(وزیر آغا)
پطرس کی تحریف نگاری کے بارے میں کچھ کہنے سے قبل تحریف یا پیروڈی کے مزاج کے بارے میں بعض باتوں کا اظہار ضروری ہے۔ پیروڈی یا تحریف کسی تصنیف یا کلام کی ایک ایسی لفظی نقالی کا نام ہے جس سے اس تصنیف یا کلام کی تضحیک ہوسکے۔ تحریف کا بنیادی اور امتیازی عنصر ”نقل“ ہے لیکن نقل بذاتہ کوئی مضحک پہلو پیدا نہیں کرتی۔ مثلاً فیشن، ایک خاص انداز یا اندازِ نظر کی نقل ہی تو ہے لیکن یہ سارا عمل سنجیدگی سے مملو ہے۔ اور ہنسی کو تحریک نہیں دیتا۔ اسی طرح بچے غیر ارادی طور پر اپنے بڑوں کے اعمال کی نقل کرتے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی سعی کرتے ہیں اور دراصل یہ نقل فطرت کا وہ طریقِ کار ہے جو تجربے کے عمل کو قطع کرکے تہذیبی ارتقاء کی دوڑ میں انسان کو سرگرم عمل کرتا اور اسے جلد از جلد گزرے ہوئے تہذیبی مراحل سے آشنا کرتا ہے لیکن جب یہی نقل اس مقصد کے ساتھ عالم وجود میں آئے کہ اصل کی تضحیک سے سامان انبساط بہم پہنچا سکے تو تحریف یا پیروڈی کی صف میں شمار ہوتی ہے۔ چنانچہ تحریف کا امتیازی وصف یہ ہے کہ تحریف اعمال، اشیاء یا تخلیقات کی ”عظمت“ کو زندگی کے غیر اہم مظاہر سے مربوط کرکے ”عظمت“ کے سحر کا پردہ چاک کرتی اور ناظر کو کھلکھلاکے ہنسنے پر آمادہ کرتی ہے، دراصل تحریف کی کامیابی کا راز ہی اس بات میں ہے کہ یہ عقیدت، جذباتی وارفتگی اور اندھا دھند تقلید کے عمل اور اس عمل کی بیزارکن یک رنگی کا ناظر کو احساس دلائے اور اسے ”عادت“ کے حصار سے لحظہ بھر کے لئے رہائی دلانے میں کامیاب ہوسکے۔ چنانچہ جتنی جذبات گوئی کیفیت ہوگی اور جتنے انہماک، خود سپردگی اور والہانہ پن کا یہ مظاہرہ کرے گی اتنا ہی تحریف کی زد میں بھی آجائے گی۔ شاید اسی لئے کامیاب ترین تحریف ہمیشہ وہی ہوتی ہے جو مقبول عام نظریات کی جذباتی نوعیت کو طشت ازبام کرتی اور ایک خاص ڈگر پر چلتی ہوئی زندگی کا رخ موڑ دیتی ہے چنانچہ قابلِ تحریف نگارشات یا نظریات کے لئے پہلے زبان زدِ خاص وعام ہونا ضروری ہے ورنہ تحریف کا وہ نوکیلا نقطہ ابھر کر سامنے نہیں آسکے گا جو بلند کو پست کے ساتھ مربوط کرکے ایک مضحکہ خیز صورت حال کو جنم دیتا اور جذباتی ابال میں شگاف پیدا کرکے زندگی کو اپنی نارمل سطح حاصل کرنے میں مدد بہم پہنچاتا ہے۔
تحریف کا مقصد کیا ہے؟… مقصد کے تعین کے سلسلے میں تمام اہل نظر متفق نہیں ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ تحریف کا مقصد بجز تفریح اور کچھ نہیں ہونا چاہئے، یعنی سنجیدہ، کام کاج، جذباتی انہماک اور خود سپردگی کے ایک طویل وقفے کے بعد اعمال اور کیفیات کی وقعت کو کم کرکے تفریح مہیا کرنا ہی تحریف کا سب سے بڑا مقصد ہے لیکن بعض اہل نظر اس سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ تحریف ایک سنجیدہ مقصدلے کر برآمد ہوتی ہے۔ اس کے پیش نظر معاصر ادیبوں کی بےاعتدالیوں کو روکنا اور ان کی اصلاح کرنا ہی اہم ترین مقصد ہے،اصل بات ان دونوں نظریوں کے بین بین ہے یعنی تحریف کا مقصد نہ صرف تفریح بہم پہنچانا ہے اور نہ اس کے پیش نظر محض اصلاح کا نظریہ ہونا چاہئے۔ چنانچہ تحریف یا پیروڈی ایک ایسا حربہ ہے جسے مزاح نگار بھی استعمال کرتا ہے اور طنز نگار بھی مزاح نگار اس سے آسودگی relief کے حصول میں مدد لیتا ہے اور طنز نگاری اس کا سہارا لے کر معاشرے کی ناہمواریوں کو ہدف طنز بناتا ہے۔ چنانچہ تحریف کے ضمن میں اصل بات کسی مقصد کا تعین نہیں بلکہ یہ ہے کہ تحریف نگار اصل کی ایسی لفظی نقالی کا نمونہ پیش کرے کہ اصل کی تضحیک ہوسکے، تضحیک کے بنیادی عناصر مزاح تک بھی محدود ہوسکتے ہیں۔ اور پھیل کر طنز کا احاطہ بھی کر سکتے ہیں اور یہ چیز موضوع اور ماحول کے تابع ہے چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحریف کے قیمتی عنصر اس کی اپنی ہئیت ہے۔ جتنی کامیاب اس کی ہیئت ہوگی اور جتنی کامیابی سے یہ اصل اور نقل میں ہم آہنگی اور تضاد کو نمایاں کرسکے گی۔ اتنا ہی یہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوگی چاہے یہ مقصد محض آسودگی کی تحصیل ہو یا جذبہٴ افتخار کی تسکین۔
پطرس کے ہاں تحریف کے یہ دونوں رخ ملتے ہیں۔ یعنی ان کی ایک تحریف نے تو آسودگی کے احساس کو جنم دیا ہے اور دوسری نے بعض ناہمواریوں اور بے اعتدالیوں کو ہدف طنز بنایا ہے۔ ہیئت کے لحاظ سے بھی ان دونوں تحریفوں میں ایک نمایاں فرق ہے۔ ایک تحریف قطعاً لفظی ہے اور اس میں محض الفاظ کی معمولی تبدیلی سے اصل کا حلیہ اس طور بگاڑ دیا جاتا ہے کہ اصل سے ناظر کا جذباتی تعلق بڑی حد تک ختم ہوجاتا ہے اور ہنسی کو تحریک مل جاتی ہے دوسری تحریف لفظی نہیں بلکہ صرف ایک مخصوص طریق کار اور ایک خاص انداز نظر کی نقل تک محدود ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ بھی ہے کہ پہلی تحریف براہِ راست اصل سے متعلق ہے لیکن دوسری نے اصل کا سہارا لے کر ایک بالکل مختلف میدان میں اپنے جوہر دکھائے ہیں، پہلی تحریف ”اردو کی پہلی کتاب“ پر پطرس کی مشہور پیروڈی ہے اور دوسری میں انہوں نے جغرافیہ لکھنے کے عام انداز کا تو ایک خاص حد تک لیکن بعض سماجی بے ضابطگیوں کا ایک بڑی حد تک مذاق اُڑایا ہے تاہم ان دونوں تحریفوں میں تحریف کے بعض بنیادی عناصر کو اس درجہ ملحوظ رکھا گیا ہے کہ ہم ان کو اردو کی زبان کی بہترین تحریفات میں شمار کرنے پر مجبور ہیں۔ پطرس کی پہلی تحریف ”اردو کی آخری کتاب“ سے یہ چند نمونے دیکھئے۔
|
