر مسلط رہے او رپھر یہاں سے چل بسے۔
    ان کی جگہ بالکل ہی مختلف جانوروں نے لے لی۔ یہ اولاد تو انہی رینگنے والے جانوروں کی تھی لیکن ان میں بڑا فرق یہ تھا کہ اپنے بچوں کو چھاتیوں کا دودھ پلاتے اس لئے انہیں دودھ پلانے والے جانوروں نے بعض ایسی عادات سیکھ لیں جن کی بدولت ان کی نسل کو باقی تمام جانوروں پر فوقیت حاصل ہوگئی۔ جب تک بچے پیدا نہ ہو جاتے مادہ اپنے انڈے جسم کے اندر ہی اٹھائے اٹھائے پھرتی۔ باقی سب جانور تو اپنے بچوں کو گرمی اور سردی کے رحم پر چھوڑ دیتے لیکن دودھ پلانے والے جانور بہت مدت تک اپنے بچوں کے ساتھ رکھتے۔ اور جب تک وہ طاقت ور ہو کر دشمن کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ ہو جائیں خود ان کی حفاظت کرتے۔ اس طرح دودھ پلانے والے جانوروں کے بچے کئی باتیں اپنی ماں سے سیکھ لیتے اور زیادہ آسانی سے زندہ رہ سکتے۔ کسی بلی کو دیکھو کس طرح بچوں کو اپنی حفاظت کرنا اور منہ دھونا اور چوہے پکڑنا سکھاتی ہے۔
    لیکن ان دودھ پلانے والے جانوروں کے حالات بہت تفصیل کے ساتھ بتانے کی ضرورت نہیں۔ تم انہیں اچھی طرح جانتے ہو وہ تمہارے ارد گرد ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ بازار میں اور گھر پر وہ تمہارے ساتھ رہتے ہیں و رجو اتنے عام نہیں انہیں تم چڑیا خانے میں جا کر دیکھ سکتے ہو۔
    ان بے شمار بے زبان جانورں میں سے ایک جانور نے باقی سب سے الگ اپنے لئے ایک رستہ نکالا۔ عقل وشعور سے کام لیا اور اس کی بدولت زندگی کی کشمکش میں اپنی نسل کی رہنمائی کی۔ یہ جانور ”انسان “ کہلایا۔
    تھا تو یہ بھی دودھ پلانے والا جانور لیکن خوراک مہیا کرنے اور جان بچانے میں سب سے ہوشیار تھا۔ پہلے اگلی ٹانگوں سے شکار پکڑنے کی عادت ڈالی۔ ہوتے ہوتے پنجے کی شکل ہاتھ کی سی بن گئی۔ پھر بے انتہا کوششوں کے بعد پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہونا سیکھا۔ (یہ کرتب اب بھی کچھ ایسا آسان نہیں۔ انسان دس لاکھ سال سے اس کا عادی ہے پھر بھی بچے کو یہ از سر نو سیکھنا پڑتا ہے۔)
    یہ جانور دیکھنے میں کچھ بندر، کچھ بن مانس سے ملتا جلتا تھا لیکن ذہانت میں دونوں سے بڑھ کر تھا۔ شکار میں کوئی اس کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا ہر قسم کی آب وہوا میں رہ سکتا تھا۔ ایک مقام سے دوسرے مقام تک جاتا تو حفاظت کی خاطر ہم جنسوں کی ایک ٹولی بنا کر سفر کرتا۔ بچوں کو خطرے سے آگاہ کرنے کے لئے عجیب وغریب آوازیں نکالتا۔ کئی لاکھ سال بعد انہیں آوازوں سے گفتگو کرنا سیکھا۔
تمہیں یقین تو مشکل سے آئے گا۔ ہم تو سب اسی جانور کی اولاد ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے۔
    وہ سچ جو کبھی جھوٹ نہ ہوگا
    میں انسانی زندگی کی الجھنوں پر جس قدر غور کرتا ہوں اتنا ہی مجھ پر روشن تر ہوتا جاتا ہے کہ جس طرح قدیم مصر کے لوگ بخشش اور نجات کے لئے آئیس اور نیفتیس کا دامن پکڑتے تھے اسی طرح ہمیں اپنی مشکات کے حل کے لئے طنز اور رحم کا دامن پکڑنا پڑتا ہے۔
    طنز اور رحم سے بڑھ کر کوئی چیز ہماری مشکل کشا نہیں ہو سکی۔ طنز سے زندگی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پیدا ہوتی ہے اور رحم اپنے آنسوؤں سے زندگی کو مقدس بناتا ہے۔
    جس طنز کو میں اپنا دیوتا بنانا چاہتا ہوں وہ کوئی منگدل دیوتا نہیں۔ وہ محبت اور حسن کا مضحکہ نہیں اڑاتا وہ حلیم اور مہربان دیوتا ہے اس کا تبسم دشمنوں کو بھی دوست بنا لیتا ہے اور وہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ احمقوں اور ظالموں پر ہنسو ان سے نفرت مت کرو۔ کیونکہ یہ کمزوری کی نشانی ہے۔
    ایک بہت بڑے فرانسیسی کے ان دانش مندرانہ الفاظ پرمیں اس کتاب کو ختم کرتا ہوں اور رخصت چاہتا ہوں۔ خدا حافظ۔

ماخوذ از کتاب ”نوع انسان کی کہانی“ مصنفہ ہنڈرک فان لون

مترجم پطرس

* * *