”دیکھنا بیوی آپ بیٹھی پکا رہی ہے ورنہ دراصل یہ کام میاں کا ہے، ہر چیز کیا قرینے سے رکھی ہے دھوئے دھائے برتن صندوق پر چنے ہیں تاکہ صندوق نہ کھل سکے۔ ایک طرف نیچے اوپر مٹی کے برتن دہرے ہیں کسی میں دال ہے کسی میں آٹا اور کسی میں چولہے پھکنی اور پانی کا لوٹا پاس ہے تاکہ جب چاہے آگ جلالے جب چاہے پانی ڈال کر بجھا دے۔ آٹا گندھا رکھا ہے چاول پک چکے ہیں۔ نیچے اتار کر رکھے ہیں۔ دال چولہے پر چڑھی ہے غرضیکہ سب کام ہوچکا ہے لیکن یہ پھر بھی پاس بیٹھی ہے۔ میاں جب آتا ہے کھانا لا کر سامنے رکھتی ہے پیچھے کبھی نہیں رکھتی۔ کھا چکتا ہے تو کھانا اٹھا لیتی ہے۔ ہر روز یوں نہ کرے تومیاں کے سامنے ہزاروں رکابیوں کا ڈھیر لگ جائے“۔ ------------------کھانا خود بخود پک رہا ہے۔ ”بڑی محنت کرتا ہے شام کو بھٹی چڑھاتا ہے دن بھر بے کار بیٹھا رہتا ہے کبھی کبھی بیل پر لادی لادتا ہے اور گھاٹ کا راستہ لیتا ہے کبھی نالے پر دھوتا ہے کبھی دریا پر تاکہ کپڑوں والے کبھی پکڑ نہ سکیں۔ جاڑا ہو تو سردی ستاتی ہے۔ گرمی ہو تو دھوپ جلاتی ہے صرف بہار کے موسم میں کام کرتا ہے۔۔۔ میاں دھوبی یہ کتا کیوں پال رکھا ہے۔ صاحب کہاوت کی وجہ سے اور پھر یہ تو ہمارا چوکیدار ہے۔ دیکھئے امیروں کے کپڑے میدان میں پھیلے پڑے ہیں کیا مجال کوئی پاس تو آجائے جو لوگ ایک دفعہ کپڑے دے جائیں پھر واپس نہیں لے جا سکتے۔ میاں دھوبی تمہارا کام بہت اچھا ہے۔ میل کچیل سے پاک صاف کرتے ہو، ننگا پھراتے ہو“۔ ---------------دھوبی آج کپڑے دھو رہا ہے۔۔۔ |
|
تحریف کے مندرجہ بالا نمونے جو پطرس کی پیروڈی ”اردو کی آخری کتاب“سے لئے گئے ہیں۔ اس بات پر دلائل ہیں کہ پطرس نے اپنی اس تحریف میں تحریف نگاری کے مقتضیات کو پوری طرح ملحوظ رکھا ہے مثلاً ان کی یہ تحریف لفظی ہے اور اصل کی جذباتیت کا بےرحم تجزیہ پیش کرتی ہے۔ دوسرے یہ تحریف ایک ایسی تحریر کی پیروڈی ہے جو اب زبان زدِ خاص وعام ہو چکی ہے اردو کی پہلی کتاب کے یہ مضامین کسی زمانے میں مولانا محمدحسین آزاد نے لکھے تھے۔ او رپھر اپنی رواں داں کیفیت ، ڈرامائی انداز اور اظہار بیان کی سادگی کے باعث اس درجے مقبول ہوئے کہ ایک عرصہ دراز تک ان کو بدلنے کی ضرورت نہ کی گئی چنانچہ ان کے بار بار مطالعہ سے ایک ایسی بیزار کن یک رنگی پیدا ہوگئی اور تکرار نے ان کے نوکیلے کنارے اس حد تک کند کر دیئے کہ تحریف کی مدد سے ایک لحظہ کے لئے رکنے اور تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کا رجحان از خود پیدا ہوگیا۔ پطرس کو سب سے پہلے اس بات کا احساس ہوا اور انہوں نے ایک خوبصورت تحریف سپرد قلم کرکے اصل کے جذباتی مزاح کا مضحکہ اڑانے میں کامیابی حاصل کی۔
پطرس کی اس تحریف کی ایک خاص خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے پیش نظر کوئی سنجیدہ مقصد نہیں اور نہ یہ طنز کی جراحت سے قوت اور استحکام حاصل کرتی ہے۔ اس کی ساری کامیابی اس آسودگی کے احساس میں ہے جو ہلکے پھلکے مزاحیہ نکتوں کی مدد سے پیدا ہوتا ہے۔ اور جو ناظر کی جذباتی وارفتگی میں بھی ایک بچت (Economy) پیدا کر دیتا ہے۔ چنانچہ تصویر کا دوسرا رخ دکھانے، کرداروں کا مذاق اڑانے اور بات کی بلند سطح کو حقائق کی پست سطح سے ملانے میں پطرس نے ایک ایسا ہمدردانہ اندازِ نظر اختیار کیا ہے کہ ناظر کے دل میں اصل سے نفرت کا جذبہ بیدار نہیں ہوتا، بلکہ وہ اصل سے محظوظ ہونے لگتا ہے۔
پطرس کی دوسری تحریف کا عنوان ہے ”لاہور کا جغرافیہ“ اس تحریف سے یہ چند نمونے قابل غور ہیں۔
تمہید: تمہید کے طور پر صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ لاہور کو دریافت ہوئے اب بہت عرصہ گزر چکا ہے اس لئے دلائل وبراہین سے اس کے وجود کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔
محل وقوع: لاہور پنجاب میں واقع ہے لیکن پنجاب اب پنج آب نہیں رہا۔ اس پانچ دریاؤں کی سرزمین میں اب صرف ساڑھے چار دریا بہتے ہیں اور جو نصف دریا ہے وہ اب بہنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ اس کو اصطلاح میں ”راوی ضعیف“ کہتے ہیں۔ ملنے کا پتہ یہ ہے کہ شہر کے قریب دو پل بنے ہیں ان کے نیچے ریت میں یہ دریا لیٹا رہتا ہے، بہنے کا شغل عرصے سے بند ہے۔
لاہور تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں۔ وسط ایشیاء کے حملہ آور پشاور کے رستے اور یوپی کے حملہ آور دہلی کے راستے وارد ہوتے ہیں۔ اول الذکر اہل سیف کہلاتے ہیں اور غزنوی اور غوری تخلص کرتے ہیں۔ موخرالذکر اہل زبان کہلاتے ہیں یہ بھی تخلص کرتے ہیں اور اس میں یدطولٰے رکھتے ہیں۔
آب وہوا: لاہور کی آب وہوا کے متعلق طرح طرح کی روایات مشہور ہیں جو تقریباً سب کی سب غلط ہیں حقیقت یہ ہے کہ لاہور کے باشندوں نے حال ہی میں یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ اور شہروں کی طرح ہمیں بھی آب وہوا دی جائے۔ لیکن بدقسمتی سے کمیٹی کے پاس ہوا کی قلت تھی۔ اس لئے لوگوں کو ہدایت کی گئی کہ مفادِ عامہ کے پیش نظر اہل شہر ہوا کا بے جا استعمال نہ کریں بلکہ جہاں تک ہو سکے کفایت شعاری سے کام لیں۔ چنانچہ اب لاہور میں عام ضروریات کے لئے ہوا کے بجائے گرد اور خاص خاص حالات میں دھواں استعمال کیا جاتا ہے۔ کمیٹی نے جا بجا دھوئیں اور گرد کے مہیا کرنے کے لئے مرکز کھول دیئے ہیں۔
صنعت وحرفت: اشتہاروں کے علاوہ لاہور کی سب سے بڑی صنعت رسالہ بازی اور سب سے بڑی حرفت انجمن سازی ہے۔
پیداوار: لاہور کی سب سے مشہور پیدا وار یہاں کے طلباء ہیں جو بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں دسادر کو بھیجے جاتے ہیں۔ فصل شروع سرما میں بوئی جاتی ہے اور عموماً اواخر بہار میں پک کر تیار ہوجاتی ہے۔
طبعی حالات: لاہو رکے لوگ بڑے خوش طبع ہیں۔“
پطرس کی مندرجہ بالا تحریف کے دو پہلو قابل ذکر ہیں۔ پہلا تو یہ کہ یہ تحریف لفظی نہیں بلکہ ایک خاص انداز تحریر کی نقل پیش کرتی ہے۔ جغرافیہ لکھنے کا ایک خاص انداز اب اس قدر رائج ہے کہ اس انداز کی سنگلاخی کیفیت میں لچک کی اس قدر کمی ہے کہ تحریف نگاری کی تگ وتاز کے لئے ایک وسیع میدان عالم وجود میں آگیا ہے۔ چنانچہ پطرس نے اپنی اس پیروڈی میں جغرافیہ کی کسی خاص کتاب کو نہیں بلکہ جغرافیہ لکھنے کے عام انداز کو پیش نظر رکھا ہے۔ تاہم اگرچہ یہ تحریف کا دوسرا قابل ذکر پہلو ہے۔ پطرس نے اپنی اس پیروڈی میں آب وہوا، پیداوار، صنعت وحرفت، طبعی حالات اور بعض دوسرے عنوانات کے تحت لاہور کا جغرافیہ بیان کرنے کی سعی کی ہے لیکن ان عنوانات کے تحت غیر متعلق باتوں کا ذکر کرکے نہ صرف جغرافیائی معلومات کے بارے میں ناظر کی توقعات کو فسخ کیا ہے بلکہ لاہور اور اہل لاہور کی بعض ناہمواریوں کو بھی ہدف طنز بنایا ہے۔ لیکن شاید اس لئے کہ پطرس بنیادی طور پر ایک مزاح نگار ہیں ان کی اس تحریف میں طنز کی نشتریت بہت کم پیدا ہوئی ہے اور ہمدردانہ اندازِ نظر نے ازراہ مذاق یوپی کے حملہ آوروں کا ذکر کیا ہے۔ لیکن بات کو اس سے آگے نہیں بڑھایا کہ یہ لوگ اہل زبان ہیں اور تخلص کرتے ہیں اور اقلیم سخن کی وسعت کے لئے قریبی علاقوں پر حملہ کرتے ہیں اتنی سی بات نے کسی ناگوار رد عمل کو تحریک نہیں دی۔ اور دوسرا فریق جوابی حملے پر مائل نہیں ہوا۔ لیکن بعد ازاں جب کنہیا لال کپور نے اسی ایک نکتے کو لے کر ایک پورا مضمون اہلِ زبان کے بارے میں لکھ ڈالا اور اس ضمن میں تیز تیز نشتر بھی استعمال کئے تو نہ صرف ایک مکمل طنزیہ صورتحال معرض وجود میں آئی بلکہ بعض مقامات پر اندازِ نظر کی تلخی نے ردِ عمل کو بھی تحریک دی اور تلخ ترش تبادلہٴ افکار کا آغاز شروع ہوگیا۔ چنانچہ غائر نظر سے دیکھئے تو محسوس ہوگا کہ اگرچہ اپنی اس تحریف میں پطرس نے طنز کا استعمال بھی کیا ہے تاہم ان کا فطری ہمدرانہ انداز نظر اور خوش مزاجی کا رجحان پورے مضمون پر غالب ہے اور جذبہ افتخار کو تحریک دینے کی بجائے نفسی انبساط کا سامان مہیا کرتا ہے۔
خاتمے سے قبل اس بات کا اظہار ہے کہ اردو نثر میں تحریف نگاری کے سلسلے میں پطرس کو ایک مقام امتیاز حاصل ہے اس لئے کہ پطرس نے غالباً سب سے پہلے نثر میں پیروڈی کے اعلیٰ نمونے پیش کئے۔ پطرس سے قبل اردو شاعری میں پیروڈی کے نمونے تو ملتے ہیں اور اس ضمن میں رتن ناتھ سرشار، اکبر الہ آبادی اور اودھ پنج کے بہت سے معاونین کے نام پیش کئے جاسکتے ہیں لیکن نثر میں پطرس سے قبل اول تو پیروڈی کا نمونہ مشکل سے ملتا ہے اور اگر کہیں ایک آدھ چیز نظر بھی آتی ہے تو اس کی ادبی حیثیت کچھ زیادہ بلند نہیں چنانچہ بعض دوسرے اوصاف کے علاوہ پطرس کی تحریف نگاری کو تاریخی اعتبار سے بھی اہمیت حاصل ہے اور طنز وظرافت کے طالب علم کے لئے اس بات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
* * *